اس صفحہ میں سورہ Yusuf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يوسف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 44 قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ ۚ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِيْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِيْنَ بادشاہ کے خواب کو سن کر انہوں نے جواب دیا کہ یہ کوئی معنوی خواب نہیں ایسے ہی بےمعنی اور منتشر قسم کے خیالات ہیں جن کی ہم کوئی تعبیر نہیں کرسکتے۔ فرائڈ کا بھی یہی خیال ہے کہ خواب میں انسان اپنے شہوانی خیالات اور دوسری دبی ہوئی نفسانی خواہشات کی تسکین کرنا چاہتا ہے ‘ مگر اسلامی نکتہ نظر سے خواب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم ”رویائے صادقہ“ کی ہے یعنی سچے خواب ‘ یہ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور ایسے خوابوں کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے کہ یہ نبوت کے اجزاء میں سے ہیں۔ دوسری قسم کے خواب وہ ہیں جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان میں بعض اوقات شیاطینِ جن اپنی طرف سے خیالات انسانوں کے ذہنوں میں الہام بھی کرتے ہیں۔ تیسری قسم کے خواب وہ ہیں جن کا ذکر فرائڈ نے کیا ہے۔ یعنی انسان کے اپنے ہی خیالات منتشر انداز میں مختلف وجوہات کی بنا پر سوتے وقت انسان کے ذہن میں آتے ہیں اور ان میں کوئی معنی یا ربط ہونا ضروری نہیں ہوتا۔
آیت 45 وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ وہ شخص جیل سے رہا ہو کر پھر سے ساقی گری کر رہا تھا۔ اسے بادشاہ کے خواب کے ذکر سے اچانک حضرت یوسف یاد آگئے کہ ہاں جیل میں ایک شخص ہے جو خوابوں کی تعبیر بتانے میں بڑا ماہر ہے۔اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ اس طرح وہ شخص جیل میں حضرت یوسف کے پاس پہنچ کر آپ سے مخاطب ہوا :
فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِيْ سُنْۢبُلِهٖٓ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ آپ نے صرف اس خواب کی تعبیر ہی نہیں بتائی بلکہ مسئلے کی تدبیر بھی بتادی اور تدبیر بھی ایسی جو شاہی مشیروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی۔ آج کے سائنسی تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اناج کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے سٹوں کے اندر ہی رہنے دیا جائے اور ان سٹوں کو محفوظ کرلیا جائے۔ اس طرح سے اناج خراب نہیں ہوتا اور اسے کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لیے کسی اضافی preservative کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
آیت 48 ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌخوشحالی کے سات سالوں کے بعد سات سال تک خشک سالی کا سماں ہوگا جس کی وجہ سے ملک میں شدید قحط پڑجائے گا۔يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات سال تک ملک میں بہت خوشحالی ہوگی فصلیں بہت اچھی ہوں گی مگر ان سات سالوں کے بعد سات سال ایسے آئیں گے جن میں خشک سالی کے سبب شدید قحط پڑجائے گا۔ اس مسئلے کی تدبیر آپ نے یہ بتائی کہ پہلے سات سال کے دوران صرف ضرورت کا اناج استعمال کرنا اور باقی سٹوں کے اندر ہی محفوظ کرتے جانا اور جب قحط کا زمانہ آئے تو ان سٹوں سے نکال کر بقدر ضرورت اناج استعمال کرنا۔
ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيْهِ يُغَاث النَّاسُ وَفِيْهِ يَعْصِرُوْنَ جب خوب بارشیں ہوں گی تو انگور کی بیلیں خوب پھلیں پھولیں گی ‘ انگور کی پیداوار بھی خوب ہوگی ‘ لوگ خوب انگور نچوڑیں گے اور شراب کشید کریں گے۔
آیت 50 وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ بادشاہ اپنے خواب کی تعبیر اور پھر اس کی ایسی اعلیٰ تدبیر سن کر یقیناً بہت متاثر ہوا ہوگا اور اس نے سوچا ہوگا کہ ایسے ذہین فطین شخص کو جیل میں نہیں بلکہ بادشاہ کا مشیر ہونا چاہیے۔ چناچہ اس نے حکم دیا کہ اس قیدی کو فوراً میرے پاس لے کر آؤ۔فَلَمَّا جَاۗءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ بادشاہ کا پیغام لے کر جب قاصد آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا کہ میں اس طرح ابھی جیل سے باہر نہیں آنا چاہتا۔ پہلے پورے معاملے کی چھان بین کی جائے کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ اگر مجھ پر کوئی الزام ہے تو اس کی مکمل تفتیش ہو اور اگر میرا کوئی قصور نہیں ہے تو مجھے علی الاعلان بےگناہ اور بری قرار دیا جائے۔ چناچہ آپ نے اس قاصد سے فرمایا کہ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ :اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌبادشاہ تک یہ بات پہنچی تو اس نے سب بیگمات کو طلب کرلیا۔
قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوْۗءٍ اس وقت جو کچھ بھی ہوا تھا وہ سب ہماری طرف سے تھا ‘ یوسف علیہ السلام کی طرف سے کوئی غلط بات ہم نے محسوس نہیں کی۔قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ۡ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ اس طرح عزیز کی بیوی کو اس حقیقت کا برملا اظہار کرنا پڑا کہ یوسف علیہ السلام نے نہ تو زبان سے کوئی غلط بیانی کی ہے اور نہ ہی اس کے کردار میں کوئی کھوٹ ہے۔
آیت 52 ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ بالْغَيْبِ یہ فقرہ سیاق عبارت میں کس کی زبان سے ادا ہوا ہے اس کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ اس لیے کہ اس فقرے کے موقع محل اور الفاظ میں متعدد امکانات کی گنجائش ہے۔ ان اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ فقرہ عزیز کی بیوی کی زبان ہی سے ادا ہوا ہے کہ میں نے ساری بات اس لیے سچ سچ بیان کردی ہے تاکہ یوسف کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس سے کوئی غلط بات منسوب کر کے اس کی خیانت نہیں کی۔