سورہ یوسف: آیت 42 - وقال للذي ظن أنه ناج... - اردو

آیت 42 کی تفسیر, سورہ یوسف

وَقَالَ لِلَّذِى ظَنَّ أَنَّهُۥ نَاجٍ مِّنْهُمَا ٱذْكُرْنِى عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَىٰهُ ٱلشَّيْطَٰنُ ذِكْرَ رَبِّهِۦ فَلَبِثَ فِى ٱلسِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ

اردو ترجمہ

پھر اُن میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یوسفؑ نے کہا کہ "اپنے رب (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا" مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب (شاہ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھول گیا اور یوسفؑ کئی سال قید خانے میں پڑا رہا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala lillathee thanna annahu najin minhuma othkurnee AAinda rabbika faansahu alshshaytanu thikra rabbihi falabitha fee alssijni bidAAa sineena

آیت 42 کی تفسیر

یعنی میرے حالت ، میرا واقعہ اور میری حقیقت کا ذکر اپنے رب اور حاکم کے سامنے کرنا جس کے قانونی اور دستوری نظام کے تم تابع ہو۔ اور جس کے احکام کے تم مطیع ہو۔ ان معنوں میں ہی وہ تمہارا رب ہے۔ کیونکہ رب کے معنی ہی یہ ہیں کہ جو حاکم ، سردار اور قانون دہندہ ہو۔ اسلامی اصطلاح میں ربوبیت کا جو مفہوم ہے۔ یہاں اسے واضح کردیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنا چاہیے کہ حضرت یوسف گڈریوں کے دور میں تھے اور گدرئیے بادشاہوں کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ وہ خود رب ہیں جس طرح فراعنہ کا عقیدہ تھا۔ نہ وہ فرعونوں کی طرح اپنے آپ کو الٰہ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ربوبیت کا مفہوم حاکمیت تھا ، یہاں لفظ رب صریح طور پر حاکم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

اب یہاں سیاق کلام یہ تفصیلات نہیں دیتا کہ قیدی ساتھیوں کا انجام اسی طرح ہوا جس طرح حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر کی تھی۔ یہاں قصے میں خلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قارئین خود معلوم کرلیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ لیکن جس شخص کے بارے میں حضرت یوسف کی تاویل یہ تھی کہ وہ نجات پائے گا ، اس نے حضرت یوسف کے بارے میں حضرت یوسف کی وصیت کو پورا نہ کیا۔ جب وہ شاہی محلات کی زندگی کی ہماہمی میں دوبارہ پہنچا تو وہ ان سرگرمیوں میں مدہوش ہوگیا ، اس نے درس توحید بھی بھلا دیا ، حضرت یوسف کے مسئلے کو بھی پیش نہ کیا۔

فلبث ۔ یہ آخری ضمییر (لبث) حضرت یوسف کی طرف عائد ہے۔ اللہ کی حکمت کی مشیت یہ تھی کہ حضرت یوسف تمام دنیاوی اسباب سے کٹ کر صرف اللہ پر بھروسہ کریں۔ مشیت ایزدی کے نزدیک یہ بات حضرت یوسف کے شایان شان نہ تھی کہ ان کی رہائی کسی دنیاوی اور انسانی ذریعے سے ہو۔

اللہ کے مخلص بندوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے لیے خالص ہوجائیں۔ وہ صرف اس کو اپنی حاجات میں پکاریں اور دعا کریں کہ اللہ ان کو ثابت قدم رکھے۔ اور اگر کبھی ان بندوں سے کوتاہی ہوجائے تو پھر ان پر اللہ کا فضل ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی حقیقی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ وہ از سر نو شوق ، محبت اور رضامندی سے اللہ کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ اور ان پر اس کا فضل و کرم پورا ہوجاتا ہے۔

آیت 42 وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ یعنی تمہیں کبھی موقع ملے تو بادشاہ کو بتانا کہ جیل میں ایک ایسا قیدی بھی ہے جس کا کوئی قصور نہیں اور اسے خواہ مخواہ جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ بِضْع کا لفظ عربی زبان میں دو سے لے کر نو تک دس سے کم کی تعداد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

تعبیر بتا کر بادشاہ وقت کو اپنی یاد دہانی کی تاکید جسے حضرت یوسف نے اس کے خواب کی تعبیر کے مطابق اپنے خیال میں جیل خانہ سے آزاد ہونے والا سمجھا تھا اس سے در پردہ علیحدگی میں کہ وہ دوسرا یعنی باورچی نہ سنے فرمایا کہ بادشاہ کے سامنے ذرا میرا ذکر بھی کردینا۔ لیکن یہ اس بات کو بالکل ہی بھول گیا۔ یہ بھی ایک شیطانی چال ہی تھی جس سے نبی اللہ ؑ کئی سال تک قید خانے میں ہی رہے۔ پس ٹھیک قول یہی ہے کہ فانساہ میں ہ کی ضمیر کا مرجع نجات پانے والا شخص ہی ہے۔ گویا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ضمیر حضرت یوسف کی طرف پھرتی ہے۔ ابن عباس سے مرفوعاً مروی ہے کہ نبی اللہ ﷺ نے فرمایا اگر یوسف یہ کلمہ نہ کہتے تو جیل خانے میں اتنی لمبی مدت نہ گزارتے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور سے کشادگی چاہی۔ یہ روایت بہت ہی ضعیف ہے۔ اس لیے کہ سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید دونوں راوی ضعیف ہیں۔ حسن اور قتادہ سے مرسلاً مروی ہے۔ گو مرسل حدیثیں کسی موقع پر قابل قبول بھی ہوں لیکن ایسے اہم مقامات پر ایسی مرسل روایتیں ہرگز احتجاج کے قابل نہیں ہوسکتیں واللہ اعلم۔ بضع لفظ تین سے نو تک کے لیے آتا ہے۔ حضرت وہب بن منبہ کا بیان ہے کہ حضرت ایوب بیماری میں سات سال تک مبتلا رہے اور حضرت یوسف قید خانے میں سات سال تک رہے اور بخت نصر کا عذاب بھی سات سال تک رہا ابن عباس کہتے ہیں مدت قید بارہ سال تھی۔ ضحاک کہتے ہیں چودہ برس آپ نے قید خانے میں گزارے۔

آیت 42 - سورہ یوسف: (وقال للذي ظن أنه ناج منهما اذكرني عند ربك فأنساه الشيطان ذكر ربه فلبث في السجن بضع سنين...) - اردو