سورہ یوسف (12): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yusuf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يوسف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یوسف کے بارے میں معلومات

Surah Yusuf
سُورَةُ يُوسُفَ
صفحہ 240 (آیات 38 سے 43 تک)

وَٱتَّبَعْتُ مِلَّةَ ءَابَآءِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَآ أَن نُّشْرِكَ بِٱللَّهِ مِن شَىْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ ٱللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى ٱلنَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ يَٰصَىٰحِبَىِ ٱلسِّجْنِ ءَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِۦٓ إِلَّآ أَسْمَآءً سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ ۚ إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا۟ إِلَّآ إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ يَٰصَىٰحِبَىِ ٱلسِّجْنِ أَمَّآ أَحَدُكُمَا فَيَسْقِى رَبَّهُۥ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا ٱلْءَاخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ ٱلطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِۦ ۚ قُضِىَ ٱلْأَمْرُ ٱلَّذِى فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ وَقَالَ لِلَّذِى ظَنَّ أَنَّهُۥ نَاجٍ مِّنْهُمَا ٱذْكُرْنِى عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَىٰهُ ٱلشَّيْطَٰنُ ذِكْرَ رَبِّهِۦ فَلَبِثَ فِى ٱلسِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ وَقَالَ ٱلْمَلِكُ إِنِّىٓ أَرَىٰ سَبْعَ بَقَرَٰتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنۢبُلَٰتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَٰتٍ ۖ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْمَلَأُ أَفْتُونِى فِى رُءْيَٰىَ إِن كُنتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُونَ
240

سورہ یوسف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یوسف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اپنے بزرگوں، ابراہیمؑ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaittabaAAtu millata abaee ibraheema waishaqa wayaAAqooba ma kana lana an nushrika biAllahi min shayin thalika min fadli Allahi AAalayna waAAala alnnasi walakinna akthara alnnasi la yashkuroona

نشانات کفر بتانے کے بعد یوسف (علیہ السلام) ان نوجوانوں کے سامنے نشانات ایمان بھی رکھتے ہیں ، جن پر وہ اور ان کے آباء چل رہے ہیں۔

میں نے اپنے بزرگوں ابراہیم ، اسحاق ، اور یعقوب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک ٹھہرائیں۔

ملت اسلامیہ مکمل توحید کی ملت ہے ، اور اس میں اللہ کے ساتھ شرک کا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ توحید کی طرف ہدایت کرنا اللہ کی طرف سے فضل و کرم ہے۔ اور یہ فضل و کرم اس قدر عام ہے کہ ہر شخص اس کو قبول کرسکتا ہے اور حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ اس کا رجحان اور اس کے اصول انسان کی فطرت کے اندر موجود ہیں۔ اور اس کے اشارات اور براہین انسانی ماحول کے اندر بھی موجود ہیں۔ رسولوں کی ہدایات اور کتب سماوی میں اس کی تعلیمات بھی موجود ہیں لیکن لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اس عمومی فضل و کرم سے اپنے آپ کو محروم رکھ رہے ہیں۔ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ : در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

حضرت یوسف آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں اپنی بات اتار رہے ہیں ، نہایت ہی احتیاط کے ساتھ ، نہایت نرمی کے ساتھ۔ ان کے دلوں میں بات کو بٹھاتے چلے جاتے ہیں اور اپنے عقائد و نظریات کا اظہار آہستہ آہستہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور ساتھ یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے ہیں کہ تمہارے اور تمہاری قوم کے عقائد و نظریات غلط ، فاسد اور باطل ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں وہ سوسائٹی ایک فاسد سوسائٹی ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں۔ اس طویل تمہید کے بعد حضرت یوسف اصل بات کہتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب غالب ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya sahibayi alssijni aarbabun mutafarriqoona khayrun ami Allahu alwahidu alqahharu

حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے ان نہایت ہی مختصر ، واضح اور فیصلہ کن کلمات کے اندر دین اسلام کے پورے نشانات راہ نقش کرکے رکھ دیے ہیں۔ اس دین کے پورے عناصر ترکیبی بیان کردیے گئے ہیں۔ حضرت یوسف ان نشانات اور ان عناصر کی براہ راست دعوت نہیں دیتے بلکہ ان کو ایک موضوع غور و فکر کے طور پر ان کے سامنے رکھتے ہیں۔

يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ : " اے زندان کے ساتھیو ، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟ "

یہ ایک ایسا سوال ہے کہ براہ راست انسانی فطرت کی گہرائیوں میں لگتا ہے اور فطرت انسانی کو خوب جھنجھوڑتا ہے۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ الہ ایک ہونا چاہیے۔ اگر تم محسوس کرتے ہو کہ یہ فطرت کا تقاضا ہے تو پھر کیوں تم ارباب متفرقون کے قائل ہو ، یعنی جو ذات اس بات کی مستحق ہے کہ اسے رب اور حاکم تسلیم کیا جائے ، جس کی عبادت اور بندگی کی جائے اور جس کی اطاعت کی جاتی رہے۔ وہ صرف اللہ واحد اور قہار ہی ہے۔ اگر ہم اس بات کو تسلیم کرلیں کہ انسانی فطرت اور عالم کی فطرت کا الہ اور رب اللہ وحدہ ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان کی اخیتار زندگی میں رب ، حکم اور شارع وہی اللہ وحدہ ہو۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ وحدہ ہی خالق اور قہر ہے اور پھر بھی وہ غیر اللہ کی بندگی اور اطاعت کریں۔ اور اس کے سوا پھر کوئی ان کا حاکم ہو۔ رب ہی الہ اور حاکم ہوتا ہے۔ وہ اس پوری کائنات کے امور کو بھی چلاتا ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک ذات کائنات کو نہ چلا سکتی ہو اور وہ ھو رب الناس ہو یہ عقلاً ممکن نہیں ہے۔

لہذا اللہ واحد اور قہار ہی اس بات کا مستحق ہے اور بہتر ہے کہ لوگ اس کی بندگی کریں۔ بجائے اس کے کہ وہ ارباب متفرقہ کی بندگی کریں جن کو اندھی جاہلیت نے گھڑ رکھا ، جس کی نظر کوتاہ ہوتی ہے اور وہ فریب کے سوا کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے انسانیت کے لیے سب سے بڑی بدبختی ہی یہ ہے کہ وہ ایک الہ کے بجائے متعدد الہوں کو مانے اور یہ متعدد الٰہ اس کی زندگی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔ ان کے رجحانات اور میلانات کے اندر بھی کشمکش ہو اللہ کے سوا جس قدر ارباب ہم نے بنا رکھے ہیں یہ در اصل اللہ تعالیٰ کے حق حاکمیت پر دست درازی کرتے ہیں اور ہم نے اپنی جاہلیت کی وجہ سے ، وہم پرستی کی وجہ سے خرافات اور قصے کہانیوں کی وجہ سے ان ارباب من دون اللہ کو رب تسلیم کر رکھا ہے۔ یا بعض جبار وقہار انسانی الٰہوں نے اپنی ربوبیت کا نظام لوگوں پر جبراً مسلط کر رکھا ہے۔ اور یہ انسانی ارباب ایک منٹ کے لیے بھی اپنے ذاتی مفادات ، اپنے وجود اور اپھنی عزت کی بقا کے جذبات اور خواہشات سے علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ اور ان کے دلوں میں یہ خواہش کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے کہ عوام الناس پر ان کا تسلط جاری اور باقی رہے۔ ایسے الٰہوں کی پالیسی اور دائمی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ ان قوتوں کو کچل کر رکھ دیتے جن سے انہیں براہ راست یا بالواسطہ کوئی بھی خوف ہو۔ نیز الٰہ ان قوتوں کو ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں ان کی پرورش کرتے ہیں اور ان کے حق میں پروپیگنڈہ کرتے جو ان کی خدائی کے قیام اور بقا میں ممد و معاون ہوتی ہیں۔ یہ الٰہ ایسے تمام اداروں کی ترقی اور عزت افزائی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔

جبکہ اللہ واحد اور قہار ہے اور وہ دونوں جہاد سے غنی ہے۔ اللہ کا مطالبہ لوگوں سے صرف یہ ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں ، نیکی کی راہ لیں اور اپنی اصلاح اور اپنے ماحول کی اصلاح و تعمیر کریں اور یہ اصلاح اور تعمیری کام اللہ کی قائم کردہ شریعت کے مطابق ہو۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کا کام بھی پورے کا پورا عبادت ہوگا۔ اللہ نے جو عبادات انسانوں کے لیے فرض کی ہیں وہ بھی ایسی ہیں جن سے خود انسانوں کے دل و دماغ اور سیرت و کردار کی اصلاح مطلوب ہے۔ ورنہ اللہ کو تو انسانوں کی طرف سے کسی عبادت اور بندگی کی ضرورت نہیں ہے۔

یا ایہا الناس انتم الفقراء الی اللہ واللہ ھو الغنی الحمدی " اے لوگو تم اللہ کی طرف محتاج ہو اور صرف اللہ ہی غنی اور حمید ہے۔ اس لیے اللہ کی بندگی اور غلامی اور اللہ کے دوسرے الٰہوں کی بندگی اور غلامی میں بہت فرق ہے۔

اردو ترجمہ

اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma taAAbudoona min doonihi illa asmaan sammaytumooha antum waabaokum ma anzala Allahu biha min sultanin ini alhukmu illa lillahi amara alla taAAbudoo illa iyyahu thalika alddeenu alqayyimu walakinna akthara alnnasi la yaAAlamoona

اس کے بعد حضرت یوسف ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں۔ اور اب وہ ذرا کھل کر جاہلیت کے افکار اور اوہام پر تنقید فرماتے ہیں : مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ : اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو ، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھ لیے ہیں ، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔

یہ ارباب ، خواہ وہ انسانوں میں سے ہوں یا غیر انسان ہوں ، مثلا فرشتے ، ارواح اور شیاطین یا دوسری کائناتی قوتیں جو اللہ کے تابع ہیں ، یہ کسی معنی میں بھی رب نہیں ہیں۔ اور انہ ان کو حقیقت ربوبیت میں سے کوئی حقیقت حاصل ہے۔ کیونکہ حق ربوبیت اور مقام ربوبیت صرف اللہ وحدہ کو حاصل ہے اور وہی اس کا سزاوار ہے۔ کیونکہ وہی خالق ہے اور اسی کے کنٹرول میں تمام مخلوقات زندہ رہ رہی ہیں۔ لیکن مختلف جاہلیتوں میں لوگوں نے خود اپنی طرف سے بعض قوتوں کو رب کے نام سے موسوم کردیا ہے ، یہ رب حقیقی کی صفات کو ان نام نہاد ارباب کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ درحقیقت ان کے اندر نہ صفات موجود ہیں اور نہ ان کو رب حقیقی کی طرح کسی پر قہر اور غلبہ حاصل ہے۔

اب حضرت یوسف (علیہ السلام) ان کے غلط عقائد پر آخری ضرب لگاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اصل سلطنت کا حقدار و سزاوار کون ہے ؟ کون اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ؟ کون اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی بندگی کی جائے فقط اس کی ؟

اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : فرمانروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو ، یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

حکم اور حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے ، حاکمیت خاصہ خدائی ہے۔ اس لیے اللہ کے سوا کوئی اور حاکم ہو ہی نہٰں سکتا۔ اللہ کے سوا کوئی اور شخص اگر اللہ کے اس حق میں کوئی دعویداری کرے گا وت اس کا مقدمہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوگا ، چاہے اللہ کے سوا حاکمتی کا دعوی کرنے والا کوئی فرد واحد ہو ، یا کوئی طبقہ ہو یا کوئی جماعت ، یا کوئی امت یا سب کے سب لوگ ہوں یا کوئی عالمی ادارہ ہو۔ اور جو شخص اللہ کے بالمقابل اپنی حاکمتی (Soverenity) کا مدعی ہوگا وہ گویا کفر کا ارتکاب کرے گا اور یہ اس کی جانب سے واضح کفر ہوگا۔ اور یہ آیت اس پر نص صریح ہے۔

اب کوئی شخص کس طرح اللہ کے بالمقابل دعوائے الوہیت کرسکتا ہے ؟ کسی بھی صورت میں اگر کوئی دعوی کرے گا تو مدعی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہوگا چاہے وہ فرعون کی طرح دعوی کرے اور کہے (انا ربکم الاعلی) یا وہ کہے (ما علمت لکم من الہ غیری) یا وہ اسلامی شریعت کو نظام حکمرانی سے خارج کردے یا وہ یہ فیصلہ کردے کہ حکمرانی اور قانون سازی کا مرجع اللہ کے سوا کوئی اور ہوگا۔ اگرچہ وہ فرد ہو یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو۔

اسلامی نظام میں امت مسلم ہی حاکم کا انتخاب کرتی ہے اور کسی شخص کو حاکمیت کا اختیار دیتی ہے اور وہ یہ اختیارات استعمال کرتا ہے لیکن وہ اپنے اختیارات شرعی حدود کے اندر استعمال کرسکتا ہے۔ اسلامی نظام میں کوئی شخص یا کوئی ادارہ مصدر قانون سازی اور مصدر حاکمیت نہیں ہوتا ، حاکمیت اور قانون سازی کا اختیار صرف اللہ کو حاصل ہوگا۔ بیشمار مسلم مفکرین حق حاکمیت کے استعمال اور مصدر حاکمیت کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تمام انسان حق حاکمیت کے مالک نہیں ہیں۔ حق حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہے۔ جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے تو ان کی ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ اللہ نے جو نظام قانون اور دستور متعین فرما دیا ہے ، انسان صرف اس کے نافذ کرنے والے ہیں۔ لیکن جو دستور اور قانون اللہ نے نہیں بنایا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اور اس کی قانونی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔

حضرت یوسف (علیہ السلام) اس بات کی دلیل بھی بیان کر رہے ہیں : اس دلیل کو ہم تب ہی سمجھ سکتے ہیں جب ہم لفظ عبادت کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اسی طرح جس طرح عرب اسے سمجھتے تھے۔

عبد کا مفہوم عربی میں ہے (دان و خضع و ذل) یعنی تابع ہوا ، تابع فرمان ہوا اور کسی کے سامنے جھکا اور ذلیل ہوا۔ آغاز اسلام میں عبادت کا مفہوم بھی مراسم عبودیت اور پرستش نہ تھا۔ اس لیے کہ جب سب سے پہلے یہ آیات نازل ہوئیں تو اس وقت مراسم عبودیت فرض ہی نہ تھے۔ یہ (نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ اور جہاد) بعد میں فرض ہوئے۔ ابتداء میں عبادت کا لفظ اپنے لغوی مفہوم میں استعمال ہوا تھا جو بعد میں اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوا۔ ابتدا میں اس لفظ کا مفہوم یہ تھا کہ صرف اللہ کی اطاعت کی جائے ، صرف اللہ کے سامنے جھکا جائے ، صرف اللہ کے احکام مانے جائیں ، ان احکام کا تعلق عبادات کے مراسم سے ہو ، یا اخلاقی امور سے ، ان تمام شعبوں پر لفظ عبادت کا اطلاق ہوتا تھا۔ اس کے مفہوم میں اطاعت اور بندگی شامل تھی جس کے بارے میں اللہ کا حکم تھا کہ اس کے سوا کسی کی اطاعت اور بندگی نہ کی جائے۔

جب ہم عبادت کے اس مفہوم کو معلوم کرلیں تو پھر ہماری سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے کہا حکم اللہ کا ہے ، اس لیے عبادت اور بندگی اور اطاعت بھی صرف اسی کی ہے۔ اگر حکم کسی اور کا ہو تو پھر صرف اللہ کی بندگی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اور حکم اللہ کا ہے ، ایک عام اصول ہے اس سے مراد تکوینی حکم بھی ہے کہ اس کائنات کے بارے میں وہی متصرف فی الامور ہے اور اس سے مراد شرعی اور قانونی حاکمیت بھی ہے کہ شرعی اور تکوینی امور بھی اللہ ہی کے ہوں گے۔

میں اس بات کو دوبارہ دہراتا ہوں کہ جو شخص حاکمیت کے حق میں اللہ کے برخلاف دعویداری کرتا ہے وہ دین اسلام سے خارج ہے۔ اور اس کے بارے میں اسلام کا حکم واضح اور لازمی ہے اور یہ در اصل بدترین شرک اور کفر بواح (صریح کفر) ہے۔ اسی طرح جو شخص اللہ کے بالمقابل حاکمیت کا دعوی کرتا ہے اور دوسرے لوگ اس کا اقرار کرتے ہیں اور دل سے اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنے دل میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے وہ لوگ بھی کفر بواح کے مرتکب ہیں اور وہ دین اسلام سے خارج ہیں۔

حضرت یوسف فرماتے ہیں کہ چونکہ اللہ ہی حاکم مطلق ہے اس لیے ہی اللہ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور یہ درست اور صحیح دین ہے۔ ذلک الدین القیم " یہی دین قیم ہے " یعنی اس کے سوا دین قیم کی اور کوئی صورت نہیں ہے۔ درست دین وہی ہے جس میں حاکمتی صرف اللہ کی ہو۔ اور اللہ کی حاکمیت کا اظہار اس طرح ہو کہ لوگ صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت کریں

چونکہ لوگ حقیقت کو نہیں جانتے ، اس لیے لازم نہیں آتا کہ اپنی جہالت کی وجہ سے وہ دین قیم پر متصور ہوں۔ اس لیے کہ جو دین اسلام کو جانتا ہی نہیں اس کی زندگی میں دین کا وجود متحقق کس طرح ہوسکتا ہے ؟ اگر لوگوں کی حالت یہ ہو کہ وہ حقیقت دین ہی سے بیخبر ہیں تو عقلا حقیقتاً اور بطور واقعہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ دین پر ہیں۔ جہالت کوئی عذر نہیں ہے جو ان کو صفت اسلام سے متصف کردے کیونکہ جہالت تو سرے سے صفت دین ہی کی نفی کردیتی ہے کیو کہ کوئی شخص اس وقت تک اسلام کا اعتقاد نہیں رکھ سکتا جب تک وہ اسلام کو جانے نہیں۔ یہ بات نہایت ہی منطقی اور بدیہی ہے۔

حضرت یوسف نے ان واضح اور فیصلہ کن اور مختصر کلمات کے ذریعے شرک کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے اور دین اسلام کے حقیقی نشانات مقرر کردئیے ہیں۔ اور اسلامی نظریہ حیات کے تمام بنیادی عناصر یہاں بیان کردئیے ہیں اور ایک دو فقروں میں جاہلیت کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے۔

دنیا میں طاغوتی نظام قائم ہی تب ہوتا ہے جب وہ اللہ سے حق حاکمیت چھین لے اور لوگوں سے اللہ کے بجائے اپنی اطاعت کرائے۔ یعنی لوگ اللہ کی شریعت اور قانون کے بجائے اس کی شریعت کے مطیع فرمان ہوں اور وہ طاغوتی سوچ ، طاغوتی قانون اور طاغوتی احکام اور اطاعت رائج کردیں۔ اس کے سوا طاغوت قائم ہی نہیں ہوتا۔

طاغوتی نظام قائم ہی تب ہوتا ہے جب دین اسلام دنیا سے غائب ہوجائے۔ جب لوگوں کے دل و دماغ میں یہ عقیدہ راسخ ہو کہ اللہ کے سوائی اور حاکم اور مطاع نہیں ہے اور تمام معاملات زندگی میں انسانوں نے صرف اللہ کی اطاعت کرنا ہے تو اس سوقت طاغوتی نظام قائم ہی نہیں ہوتا۔

یہاں حضرت یوسف اپنا حقیقی درس اور تعلیم ختم فرما دیتے ہیں اور اس تقریر کو الٰہوں کے ابتداء میں قیدیوں کی مراد اور مطلب سے مربوط کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہی تاکہ قیدیوں کے سوال کا جواب بھی دے دیں۔

اردو ترجمہ

اے زنداں کے ساتھیو، تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب (شاہ مصر) کو شراب پلائے گا، رہا دوسرا تو اسے سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے فیصلہ ہو گیا اُس بات کا جو تم پوچھ رہے تھے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya sahibayi alssijni amma ahadukuma fayasqee rabbahu khamran waamma alakharu fayuslabu fatakulu alttayru min rasihi qudiya alamru allathee feehi tastaftiyani

حضرت یوسف نے اچھے انجام پانے والے اور برے انجام تک پہنچنے والے کا یہاں تعین نہیں فرمایا کیونکہ انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ برا انجام پانے والے کو ذاتی طور پر مخاطب کریں البتہ انہوں نے تاکید سے کہہ دیا کہ انجام یہی ہوگا۔ یہ امر فیصلہ شدہ ہے جس طرح فیصلہ ویسا ہی ہونے والا ہے۔ حضرت یوسف ایک ناکردہ گناہ قیدی تھے ۔ بادشاہ نے ان کی قید کا حکم بغیر سوچ اور تحقیق کے صادر فرما دیا تھا۔ شاید اس کے حاشیہ نشینوں نے عزیز مصری کی بیوی کے واقعہ کو اس طرح اس کے سامنے پیش کیا کہ اس میں حضرت یوسف کو گناہ گار کر کے پیش کیا ہوک ، جس طرح با اثر طبقات عموماً ایسا کرلیتے ہیں۔ چناچہ حضرت یوسف نے اس موقعہ پر یہ مناسب سمجھا کہ وہ بادشاہ تک یہ بات پہنچا دیں کہ وہ ان کے معاملے میں تحقیق کرے۔

اردو ترجمہ

پھر اُن میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یوسفؑ نے کہا کہ "اپنے رب (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا" مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب (شاہ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھول گیا اور یوسفؑ کئی سال قید خانے میں پڑا رہا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala lillathee thanna annahu najin minhuma othkurnee AAinda rabbika faansahu alshshaytanu thikra rabbihi falabitha fee alssijni bidAAa sineena

یعنی میرے حالت ، میرا واقعہ اور میری حقیقت کا ذکر اپنے رب اور حاکم کے سامنے کرنا جس کے قانونی اور دستوری نظام کے تم تابع ہو۔ اور جس کے احکام کے تم مطیع ہو۔ ان معنوں میں ہی وہ تمہارا رب ہے۔ کیونکہ رب کے معنی ہی یہ ہیں کہ جو حاکم ، سردار اور قانون دہندہ ہو۔ اسلامی اصطلاح میں ربوبیت کا جو مفہوم ہے۔ یہاں اسے واضح کردیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنا چاہیے کہ حضرت یوسف گڈریوں کے دور میں تھے اور گدرئیے بادشاہوں کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ وہ خود رب ہیں جس طرح فراعنہ کا عقیدہ تھا۔ نہ وہ فرعونوں کی طرح اپنے آپ کو الٰہ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ربوبیت کا مفہوم حاکمیت تھا ، یہاں لفظ رب صریح طور پر حاکم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

اب یہاں سیاق کلام یہ تفصیلات نہیں دیتا کہ قیدی ساتھیوں کا انجام اسی طرح ہوا جس طرح حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر کی تھی۔ یہاں قصے میں خلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قارئین خود معلوم کرلیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ لیکن جس شخص کے بارے میں حضرت یوسف کی تاویل یہ تھی کہ وہ نجات پائے گا ، اس نے حضرت یوسف کے بارے میں حضرت یوسف کی وصیت کو پورا نہ کیا۔ جب وہ شاہی محلات کی زندگی کی ہماہمی میں دوبارہ پہنچا تو وہ ان سرگرمیوں میں مدہوش ہوگیا ، اس نے درس توحید بھی بھلا دیا ، حضرت یوسف کے مسئلے کو بھی پیش نہ کیا۔

فلبث ۔ یہ آخری ضمییر (لبث) حضرت یوسف کی طرف عائد ہے۔ اللہ کی حکمت کی مشیت یہ تھی کہ حضرت یوسف تمام دنیاوی اسباب سے کٹ کر صرف اللہ پر بھروسہ کریں۔ مشیت ایزدی کے نزدیک یہ بات حضرت یوسف کے شایان شان نہ تھی کہ ان کی رہائی کسی دنیاوی اور انسانی ذریعے سے ہو۔

اللہ کے مخلص بندوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے لیے خالص ہوجائیں۔ وہ صرف اس کو اپنی حاجات میں پکاریں اور دعا کریں کہ اللہ ان کو ثابت قدم رکھے۔ اور اگر کبھی ان بندوں سے کوتاہی ہوجائے تو پھر ان پر اللہ کا فضل ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی حقیقی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ وہ از سر نو شوق ، محبت اور رضامندی سے اللہ کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ اور ان پر اس کا فضل و کرم پورا ہوجاتا ہے۔

اردو ترجمہ

ایک روز بادشاہ نے کہا "میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دوسری سات سوکھی اے اہل دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala almaliku innee ara sabAAa baqaratin simanin yakuluhunna sabAAun AAijafun wasabAAa sunbulatin khudrin waokhara yabisatin ya ayyuha almalao aftoonee fee ruyaya in kuntum lilrruya taAAburoona

منظر پھر منتقل ہوجاتا ہے۔ اب ہم بادشاہ کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں۔ بادشاہ نے ایک اہم خواب دیکھا ہے۔ وہ اپنے حاشیہ نشینوں اور کاہنوں اور مذہبی لیڈروں سے اس کی حقیقی تاویل دریافت کرتا ہے۔

بادشاہ نے اس خواب کی تعبیر چاہی اور اس کے ارد گرد بیٹھنے والے حاشیہ نشین اور درباری مذہبی لیڈر ان خوابوں کی تعبیر نہ بتا سکے۔ یا انہوں نے محسوس تو کرلیا تھا کہ ملک کو کچھ مشکلات در پیش آنے والی ہیں لیکن وہ بادشاہ کے سامنے کسی بدشگونی کے اظہار کی جرات نہ کرسکے۔ شاہی درباریوں کا یہ طریقہ کار ہوتا ہے کہ وہ بات کو ٹال دیتے ہیں اور یا جو بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے ان اہم خوابوں پر ایسا ہی تبصرہ کیا کہ یہ خواب ہائے پریشان ہیں اور ان کو ان تاویل کی کوئی سمجھ نہیں آرہی ہے۔ کیونکہ ان خوابوں میں کوئی واضح اشارہ نہیں ہے۔

یہاں تک تین خوابوں کے ساتھ ہمارا واسطہ پڑچکا ہے۔ حضرت یوسف کا خواب ، یوسف کے دو قیدی ساتھیوں کے خواب ، اور با بادشاہ وقت کا خواب۔ ان خوابوں کی تعبیر اور اور ان خوابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں مصر اور مصر سے باہر اردگرد کی دنیا میں تعبیر خواب کا فن بہت ہی زوروں پر تھا اور اللہ نے حضرت یوسف کو اپنی جانب سے جو صلاحیت دی ، کہ وہ خوابوں کی تعبیر تک پہنچ جاتے تھے ، وہ ایک ایسا کامل تھا جو روح عصر تھا۔ اور تمام انبیاء کو جو بھی معجزات دیے جاتے ہیں وہ ان کے عصری ماحول کی مناسبت سے ہوتے ہیں۔ تو کیا خوابوں کی تعبیر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لیے ایک معجزہ تھا۔ یہاں فی ظلال القرآن می ہم یایس بحثیں نہیں چھیڑتے۔ بہرحال بادشاہ نے خواب دیکھا ہے اور اس کی تعبیر کی تلاش ہے۔

240