حضرت یوسف نے اچھے انجام پانے والے اور برے انجام تک پہنچنے والے کا یہاں تعین نہیں فرمایا کیونکہ انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ برا انجام پانے والے کو ذاتی طور پر مخاطب کریں البتہ انہوں نے تاکید سے کہہ دیا کہ انجام یہی ہوگا۔ یہ امر فیصلہ شدہ ہے جس طرح فیصلہ ویسا ہی ہونے والا ہے۔ حضرت یوسف ایک ناکردہ گناہ قیدی تھے ۔ بادشاہ نے ان کی قید کا حکم بغیر سوچ اور تحقیق کے صادر فرما دیا تھا۔ شاید اس کے حاشیہ نشینوں نے عزیز مصری کی بیوی کے واقعہ کو اس طرح اس کے سامنے پیش کیا کہ اس میں حضرت یوسف کو گناہ گار کر کے پیش کیا ہوک ، جس طرح با اثر طبقات عموماً ایسا کرلیتے ہیں۔ چناچہ حضرت یوسف نے اس موقعہ پر یہ مناسب سمجھا کہ وہ بادشاہ تک یہ بات پہنچا دیں کہ وہ ان کے معاملے میں تحقیق کرے۔
آیت 41 يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًایہاں پر رب کا لفظ بادشاہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یہ اس شخص کے خواب کی تعبیر ہے جس نے خود کو شراب کشید کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ شخص پہلے بھی بادشاہ کا ساقی تھا مگر اس پر کوئی الزام لگا اور اسے جیل بھیج دیا گیا۔ حضرت یوسف نے خبر دے دی کہ اس کے خواب کے مطابق وہ اس الزام سے بری ہو کر اپنے پرانے عہدے پر بحال ہوجائے گا۔
خواب اور اس کی تعبیر اب اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ان کے خواب کی تعبیر بتلا رہے ہیں لیکن یہ نہیں فرماتے کہ تیری خواب کی یہ تعبیر ہے اور تیرے خواب کی یہ تعبیر ہے تاکہ ایک رنجیدہ نہ ہوجائے اور موت سے پہلے اس پر موت کا بوجھ نہ پڑجائے۔ بلکہ مبہم کر کے فرماتے ہیں تم دو میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کا ساقی بن جائے گا یہ دراصل یہ اس کے خواب کی تعبیر ہے جس نے شیرہ انگور تیار کرتے اپنے تئیں دیکھا تھا۔ اور دوسرے جس نے اپنے سر پر روٹیاں دیکھی تھیں۔ اس کے خواب کی تعبیر یہ دی کہ اسے سولی دی جائے گی اور پرندے اس کا مغز کھائیں گے۔ پھر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ اب ہو کر ہی رہے گا۔ اس لیے کہ جب تک خواب کی تعبیر بیان نہ کی جائے وہ معلق رہتا ہے اور جب تعبیر ہوچکی وہ ظاہر ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ تعبیر سننے کے بعد ان دونوں نے کہا کہ ہم نے تو دراصل کوئی خواب دیکھا ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا اب تو تمہارے سوال کے مطابق ظاہر ہو کر ہی رہے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو شخص خواہ مخواہ کا خواب گھڑ لے اور پھر اس کی تعبیر بھی دی دے دی جائے تو وہ لازم ہوجاتی ہے۔ واللہ اعلم۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں خواب گویا پرندے کے پاؤں پر ہے جب تک اس کی تعبیر نہ دے دی جائے جب تعبیر دے دی گئی پھر وہ واقع ہوجاتا ہے مسند ابو یعلی میں مرفوعا مروی ہے کہ خواب کی تعبیر سب سے پہلے جس نے دی اس کے لیے ہے۔