سورہ یوسف: آیت 38 - واتبعت ملة آبائي إبراهيم وإسحاق... - اردو

آیت 38 کی تفسیر, سورہ یوسف

وَٱتَّبَعْتُ مِلَّةَ ءَابَآءِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَآ أَن نُّشْرِكَ بِٱللَّهِ مِن شَىْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ ٱللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى ٱلنَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

اردو ترجمہ

اپنے بزرگوں، ابراہیمؑ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaittabaAAtu millata abaee ibraheema waishaqa wayaAAqooba ma kana lana an nushrika biAllahi min shayin thalika min fadli Allahi AAalayna waAAala alnnasi walakinna akthara alnnasi la yashkuroona

آیت 38 کی تفسیر

نشانات کفر بتانے کے بعد یوسف (علیہ السلام) ان نوجوانوں کے سامنے نشانات ایمان بھی رکھتے ہیں ، جن پر وہ اور ان کے آباء چل رہے ہیں۔

میں نے اپنے بزرگوں ابراہیم ، اسحاق ، اور یعقوب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک ٹھہرائیں۔

ملت اسلامیہ مکمل توحید کی ملت ہے ، اور اس میں اللہ کے ساتھ شرک کا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ توحید کی طرف ہدایت کرنا اللہ کی طرف سے فضل و کرم ہے۔ اور یہ فضل و کرم اس قدر عام ہے کہ ہر شخص اس کو قبول کرسکتا ہے اور حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ اس کا رجحان اور اس کے اصول انسان کی فطرت کے اندر موجود ہیں۔ اور اس کے اشارات اور براہین انسانی ماحول کے اندر بھی موجود ہیں۔ رسولوں کی ہدایات اور کتب سماوی میں اس کی تعلیمات بھی موجود ہیں لیکن لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اس عمومی فضل و کرم سے اپنے آپ کو محروم رکھ رہے ہیں۔ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ : در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

حضرت یوسف آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں اپنی بات اتار رہے ہیں ، نہایت ہی احتیاط کے ساتھ ، نہایت نرمی کے ساتھ۔ ان کے دلوں میں بات کو بٹھاتے چلے جاتے ہیں اور اپنے عقائد و نظریات کا اظہار آہستہ آہستہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور ساتھ یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے ہیں کہ تمہارے اور تمہاری قوم کے عقائد و نظریات غلط ، فاسد اور باطل ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں وہ سوسائٹی ایک فاسد سوسائٹی ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں۔ اس طویل تمہید کے بعد حضرت یوسف اصل بات کہتے ہیں۔

آیت 38 وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ آپ کی اس بات سے موروثی اور شعوری عقائد کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی ایک تو وہ عقائد و نظریات ہیں جو بچہ اپنے والدین سے اپناتا ہے ‘ جیسے ایک مسلمان گھرانے میں بچے کو موروثی طور پر اسلام کے عقائد ملتے ہیں۔ اللہ اور رسول کا نام وہ بچپن ہی سے جانتا ہے ‘ ابتدائی کلمے اس کو پڑھا دیے جاتے ہیں ‘ نماز بھی سکھا دی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنے آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں اپنے علم اور غور و فکر سے کوئی عقیدہ اختیار کرے گا تو وہ اس کا شعوری عقیدہ ہوگا۔ چناچہ حضرت یوسف نے اپنے اس شعوری عقیدے کا ذکر کیا کہ اگرچہ وہ جن لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں وہ اللہ اس کے کسی نبی اور وحی وغیرہ کے تصورات سے نابلد ہیں ‘ سب کے سب کافر اور مشرک ہیں مگر مجھے دیکھو میں نے اس ماحول کا اثر قبول نہیں کیا اپنے ارد گرد کے لوگوں کے نظریات و عقائد نہیں اپنائے بلکہ پورے شعور کے ساتھ اپنے آباء و اَجداد کے نظریات کو صحیح مانتے ہوئے ان کی پیروی کر رہا ہوں صرف اس لیے نہیں کہ وہ میرے آباء و اَجداد تھے ‘ بلکہ اس لیے کہ یہی راستہ میرے نزدیک معقول اور عقل سلیم کے قریب تر ہے۔ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ یعنی شرک سے بچنے اور توحید کو اپنانے کا عقیدہ دراصل اللہ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا فضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس حیثیت میں انسان کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کی پرستش کرتا پھرے جنہیں خود اس کی خدمت اور استفادے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

آیت 38 - سورہ یوسف: (واتبعت ملة آبائي إبراهيم وإسحاق ويعقوب ۚ ما كان لنا أن نشرك بالله من شيء ۚ ذلك من فضل الله...) - اردو