یعنی تمہارا لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور میں اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وہ بات جو ان کے دلوں میں کینہ کی آگ دہکا رہی ہتھی کہ اباجان یوسف کو ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں اور کسی وقت بھی اپنے سے جدا نہیں کرتے اگرچہ ایک دن کے لیے کیوں نہ ہو۔ حالانکہ وہ اسے سیر و تفریح کے لیے لے جا رہے ہیں۔
حضرت یعقوب نے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھالے جبکہ تم غافل ہو۔ در اصل وہ کینہ اور حسد کی وجہ سے اس قدر اندھے ہوگئے تھے کہ وہ سوچتے بھی نہ تھے کہ آخر یوسف کے قتل کے بعد وہ جواب کیا دیں گے ، لیکن حضرت یعقوب کے اس اندیشے نے ان کو عذر بتا دیا۔
آیت 13 قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ وہ تمہارے ساتھ چلا جائے پھر تم لوگ اپنی مصروفیات میں منہمک ہوجاؤ اس طرح وہ جنگل میں اکیلا رہ جائے اور کوئی بھیڑیا اسے پھاڑ کھائے۔
انجانے خطرے کا اظہار نبی اللہ حضرت یعقوب ؑ اپنے بیٹوں کی اس طلب کا کہ بھائی یوسف کو ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے جواب دیتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہے مجھے اس سے بہت محبت ہے۔ تم اسے لے جاؤ گے مجھ پر اس کی اتنی دیر کی جدائی بھی شاق گزرے گی۔ حضرت یعقوب کی اس بڑھی ہوئی محبت کی وجہ یہ تھی کہ آپ حضرت یوسف کے چہرے پر خیر کے نشان دیکھ رہے تھے۔ نبوت کا نور پیشانی سے ظاہر تھا۔ اخلاق کی پاکیزگی ایک ایک بات سے عیاں تھی۔ صورت کی خوبی، سیرت کی اچھائی کا بیان تھی، اللہ کی طرف سے دونوں باپ بیٹوں پر صلوۃ وسلام ہو۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ممکن ہے تم اپنی بکریوں کے چرانے چگانے اور دوسرے کاموں میں مشغول رہو اور اللہ نہ کرے کوئی بھیڑیا آکر اس کا کام تمام کر جائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔ آہ حضرت یعقوب ؑ کی اسی بات کو انہوں نے لے لیا اور دماغ میں بسا لیا کہ یہی ٹھیک عذر ہے، یوسف کو الگ کر کے ابا کے سامنے یہی من گھڑت گھڑ دیں گے۔ اسی وقت بات بنائی اور جواب دیا کہ ابا آپ نے کیا خوب سوچا۔ ہماری جماعت کی جماعت قوی اور طاقتور موجود ہو اور ہمارے بھائی کو بھیڑیا کھاجائے ؟ بالکل ناممکن ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر تو ہم سب بیکار نکمے عاجز نقصان والے ہی ہوئے۔