سورہ یوسف: آیت 11 - قالوا يا أبانا ما لك... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورہ یوسف

قَالُوا۟ يَٰٓأَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَ۫نَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُۥ لَنَٰصِحُونَ

اردو ترجمہ

اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا "ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یوسفؑ کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo ya abana ma laka la tamanna AAala yoosufa wainna lahu lanasihoona

آیت 11 کی تفسیر

اب یہ لوگ اپنے باپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور انہیں آمادہ کر رہے ہیں کہ یوسف کو ان کے ساتھ جانے دیں۔ اب وہ باپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ، یوسف کے خلاف سازش کر رہے ہیں ، ذرا براہ راست ان کی بات سنیں۔

اس قرار داد پر انہوں نے اپنے باپ سے کہا : ابا جان کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں۔ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ، کچھ چر چگ لے گا ، اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ، کچھ چر چگ لے گا ، اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔ باپ نے کہا تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو۔ انہوں نے جواب دیا اگر ہمارے ہوتے اسے بھیڑئیے نے کھالی تو ہم بڑے نکمے ہوں گے۔

قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ : " کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے " یہ ایک سوال ہے لیکن اس میں ایک خفیہ خباثت ، غصہ اور ناگواری بھی ہے۔ لیکن وہ باپ کو آمادہ بھی کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اعتبار کرتے ہوئے یوسف کو ان کے حوالے کردیں ، حضرت یعقوب کی عادت یہ تھی کہ وہ یوسف کو ساتھ ہی رکھتے تھے اور جب ان کے دوسرے بیٹے کسی دور دراز کی مہم پر جاتے تھے تو درازی سفر ، مشکلات سفر اور مشقت مہم کی وجہ سے یوسف کو ساتھ جانے نہ دیتے تھے کیونکہ وہ چھوٹا اور یہ بڑے تھے۔ انہوں نے نہایت ہی مکارانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے باپ کو یہ تاثر دیا کہ شاید وہ ہم پر یوسف کے معاملے میں اعتماد نہیں کرتے۔ حالانکہ ہمارے سب کے باپ ہیں اور یوسف بھائی ہیں۔ نہایت ہی مکارانہ انداز میں وہ بدگمانی کی نفی کر رہے ہیں۔ ذرا ان کی اس خبیث چال پر ایک بار پھر نظر ڈالیں۔

مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ : " کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں "۔ ہمارے دل تو صاف ہیں۔ ان میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ ہماری نیت صفا ہے اور ہم مخلص ہیں ، یہاں ان کی جانب سے اخلاص اور صفائی کا دعوی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی گہری چال چل رہے ہیں اور حد درجہ دھوکے باز ہیں۔

بڑے بھائی کی رائے پر اتفاق بڑے بھائی روبیل کے سمجھانے پر سب بھائیوں نے اس رائے پر اتفاق کرلیا کہ یوسف کو لے جائیں اور کسی غیر آباد کنویں میں ڈال آئیں۔ یہ طے کرنے کے بعد باپ کو دھوکہ دینے اور بھائی کو پھسلا کرلے جانے اور اس پر آفت ڈھانے کے لیے سب مل کر باپ کے پاس آئے۔ باوجود یکہ تھے بد اندیش بد خواہ برا چاہنے والے لیکن باپ کو اپنی باتوں میں پھنسانے کے لیے اور اپنی گہری سازش میں انہیں الجھانے کے لیے پہلے ہی جال بچھاتے ہیں کہ ابا جی آخر کیا بات ہے جو آپ ہمیں یوسف کے بارے میں امین نہیں جانتے ؟ ہم تو اس کے بھائی ہیں اس کی خیر خواہیاں ہم سے زیادہ کون کرسکتا ہے۔ ؟ (يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ 12 ؀) 12۔ یوسف :12) کی دوسری قرآت (آیت ترتع و نلعب) بھی ہے۔ باپ سے کہتے ہیں کہ بھائی یوسف کو کل ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے۔ ان کا جی خوش ہوگا، دو گھڑی کھیل کود لیں گے، ہنس بول لیں گے، آزادی سے چل پھر لیں گے۔ آپ بےفکر رہیے ہم سب اس کی پوری حفاظت کریں گے۔ ہر وقت دیکھ بھال رکھیں گے۔ آپ ہم پر اعتماد کیجئے ہم اس کے نگہبان ہیں۔

آیت 11 - سورہ یوسف: (قالوا يا أبانا ما لك لا تأمنا على يوسف وإنا له لناصحون...) - اردو