سورہ یوسف: آیت 108 - قل هذه سبيلي أدعو إلى... - اردو

آیت 108 کی تفسیر, سورہ یوسف

قُلْ هَٰذِهِۦ سَبِيلِىٓ أَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِى ۖ وَسُبْحَٰنَ ٱللَّهِ وَمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ

اردو ترجمہ

تم ان سے صاف کہہ دو کہ "میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul hathihi sabeelee adAAoo ila Allahi AAala baseeratin ana wamani ittabaAAanee wasubhana Allahi wama ana mina almushrikeena

آیت 108 کی تفسیر

آیت نمبر 108

ھذہ سبیلی ، “ یہ ہے میرا راستہ ”۔ یہ ایک راستہ ہے ، یہ سیدھا راستہ ہے ، اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے ، اور اس کے احکام و قوانین میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

ادعوا الی ۔۔۔۔۔۔ ومن اتبعنی “ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھ بھی ”۔ یعنی ہمیں اللہ کی راہنمائی حاصل ہے اور ہمیں اس کی طرف سے روشنی دی گئی ہے۔ ہمیں اپنا راستہ اچھی طرح معلوم ہے اور ہم بصیرت و بصارت کے ساتھ اس پر چل رہے ہیں۔ ہمیں بھٹکنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہی راستہ ہے اسے ہم روشنی میں دیکھ بھی رہے ہیں۔ ہم اللہ کو ان چیزوں سے پاک سمجھتے ہیں جو اس کے شایان شان نہیں ہیں اور ہم ان سے جدا اور ممتاز اور قطع تعلق کرنے والے ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ وما انا من المشرکین “ اور میں شریک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ”۔ نہ ظاہری شرک کرنے والوں میں سے اور نہ باطنی شرک کرنے والوں میں سے۔ یہ ہے براہ راست پس جو چاہے اسے قبول کرلے اور جو چاہے اس سے انکار کر دے ۔ میں تو بہرحال اسی راہ پر چلوں گا کیونکہ یہی سیدھی راہ ہے۔

یہاں داعیان حق کو ایک بات نوٹ کرلینا چاہئے یہ کہ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ انہوں نے دو ٹوک بات کرنی ہے ، ان کو اعلان کرنا ہے کہ وہ ایک علیحدہ امت ہیں۔ وہ ان لوگوں سے بالکل جدا ہیں جو ان کے نظریات کو من و عن تسلیم نہیں کرتے ۔ جو ان کے مسلک اور طریق کار کے مطابق چلتے نہیں ، یا جو ان کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتے ، انہیں جاہلی معاشرے سے چھٹ کر علیحدہ ہوجانا چاہئے ، پوری طرح علیحدہ۔ داعیان حق کا صرف یہی فریضہ نہیں ہے کہ بس وہ دعوت دین کا حق ادا کردیں اور پھر اپنے اردگرد پھیلے ہوئے جاہلی معاشرے میں گھل مل جائیں۔ اس قسم کی دعوت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ان کو صاف صاف اعلان کرنا ہوگا۔ کہ وہ جاہلیت سے ممتاز کچھ علیحدہ لوگ ہیں۔ ان کو ایک نظریہ کی بنیاد پر علیحدہ اجتماعیت اور تنظیم کی بنیاد رکھنی ہوگی اور ایک اسلامی قیادت کے نام اور عنوان سے منظم ہونا ہوگا۔ اور اس جاہلی معاشرے سے پوری طرح علیحدہ ہونا ہوگا۔ ان کی قیادت کو بھی ایک جاہلی قیادت سے ممتاز ہونا ہوگا۔

کسی جاہلی معاشرے میں گھل مل جانا اور جاہلی قیادت کے تحت زندگی بسر کرنا ، اسلامی نظریہ حیات کی قوت اور جوش کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ اور ان کی دعوت کے تمام اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ اور دعوت اسلامی کے اندر وہ جاذبیت نہیں رہتی جو اس صورت میں ہوتی ہے جب اسلامی نظام قائم ہو۔

یہ حقیقت صرف اسی وقت حقیقت نہ تھی جب حضور اکرم ﷺ مشرکین مکہ کے جاہلی معاشرے میں کام کر رہے تھے بلکہ جب بھی جاہلیت غالب ہوگی اور کوئی اسلامی تحریک اس کے خلاف جدو جہد شروع کرے گی تو اس کے خلاف ایسا ہی کرنا ہوگا۔ اس وقت بیسویں صدی کی جو جاہلیت چھائی ہوئی ہے ، وہ ان تمام جاہلیتوں کی طرح ہے جن کے خلاف انسانی تاریخ میں انبیاء کی اسلامی تحریکات نے کام کیا ، سب کے خدو خال ایک جیسے ہیں۔

وہ لوگ جن کے ذہنوں میں یہ خیال خام جاگزیں ہے کہ وہ موجودہ جاہلی معاشرے کے اندر رہ کر ، اور موجودہ جاہلی معاشرے کے طور طریقے اپنا کر اور ان جاہلی سو سائٹیوں کے اندر رہ کر نہایت ہی نرم انداز تبلیغ سے اسلام کی دعوت دیں گے اور کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے وہ کھلی خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ وہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقائد کو سرے سے سمجھے ہی نہیں اور ان کو معلوم ہی نہیں کہ اسلامی نظریہ حیات دلوں میں کس طرح اترتا ہے۔ تمام جاہلی نظریات کے حامل لوگ اپنے نصب العین ، اپنے طریقہ کار اور اپنا نام اور عنوان نہایت ہی واضح طور پر بتاتے ہیں اور اعلانیہ اپنے مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں۔ کیا داعیان اسلام ہی رہ گئے ہیں جو چھپ چھپا کر کام کریں گے ۔ حالانکہ ان کے کام کے لئے ایک طریقہ کار وضع شدہ ہے اور وہ جاہلیت کے طریقہ کار سے ممتاز ہے۔

٭٭٭

اب ایک نکتہ توجہ طلب ہے کہ رسولوں اور رسالتوں کے بارے میں اللہ کی سنت کیا ہے ؟ اور یہ کہ بعض سابقہ اقوام کا جو انجام ہوا اس میں بعد میں آنے والوں کے لیے کیا عبرت ہے ؟ حضرت محمد ﷺ کوئی پہلے نبی نہیں ہیں۔ آپ سے قبل بھی رسول آئے اور انہوں نے اپنی رسالت پیش کی۔ اس سے قبل جن لوگوں نے ناحق تکذیب کی ، ان کا انجام تمہارے لیے سبق آموز ہے۔

آیت 108 قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ 7 عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ یعنی میرا اس راستے کو اختیار کرنا اور پھر اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا یونہی کوئی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف نہیں ہے بلکہ میں اپنی بصیرت باطنی کے ساتھ پوری سوجھ بوجھ اور پورے شعور کے ساتھ اس راستے پر خود بھی چل رہا ہوں اور اس راستے کی طرف دوسروں کو بھی بلا رہا ہوں۔ اسی طرح میرے پیروکار بھی کوئی اندھے بہرے مقلد نہیں ہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ میری پیروی کر رہے ہیں۔آج کے دور میں اس شعوری ایمان کی بہت ضرورت ہے۔ اگرچہ blind faith بھی اپنی جگہ بہت قیمتی چیز ہے اور یہ بھی انسان کی زندگی اور زندگی کی اقدار میں انقلاب لاسکتا ہے ‘ لیکن آج ضرورت چونکہ نظام بدلنے کی ہے اور نظام پر معاشرے کے intelligentsia کا تسلط ہے اس لیے جب تک اس طبقے کے اندر شعور اور بصیرت والا ایمان پیدا نہیں ہوگا یہ نظام تبدیل نہیں ہوسکتا۔

دعوت وحدانیت اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جنہیں تمام جن و انس کی طرف بھیجا ہے، حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو خبر کر دوں کہ میرا مسلک، میرا طریق، میری سنت یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کی دعوت عام کر دوں۔ پورے یقین دلیل اور بصیرت کے ساتھ۔ میں اس طرف سب کو بلا رہا ہوں میرے جتنے پیرو ہیں، وہ بھی اسی طرف سب کو بلا رہے ہیں، شرعی، نقلی اور عقلی دلیلوں کے ساتھ اس طرف دعوت دیتے ہیں ہم اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں، اس کی تعظیم تقدیس، تسبیح تہلیل بیان کرتے ہیں، اسے شریک سے، نظیر سے، عدیل سے، وزیر سے، مشیر سے اور ہر طرح کی کمی اور کمزوری سے پاک مانتے ہیں، نہ اس کی اولاد مانیں، نہ بیوی، نہ ساتھی، نہ ہم جنس۔ وہ ان تمام بری باتوں سے پاک اور بلند وبالا ہے۔ آسمان و زمین اور ان کی ساری مخلوق اس کی حمد و تسبیح کر رہی ہے لیکن لوگ ان کی تسبیح سمجھتے نہیں، اللہ بڑا ہی حلیم اور غفور ہے۔

آیت 108 - سورہ یوسف: (قل هذه سبيلي أدعو إلى الله ۚ على بصيرة أنا ومن اتبعني ۖ وسبحان الله وما أنا من المشركين...) - اردو