سورہ یوسف (12): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yusuf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يوسف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یوسف کے بارے میں معلومات

Surah Yusuf
سُورَةُ يُوسُفَ
صفحہ 248 (آیات 104 سے 111 تک)

وَمَا تَسْـَٔلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَٰلَمِينَ وَكَأَيِّن مِّنْ ءَايَةٍ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ أَفَأَمِنُوٓا۟ أَن تَأْتِيَهُمْ غَٰشِيَةٌ مِّنْ عَذَابِ ٱللَّهِ أَوْ تَأْتِيَهُمُ ٱلسَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ قُلْ هَٰذِهِۦ سَبِيلِىٓ أَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِى ۖ وَسُبْحَٰنَ ٱللَّهِ وَمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِىٓ إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰٓ ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ ٱلْءَاخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ ٱتَّقَوْا۟ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ حَتَّىٰٓ إِذَا ٱسْتَيْـَٔسَ ٱلرُّسُلُ وَظَنُّوٓا۟ أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا۟ جَآءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّىَ مَن نَّشَآءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ ٱلْقَوْمِ ٱلْمُجْرِمِينَ لَقَدْ كَانَ فِى قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ ٱلَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
248

سورہ یوسف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یوسف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے ہو یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama tasaluhum AAalayhi min ajrin in huwa illa thikrun lilAAalameena

اردو ترجمہ

زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakaayyin min ayatin fee alssamawati waalardi yamurroona AAalayha wahum AAanha muAAridoona

اردو ترجمہ

ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شر یک ٹھیراتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yuminu aktharuhum biAllahi illa wahum mushrikoona

اردو ترجمہ

کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آ جائے گی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaaminoo an tatiyahum ghashiyatun min AAathabi Allahi aw tatiyahumu alssaAAatu baghtatan wahum la yashAAuroona

اردو ترجمہ

تم ان سے صاف کہہ دو کہ "میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul hathihi sabeelee adAAoo ila Allahi AAala baseeratin ana wamani ittabaAAanee wasubhana Allahi wama ana mina almushrikeena

آیت نمبر 108

ھذہ سبیلی ، “ یہ ہے میرا راستہ ”۔ یہ ایک راستہ ہے ، یہ سیدھا راستہ ہے ، اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے ، اور اس کے احکام و قوانین میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

ادعوا الی ۔۔۔۔۔۔ ومن اتبعنی “ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھ بھی ”۔ یعنی ہمیں اللہ کی راہنمائی حاصل ہے اور ہمیں اس کی طرف سے روشنی دی گئی ہے۔ ہمیں اپنا راستہ اچھی طرح معلوم ہے اور ہم بصیرت و بصارت کے ساتھ اس پر چل رہے ہیں۔ ہمیں بھٹکنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہی راستہ ہے اسے ہم روشنی میں دیکھ بھی رہے ہیں۔ ہم اللہ کو ان چیزوں سے پاک سمجھتے ہیں جو اس کے شایان شان نہیں ہیں اور ہم ان سے جدا اور ممتاز اور قطع تعلق کرنے والے ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ وما انا من المشرکین “ اور میں شریک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ”۔ نہ ظاہری شرک کرنے والوں میں سے اور نہ باطنی شرک کرنے والوں میں سے۔ یہ ہے براہ راست پس جو چاہے اسے قبول کرلے اور جو چاہے اس سے انکار کر دے ۔ میں تو بہرحال اسی راہ پر چلوں گا کیونکہ یہی سیدھی راہ ہے۔

یہاں داعیان حق کو ایک بات نوٹ کرلینا چاہئے یہ کہ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ انہوں نے دو ٹوک بات کرنی ہے ، ان کو اعلان کرنا ہے کہ وہ ایک علیحدہ امت ہیں۔ وہ ان لوگوں سے بالکل جدا ہیں جو ان کے نظریات کو من و عن تسلیم نہیں کرتے ۔ جو ان کے مسلک اور طریق کار کے مطابق چلتے نہیں ، یا جو ان کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتے ، انہیں جاہلی معاشرے سے چھٹ کر علیحدہ ہوجانا چاہئے ، پوری طرح علیحدہ۔ داعیان حق کا صرف یہی فریضہ نہیں ہے کہ بس وہ دعوت دین کا حق ادا کردیں اور پھر اپنے اردگرد پھیلے ہوئے جاہلی معاشرے میں گھل مل جائیں۔ اس قسم کی دعوت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ان کو صاف صاف اعلان کرنا ہوگا۔ کہ وہ جاہلیت سے ممتاز کچھ علیحدہ لوگ ہیں۔ ان کو ایک نظریہ کی بنیاد پر علیحدہ اجتماعیت اور تنظیم کی بنیاد رکھنی ہوگی اور ایک اسلامی قیادت کے نام اور عنوان سے منظم ہونا ہوگا۔ اور اس جاہلی معاشرے سے پوری طرح علیحدہ ہونا ہوگا۔ ان کی قیادت کو بھی ایک جاہلی قیادت سے ممتاز ہونا ہوگا۔

کسی جاہلی معاشرے میں گھل مل جانا اور جاہلی قیادت کے تحت زندگی بسر کرنا ، اسلامی نظریہ حیات کی قوت اور جوش کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ اور ان کی دعوت کے تمام اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ اور دعوت اسلامی کے اندر وہ جاذبیت نہیں رہتی جو اس صورت میں ہوتی ہے جب اسلامی نظام قائم ہو۔

یہ حقیقت صرف اسی وقت حقیقت نہ تھی جب حضور اکرم ﷺ مشرکین مکہ کے جاہلی معاشرے میں کام کر رہے تھے بلکہ جب بھی جاہلیت غالب ہوگی اور کوئی اسلامی تحریک اس کے خلاف جدو جہد شروع کرے گی تو اس کے خلاف ایسا ہی کرنا ہوگا۔ اس وقت بیسویں صدی کی جو جاہلیت چھائی ہوئی ہے ، وہ ان تمام جاہلیتوں کی طرح ہے جن کے خلاف انسانی تاریخ میں انبیاء کی اسلامی تحریکات نے کام کیا ، سب کے خدو خال ایک جیسے ہیں۔

وہ لوگ جن کے ذہنوں میں یہ خیال خام جاگزیں ہے کہ وہ موجودہ جاہلی معاشرے کے اندر رہ کر ، اور موجودہ جاہلی معاشرے کے طور طریقے اپنا کر اور ان جاہلی سو سائٹیوں کے اندر رہ کر نہایت ہی نرم انداز تبلیغ سے اسلام کی دعوت دیں گے اور کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے وہ کھلی خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ وہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقائد کو سرے سے سمجھے ہی نہیں اور ان کو معلوم ہی نہیں کہ اسلامی نظریہ حیات دلوں میں کس طرح اترتا ہے۔ تمام جاہلی نظریات کے حامل لوگ اپنے نصب العین ، اپنے طریقہ کار اور اپنا نام اور عنوان نہایت ہی واضح طور پر بتاتے ہیں اور اعلانیہ اپنے مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں۔ کیا داعیان اسلام ہی رہ گئے ہیں جو چھپ چھپا کر کام کریں گے ۔ حالانکہ ان کے کام کے لئے ایک طریقہ کار وضع شدہ ہے اور وہ جاہلیت کے طریقہ کار سے ممتاز ہے۔

٭٭٭

اب ایک نکتہ توجہ طلب ہے کہ رسولوں اور رسالتوں کے بارے میں اللہ کی سنت کیا ہے ؟ اور یہ کہ بعض سابقہ اقوام کا جو انجام ہوا اس میں بعد میں آنے والوں کے لیے کیا عبرت ہے ؟ حضرت محمد ﷺ کوئی پہلے نبی نہیں ہیں۔ آپ سے قبل بھی رسول آئے اور انہوں نے اپنی رسالت پیش کی۔ اس سے قبل جن لوگوں نے ناحق تکذیب کی ، ان کا انجام تمہارے لیے سبق آموز ہے۔

اردو ترجمہ

اے محمدؐ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے، اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام انہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقیناً آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقویٰ کی روش اختیار کی کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama arsalna min qablika illa rijalan noohee ilayhim min ahli alqura afalam yaseeroo fee alardi fayanthuroo kayfa kana AAaqibatu allatheena min qablihim waladaru alakhirati khayrun lillatheena ittaqaw afala taAAqiloona

آیت نمبر 109

سابقہ اقوام کی تاریخ میں بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت ہوتی ہے۔ اس لئے بعد میں آنے والوں کو چاہئے کہ وہ سابقین کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ اس سے دل نرم ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ بڑے بڑے ڈکٹیٹروں کے دلوں میں خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ جب اقوام سابقہ کی سرگرمیوں اور ان کی چلت پھرت کو اپنے تخیل میں زندہ کیا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنی اپنی شان و شوکت ہے اور پھر پردۂ خیال پر یہ دور آتا ہے کہ وہ دیکھو یہ لوگ تو نیست و نابود ہوگئے اور مرمٹ گئے ، بغیر حس و حرکت پڑے ہیں اور مٹی میں مل گئے ہیں۔ ان کے وہ شہر اور بستیاں کھنڈرات کی شکل اختیار کر گئیں اور ان کے ساتھ ان کا علم و ثقافت اور ان کی چلت اور پھرت اور ان کا عروج اور ان کے افکار بھی مر مٹ گئے تو ایسے تخیلات اور غوروفکر سے انسانوں کے دل دہل جاتے ہیں اور غافل سے غافل انسان کے بھی مارے خوف کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم لوگوں کو امم سابقہ کے عروج وزوال کی کہانیاں سناتا ہے اور ان کو لے جا کر ان کھنڈرات میں گھماتا ہے جو ان اقوام کی داستانیں سناتے ہیں۔

وما ارسلنا۔۔۔۔۔ القری (12 : 109) ” تم سے پہلے جو ہم نے پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والے تھے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے “۔ یعنی وہ نہ ملائکہ اور فرشتے تھے اور نہ وہ کوئی اور انوکھی مخلوق تھے ، بلکہ اے پیغمبر وہ تو آپ ہی جیسے انسان تھے۔ شہری تھے ، دیہاتی نہ تھے تا کہ وہ سلجھے ہوئے ہوں اور نرمی سے بات سنیں۔ لہٰذا آپ دعوت اسلامی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کرنے کی سعی کریں اور لوگوں کو راہ راست دکھاتے رہیں۔ آپ کی تحریک اور دعوت بھی اسی سنت الٰہی پر قائم ہے جس کے مطابق اللہ نے تمام انبیاء کو بھیجا۔ یہ لوگ بشر تھے اور ان کی طرف خدا کا پیغام وحی کیا گیا تھا ؟

افلم یسیروا ۔۔۔۔۔ من قبلھم (12 : 109) ” پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان قوموں کا انجام نظر نہ آیا ، جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں “۔ تا کہ وہ جان سکیں کہ ان کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے جیسا کہ ان کا ہوا۔ الا یہ کہ سنت الٰہیہ انہیں اپنی گرفت میں لینے ہی والی ہے اور تا کہ وہ یہ سمجھتے کہ اس دنیا سے تو جانا ہی ہے۔

ولدارالاخرۃ خیر للذین اتقوا (12 : 109) ” یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے زیادہ بہتر ہے جنہوں نے تقوی کی روش اختیار کی “۔ اس لئے کہ اس جہان میں تو قرار نہیں ہے ، یہاں سے تو جانا ہی ہے۔

افلا تعقلون (12 : 109) ” کیا اب بھی تم لوگ نہیں سمجھتے “۔ کیا تم لوگ انسانی تاریخ میں سنت الٰہیہ کے عمل کو سمجھتے نہیں۔ اور کیا تمہاری عقل ایسے معاملے میں بھی معقول فیصلہ نہیں کرسکتی کہ ایک چیز فانی ہے اور ایک باقی ہے اور فانی پر باقی کو ترجیح دینا چاہئے۔

اب رسولوں کی زندگی کی بعض مشکل گھڑیوں کا ذکر کیا جاتا ۔ اور یہ مشکل مقامات آخری فتح سے قبل آیا کرتے ہیں۔ یہ مشکلات اللہ کی سنت کا حصہ ہیں اور یہ داعی کو درپیش آتی ہیں کیونکہ سنت الٰہیہ ٹلنے والی نہیں ہوتی ۔

اردو ترجمہ

(پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھوٹ بولا گیا تھا، تو یکا یک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی پھر جب ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatta itha istayasa alrrusulu wathannoo annahum qad kuthiboo jaahum nasruna fanujjiya man nashao wala yuraddu basuna AAani alqawmi almujrimeena

آیت نمبر 110

یہ نہایت ہی خوفناک صورت حال ہے۔ یہاں رسولوں کی زندگیوں کے نہایت ہی کربناک ، تنگی اور شدید مشکل حالات کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ایسے حالات کہ ان میں رسول کفر ، انکار ، ہٹ دھرمی اور کھلے اندھے پن کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ دن یوں ہی گزرتے گئے مگر رسولوں نے کبھی بھی دعوت کو نہیں چھوڑا اور لوگ بھی انکار کرتے رہے۔ روز و شب کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور باطل دندندتا رہا۔ اہل باطل بہت ہی کثرت سے رہے اور اہل ایمان قلیل اور ضعیف رہے۔

کس قدر سخت حالات ہیں ، باطل ہانپ رہا ہے ، سرکشی اور طغیانی کا ارتکاب کر رہا ہے ، اور ظلم وعدوان اس کا شعار ہے۔ رسول ان حالات میں اللہ کے وعدے کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن اللہ کا وعدہ سامنے نہیں آرہا ہے۔ ان حالات میں ان کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسے آرہے ہیں۔ تم دیکھتے ہو کہ انہیں مسترد کردیا گیا ، تم دیکھتے ہو کہ بظاہر ان کا یہ نظریہ مسترد کردیا گیا کہ اس دنیا میں ان کو کامیابی نصیب ہوگی۔ لیکن یہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

کوئی بھی رسول جب ایسے حالات سے دو چار ہوتا ہے تو اس وقت تنگی ، شدت اور کرب اور اذیت اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔ یہ آیت اور اس کے ساتھ ساتھ جب سورة بقرہ کی درج ذیل آیت میں پڑھتا ہوں۔

ام حسبتم ان ۔۔۔۔۔۔ نصر اللہ۔ (2 : 214) “ کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے اور تمہیں وہ حالات پیش نہ آئیں گے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے گزرے ہیں۔ ان کو سخت مصیبت اور تکلیف نے چھوا اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی نصرت ؟ ”

جب بھی ان دو آیات میں سے کوئی آیت پڑھتا ہوں تو میں مارے خوف کے کانپ اٹھتا ہوں کہ رسولوں کو کس قدر جان کن مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا ، ایسے مشکل حالات میں انسان طرح طرح کے وسوسوں کا شکار ہوتا ہے ، ایک تسلسل کے ساتھ تکلیف دہ اور ہلا مارنے والے حالات سے دو چار ہوتا ہے جن میں رسول تک متزلزل ہوجاتے ہیں ، ایک کربناک نفسیاتی کشمکش سے انسان دو چار ہوتا ہے اور ایک ناقابل برداشت اذیت ہر وقت پیچھا کرتی رہتی ہے۔

ایسے حالات میں جن میں یہ رنج و غم مسلسل نظر آتا ہے اور کلیجہ منہ کو آجا تا ہے اور رسول اور اس کی جماعت اپنی پوری قوت صرف کردیتی ہے ، تو ایسے حالات میں اللہ کی نصرت آجاتی ہے۔ اور ایسے حالات میں جو نصرت آتی ہے وہ فیصلہ کن ہوتی ہے۔ جاءھم نصرنا فنجی من نشاء ولا یرد باسنا عن القوم المجرمین (12 : 110) “ یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آجاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں ، بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا ”۔ یہ ہے دعوت اسلامی کے بارے میں اللہ کی سنت۔ اس راہ میں مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ کربناک حالات سے دوچار ہونا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ تحریک اسلامی اپنی پوری قوت اس راہ میں خرچ کردے۔ اس کی قوت اور طاقت کا پورا حصہ صرف ہوجائے اور نہایت ہی مایوس کن حالات ظاہر ہوجائیں اور ظاہری اسباب جن پر لوگ تکیہ کرتے ہیں ، ایک کے بعد ایک غائب ہوجائیں ، ایسے حالات میں پھر صرف من جانب اللہ نصر آتی ہے اور وہی لوگ نجات پاتے ہیں جن کے بارے میں اللہ کا کوئی حکم ہوتا ہے اور تحریک اسلامی کے مخالفین پر پھر ہلاکت آتی ہے ، اس سے وہ لوگ بچ جاتے ہیں جو نجات کے مستحق ہوتے ہیں ، اور ان پر وہ ہلاکت نہیں آتی جو مکذبین پر آتی ہے۔ یوں ایسے لوگ اس جبر اور تشدد کے ماحول سے نجات پاتے ہیں جو ظالموں اور جابروں نے ان پر مسلط کردیا ہوتا ہے۔ اب مایوسی اور بےبسی مجرموں کے حصے میں آتی ہے۔ ان کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے اور ان کی قوت پاش پاش ہوجاتی ہے۔ اب نہ ان کا کوئی ولی ہوتا ہے نہ مددگار ”۔

یہ سنت کیوں وضع کی گئی ہے ؟ اس لیے کہ فتح و نصرت بےقدر نہ ہو۔ وہ محض مذاق نہ ہو ، اگر قربانیوں کے بغیر فتح و نصرت ہاتھ آجایا کرتی تو ہر کوئی اٹھ کر داعی بن جاتا اور کوئی قربانی دئیے بغیر وہ کامیابی سے ہمکنار ہوجاتا یا معمولی جدو جہد سے وہ انقلاب برپا کردیتا۔ اس لیے اللہ نے دعوت اسلامی کو محض کھیل تماشے کی طرح آسان نہیں رکھا۔ دعوت اسلامی کا مقصد پوری زندگی کے طور پر طریقوں میں انقلاب برپا کرنا ہے۔ اور یہ انقلاب وہ لوگ نہیں برپا کرسکتے جو محض دعویٰ ہی کریں ، اس کی پشت پر کوئی قربانی نہ ہو۔ ایسے لوگ دعوت اسلامی کی راہ میں دی جانے والی قربانیاں نہیں برداشت کرسکتے۔ ایسے لوگ پہلے تو دعوت اسلامی جیسے مشکل کام میں ہاتھ نہیں ڈالتے لیکن اگر یہ غلطی کر بھی بیٹھیں تو وہ اس کا حق ادا نہیں کرسکتے اور جلد ہی عاجز آ کر اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ جب راہ حق میں مشکلات آتی ہیں تو صرف صادق اور اولوالعزم لوگ ہی ان کا مقابلہ کرتے ہیں جو کسی حال میں بھی دعوت اسلامی کی راہ نہیں چھوڑتے اگرچہ ان کو یقین ہوجائے کہ اس جہان میں ان کو کامیابی نہ ہوگی۔

دعوت اسلامی کوئی ایسا سودا نہیں ہے جو ایک محدود وقت کے لئے ہو ، نیز اس سودے کا منافع بھی اس دنیا کی محدود زندگی تک موقوف نہیں ہے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ یہ سودا کرنے والے لوگ اس کا اقالہ کر کے کسی اور نفع بخش سودے کے لئے تیار ہوجائیں ، جس سے ان کو اس دنیا میں جلدی نفع مل جائے۔ جو ۔۔۔ لوگ دعوت اسلامی کا علم کسی بھی جاہلی معاشرے میں بلند کرتے ہیں (اور یاد رہے کہ جاہلی معاشرہ ہر وہ معاشرہ ہوتا ہے جس میں اللہ کے احکام کی اطاعت نہ ہو ، اور اللہ کے سوا اور طاغوتوں کی اطاعت کی جاتی ہو ) ایسے لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ تحریک کا کارکن ہونا کوئی تفریح کا کام نہیں ہے ، نہ یہ کام دنیا کے مفاد کا کوئی تجارتی عمل ہے۔ یہ تو ان طاغوتی قوتوں کے ساتھ کشمکش پیہم کا معاملہ ہے جو افراد اور مالی قوت رکھتی ہیں اور ان طاغوتی قوتوں نے جمہور کو اس طرح دبا رکھا ہے کہ وہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کہتی ہیں۔ اور عوام بےبس ہیں۔ پھر یہ قوتیں اس قدر بااثر ہیں کہ یہ عوام کا لانعام کو اسلامی تحریکوں پر کتوں کی طرح چھوڑ دیتی ہیں اور عوام کے اندر ان کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ لوگو ! یہ لوگ تم کو ہر قسم کی تفریح اور عیاشی سے محروم کردیں گے اور زندگی کی رنگا رنگی ختم کر کے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔ غرض دعوت اسلامی کے حاملین کا فرض ہے کہ وہ سمجھ لیں کہ اس راہ میں کانٹے ہی کانٹے ہیں ، اور پھر اس مشکلات کو انگیز کرنے کا عمل مزید مشکل ہے۔ لہٰذا قاعدہ یہ ہے کہ ابتداء میں تحریک اسلامی کے کارکن اولو العزم لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ عامۃ الناس اس تحریک سے دور بھاگتے ہیں۔ معاشرے کے چیدہ ، پسندیدہ اور اولوالعزم لوگ ہی اس طرف آتے ہیں۔ یہ لوگ اقامت دین پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں ان دنیا کا سب آرام اور سامان قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ابتداء میں ایسے لوگ قلیل ہوتے ہیں ، لیکن اللہ ایسے لوگوں اور ان کی قوم کے درمیان حق پر فیصلہ فرماتے ہیں اور یہ حق تب ظاہر ہوتا ہے جب اس کے لئے طویل جدو جہد کی جائے اور جب حق آتا ہے ، فیصلہ ہوجاتا ہے ، فتح حاصل ہوجاتی ہے تو جمہور لوگ اس میں داخل ہوتے ہیں۔

قصہ یوسف (علیہ السلام) میں رنگا رنگ مشکلات ہیں جن سے یہ داعی دو چار ہوتا ہے۔ اندھے کنویں میں ان کو ڈالا جاتا ہے۔ عزیز مصر کے گھر وہ ملازم اور غلام کی طرح رہتے ہیں۔ پھر ناحق جیل جاتے ہیں اور لوگوں کی امداد سے مایوس ہوتے ہیں لیکن آخری انجام انہیں لوگوں کے حق میں ہوتا ہے۔ جو ایمان لاتے ہیں اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا اور اللہ کا وعدہ ہر حال میں سچا ہوتا ہے ۔ قصہ یوسف قصص انبیاء میں سے ایک اہم نمونہ ہے اور ہر عقل رکھنے والے کے لئے اس میں سبق ہے۔ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ حضرت محمد ﷺ انبیائے سابقہ کے حالات سے خبردار نہ تھے لیکن اس قصے میں یہ تفصیلات دی گئیں ، اس لیے یہ دلیل ہے صداقت قرآن پر ، ورنہ کسی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ایسے حالات اپنی طرف سے گھڑ کر بنائے اور وہ حرف بحرف درست ہوں اور مصنوعی کہانیوں پر دل مومن کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔

اردو ترجمہ

اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad kana fee qasasihim AAibratun liolee alalbabi ma kana hadeethan yuftara walakin tasdeeqa allathee bayna yadayhi watafseela kulli shayin wahudan warahmatan liqawmin yuminoona

آیت نمبر 111

ذرا غور کیجئے ، سورة کا آغاز اور اختتام کس قدر ہم آہنگ ہیں۔ اس طرح قصے کا آغاز و اختتام بھی باہم ۔۔۔۔ ہیں۔ قصے کے آغاز میں بھی نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے درمیان بھی عبرت آموزی کی گئی ہے اور اس کے آخر میں بھی نتائج اخذ کیے گئے ہیں اور مضمون اور موضوع باہم پیوست و ہم آہنگ ہے۔ طرز ادا اور فقرے موزوں ، فنی اعتبار سے قصہ نہایت ہی پرکشش ہے۔ لیکن ان سب خصوصیات کے ساتھ واقعات حقیقت پر مبنی ہیں اور کوئی مبالغہ نہیں ہے۔

یہ قصہ ایک ہی سورة میں پوری طرح بیان ہوجاتا ہے ۔ یک جا پورے کا پورا۔ اس لیے کہ اس قصے کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ یہ یکجا ہو۔ کیونکہ واقعات آہستہ آہستہ رونما ہوتے ہیں۔ ایک دن کے بعد دوسرا دن آتا ہے۔ ایک مرحلے کے بعد دوسرا مرحلہ آتا ہے ، اس لیے اس سے نتائج صرف اسی صورت میں اخذ کیے جاسکتے تھے کہ قصے کو پوری شکل میں ایک سورة میں دے دیا جائے۔ اگر دوسرے قصص کی طرح اس کے صرف بعض حلقے ہی لائے جاتے تو اس طرح وہ نتائج اخذ نہ ہو سکتے تھے جو مکمل قصہ کی شکل میں سامنے آتے ہیں دوسرے قصص کا انداز قرآن میں مختلف رہا ہے۔ مثلاً بلقیس یا قصہ تخلیق مریم۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ ، حضرت نوح (علیہ السلام) کے طوفان کا واقعہ ، کیونکہ یہ ان قصوں کے بعض حلقے اپنی جگہ مکمل حصے اور کڑیاں ہیں اور ان سے ایک مستقل سبق ملتا ہے۔ لیکن قصہ یوسف ایسا ہے کہ اس کو مکمل طور پر ایک ہی نشست میں پڑھنا ضروری ہے اور ابتداء سے انجام تک ایک ہی جگہ اس کا بیان بھی ضروری ہے۔

نحن نقص علیک ۔۔۔۔۔ الغفلین (12 : 3) “ ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرائے میں واقعات و حقائق (قصص) تم سے بیان کرتے ہیں ورنہ اس سے پہلے تم بالکل بیخبر تھے ”۔

248