سورہ یوسف: آیت 10 - قال قائل منهم لا تقتلوا... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورہ یوسف

قَالَ قَآئِلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا۟ يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِى غَيَٰبَتِ ٱلْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ ٱلسَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَٰعِلِينَ

اردو ترجمہ

اس پر ان میں سے ایک بولا "یوسفؑ کو قتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala qailun minhum la taqtuloo yoosufa waalqoohu fee ghayabati aljubbi yaltaqithu baAAdu alssayyarati in kuntum faAAileena

آیت 10 کی تفسیر

ہاں اس موقعہ پر ان میں سے ایک شخص کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے ، وہ اس ہولناک منصوبے کو برداشت نہیں کرسکتا۔ چناچہ یہ شخص ایک ایسا حل پیش کرتا ہے کہ حضرت یوسف قتل ہونے سے بھی بچ جائیں اور ان کے لیے ان کے باپ بھی فارغ ہوجائیں۔ وہ یہ تجویز کرتا ہے کہ اسے بیابان میں پھینکنے کی بجائے قافلوں کی آمدورفت والے کنویں میں پھینک دیں ، کوئی قافلے والے اسے پکڑ کرلے جائیں گے۔ کیونکہ غیر آباد جنگل میں اس کی ہلاکت کا امکان زیادہ ہے اور شارع عام کے کنویں میں بہت ہی کم ہے کیونکہ کوئی قافلہ آئے گا اور اسے غنیمت سمجھ کرلے جائے گا۔ اور وہ باپ کی نظروں سے اور دور ہوجائے گا۔

قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ ۔ " اس پر ان میں سے ایک بولا۔ یوسف کو قتل نہ کرو ، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو ۔ کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا "

اس شخص نے جو یہ کہا ہے ان کنتم فعلین " اگر کرنا ہی ہے " ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ برادران یوسف ان کے ساتھ یہ حرکت کریں گے۔ نیز اگر انہوں نے کرنا ہے تو یہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ اور خوشی کا باعث نہیں ہے۔ بہرحال یہ تجویز اس کے کینہ کو پوری طرح ٹھنڈا کرنے والی نہ تھی اور انہوں نے قتل یوسف کا جو فیصلہ کیا تھا اس سے وہ واپس آنے کے لیے تیار نہ تھے اور یہ باتیں اگلے منظر سے معلوم ہوتی ہیں۔

آیت 10 قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ یہ شریف النفس انسان ان کے سب سے بڑے بھائی تھے جنہوں نے یہ مشورہ دیا۔ ان کا نام یہودا تھا اور انہی کے نام پر لفظ ”یہودی“ بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ تو اس سے پیچھا چھڑانے کا ہے لہٰذا ضروری نہیں کہ قتل جیسا گناہ کر کے ہی یہ مقصد حاصل کیا جائے اس کے لیے کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ پرانے زمانے کے کنویں کی ایک خاص قسم کو باؤلی کہا جاتا تھا اس کا منہ کھلا ہوتا تھا لیکن گہرائی میں یہ تدریجاً تنگ ہوتا جاتا تھا۔ پانی کی سطح کے قریب اس کی دیوار میں طاقچے سے بنائے جاتے تھے۔ اس طرح کی باؤلیاں پرانے زمانے میں قافلوں کے راستوں پر بنائی جاتی تھیں۔ چناچہ اس مشورے پر عمل کی صورت میں قوی امکان تھا کہ کسی قافلے کا ادھر سے گزر ہوگا اور قافلے والے یوسف کو باؤلی سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ بڑے بھائی کے اس مشورے کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ اس طرح کم از کم یوسف کی جان بچ جائے گی اور ہم بھی اس کے خون سے ہاتھ رنگنے کے جرم کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ جب نو بھائی اس بات پر پوری طرح تلُ گئے کہ یوسف سے بہرحال چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو دسواں بھائی ان کو اس حرکت سے بالکل منع تو نہیں کرسکا لیکن اس نے کوشش کی کہ کم از کم وہ لوگ یوسف کو قتل کرنے سے باز رہیں۔

آیت 10 - سورہ یوسف: (قال قائل منهم لا تقتلوا يوسف وألقوه في غيابت الجب يلتقطه بعض السيارة إن كنتم فاعلين...) - اردو