سورہ یونس: آیت 10 - دعواهم فيها سبحانك اللهم وتحيتهم... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورہ یونس

دَعْوَىٰهُمْ فِيهَا سُبْحَٰنَكَ ٱللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَٰمٌ ۚ وَءَاخِرُ دَعْوَىٰهُمْ أَنِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ

اردو ترجمہ

وہاں ان کی صدا یہ ہوگی کہ “پاک ہے تو اے خدا، " اُن کی دعا یہ ہوگی کہ “سلامتی ہو " اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ “ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے "

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

DaAAwahum feeha subhanaka allahumma watahiyyatuhum feeha salamun waakhiru daAAwahum ani alhamdu lillahi rabbi alAAalameena

آیت 10 کی تفسیر

دعوٰھم فیھا سبحانک اللھم جنتوں میں ان کی دعاء (اس طرح ) ہوگی : اے اللہ ! تو ہر برائی سے پاک ہے ‘ ہم تجھے ہر عیب و نقص سے پاک جانتے اور مانتے ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے : اہل تفسیر کا بیان ہے کہ اہل جنت اور ان کے خادموں کے درمیان سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ کا لفظ طلب طعام کی علامت ہوگا۔ جب اہل جنت کھانے کے خواہشمند ہوں گے تو کہیں گے : سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ فوراً حسب پسند کھانے کے خوان حاضر کر دئیے جائیں گے۔ ہر خوان ایک میل لمبا ‘ ایک میل چوڑا ہوگا۔ ہر خوان پر ستر ہزار کا سے ہوں گے ‘ ہر کاسہ میں الگ رنگ کا کھانا ہوگا ‘ ایک دوسرے کے مشابہ نہ ہوگا۔ کھانے سے فارغ ہو کر سب اللہ کی ثنا کریں گے۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُِ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَکا یہی معنی ہے۔ بعض علماء نے کہا : اہل جنت سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ مزے لے لے کر کہیں گے ‘ یعنی اس کلام کے کہنے میں ان کو لذت آئے گی۔ مسلم ‘ ابو داؤد اور امام احمد نے حضرت جابر کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ سانس لینے کی طرح اللہ کی طرف سے سبحان اللہ اور الحمد اللہ کہنے کا اہل جنت کو الہام ہوگا (یعنی بےاختیار ان کی زبانوں پر تسبیح وتحمید جاری ہوگی) ۔

وتحیتھم فیھا سلم اور جنت کے اندر ان کا ملاقاتی ابتدائی کلام (لفظ) سلام ہوگا۔ ایک دوسرے کو سلام کرے گا اور فرشتے بھی ہر دروازے سے داخل ہو کر کہیں گے۔ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ اور اللہ کی طرف سے بھی سلام لے کر فرشتے آئیں گے اور کہیں گے : اللہ تم کو سلام فرماتا ہے (یعنی بشارت سلامتی دیتا ہے) ابن ماجہ ‘ ابن ابی الدنیا ‘ دارقطنی اور اجری نے حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جب اہل جنت اپنی راحتوں میں مشغول ہوں گے کہ اچانک ان پر اوپر سے ایک نور چمکے گا۔ سر اٹھا کر دیکھیں گے تو (نظر آئے گا کہ) اللہ اوپر سے ان پر جلوہ پاش ہے۔ اللہ فرمائے گا : ” السلام علیکم یا اہل الجنۃِ “ یہی ہے معنی سَلٰمٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ کا۔

امام احمد ‘ بزار اور ابن حبان نے حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ کی مخلوق میں سے جنت کے اندر سب سے پہلے فقراء مہاجرین داخل ہوں گے جن سے (اسلام کی) سرحدوں کا انتظام ہوتا ہے اور انہی کے ذریعے سے ناگوار امور سے حفاظت کی جاتی ہے ‘ لیکن (اتنی اہم شخصیت کے حامل ہونے کے باوجود) ان میں سے جب کوئی مرتا ہے تو دل کی خواہش دل ہی میں لے کرجاتا ہے ‘ پورا کرنے کی توفیق ہی اس کو نہیں ملتی۔ اللہ اپنے ملائکہ میں سے جس کو چاہے گا حکم دے گا کہ مہاجرین کے پاس جاؤ اور ان کو میرا سلام پہنچاؤ۔ فرشتے عرض کریں گے : اے ہمارے مالک ! ہم تیرے آسمان کے باشندے ہیں ‘ مخلوق میں تیرے برگزیدہ بندے ہیں۔ کیا تو ہم کو حکم دے رہا ہے کہ ہم ان کے پاس جائیں اور ان کو سلام کریں ؟ اللہ فرمائے گا : یہ میرے ایسے بندے تھے کہ میرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے ‘ کسی کو میرا شریک نہیں قرار دیتے تھے۔ انہی کو سرحدوں پر بھیجا جاتا تھا اور انہی کے ذریعہ سے ناگوار امور سے حفاظت ہوتی تھی اور جب ان میں سے کوئی مرتا تھا تو اپنا ارمان اپنے دل میں ہی لے کر مرتا تھا ‘ پورا کرنے کی اس کو توفیق ہی نہ ہوتی تھی۔ حسب الحکم فرشتے ان کے پاس جنت کے ہر دروازہ سے آئیں گے اور کہیں گے : سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ۔

واخر دعوٰھم ان الحمد اللہ رب العٰلمین۔ اور ان کی (اس وقت کی باتوں میں) آخری بات ہوگی الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ شاید اس سے مراد یہ ہے کہ جب اہل جنت ‘ جنت میں داخل ہو کر اللہ کی عظمت کا معائنہ کریں گے تو اس کی بزرگی بیان کریں گے اور صفات جلالیہ کا اظہار کریں گے۔ پھر اللہ کی طرف سے فرشتے حاضر ہو کر ان کو تمام آفتوں سے سالم رہنے اور عزت و کرامت پر فائز ہونے کی دعا دیں گے۔ اس وقت وہ اللہ کی حمد و ثنا کریں گے اور اللہ کی صفت اکرام کو بیان کریں گے۔

بغوی نے لکھا ہے : وہ کلام کا آغاز تسبیح سے کریں گے اور الحمد اللہ پر کلام کو ختم کریں گے اور ان دونوں کے درمیان جو بات کرنی چاہیں گے ‘ کریں گے۔

آیت 10 دَعْوٰٹہُمْ فِیْہَا سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ ”اس میں ان کا ترانہ ہوگا : اے اللہ تو پاک ہے“وہ لوگ جنت کے اندر بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح و مناجات کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ‘ تو ہر ضعف سے پاک ہے ‘ ہر عیب اور ہر نقص سے مبرا ہے اور احتیاج کے ہر تصور سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ وَتَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلٰمٌ ج ”اور اس میں ان کی آپس کی دعا ’ سلام ‘ ہوگی۔“اہل جنت آپس میں ایک دوسرے کو ملتے ہوئے السلام علیکم کے الفاظ کہیں گے ‘ اس طرح وہاں ہر طرف سے سلام ‘ سلام کی آوازیں آ رہیں ہوں گی۔ جیسے سورة الواقعہ میں فرمایا : لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۔ ”وہاں نہ بےہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ۔ وہاں ان کا کلام سلام سلام ہوگا۔“وَاٰخِرُ دَعْوٰٹہُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ”اور ان کی دعا اور مناجات کا اختتام ہمیشہ ان کلمات پر ہوگا کہ کل حمد اور کل تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔“

آیت 10 - سورہ یونس: (دعواهم فيها سبحانك اللهم وتحيتهم فيها سلام ۚ وآخر دعواهم أن الحمد لله رب العالمين...) - اردو