اس صفحہ میں سورہ Yunus کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يونس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
نادان و محروم لوگ جو لوگ قیامت کے منکر ہیں، جو اللہ کی ملاقات کے امیدوار نہیں۔ جو اس دنیا پر خوش ہوگئے ہیں، اسی پر دل لگا لیا ہے، نہ اس زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، نہ اس زندگی کو سود مند بناتے ہیں اور اس پر مطمئن ہیں۔ اللہ کی پیدا کردہ نشانیوں سے غافل ہیں۔ اللہ کی نازل کردہ آیتوں میں غور فکر نہیں کرتے، ان کی آخری جگہ جہنم ہے۔ جو ان کی خطاؤں اور گناہوں کا بدلہ ہے جو ان کے کفر و شرک کی جزا ہے۔
خوش انجام خوش نصیب لوگ نیک بختوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو مانا، فرمانبرداری کی نیکیوں پر چلتے رہے، انہیں ان کے ایمان کی وجہ سے راہ مل جائے گی۔ پل صراط سے پار ہوجائیں گے۔ جنت میں پہنچ جائیں گے، نور مل جائے گا۔ جس کی روشنی میں چلیں پھریں گے۔ پس ممکن ہے کہ (آیت بایمانھم) میں با سببیت کی ہو۔ اور ممکن ہے کہ استعانت کی ہو۔ ان کے اعمال اچھی بھلی صورت اور عطر و خوشبو بن کر ان کے پاس ان کی قبر میں آئیں گے اور انہیں خوشخبری دیں گے یہ پوچھیں گے کہ تم کون ہو ؟ وہ جواب دیں گے تمہارے نیک اعمال۔ پس یہ اپنے ان نورانی عمل کی روشنی میں جنت میں پہنچ جائیں گے اور کافروں کا عمل نہایت بد صورت، بدبو دار ہو کر اس پر چمٹ جائے گا اور اسے دھکے دے کر جہنم میں لے جائے گا۔ یہ جو چیز کھانا چاہیں گے اسی وقت فرشتے اس تیار کرکے لائیں گے۔ انہیں سلام کہیں گے جو جواب دیں گے اور کھائیں گے۔ کھا کر اپنے رب کی حمد بیان کریں گے۔ ان کے صرف سبحانک اللھم کہتے ہی دس ہزار خادم اپنے ہاتھوں میں سونے کے کٹوروں میں کھانا لے کر حاضر ہوجائیں گے اور یہ سب میں سے کھائے گا۔ ان کا آپس میں بھی تحفہ سلام ہوگا۔ وہاں کوئی لغو بات کانوں میں نہ پڑے گی۔ در و دیوار سے سلامتی کی آوازیں آتی رہیں گے۔ رب رحیم کی طرف سے بھی سلامتی کا قول ہوگا۔ فرشتے بھی ہر ایک دروازے سے آکر سلام کریں گے۔ آخری قول ان کا اللہ کی ثناء ہوگا۔ وہ معبود برحق ہے اول آخر حمد و تعریف کے سزاوار ہے۔ اسی لیے اس نے اپنی حمد بیان فرمائی مخلوق کی پیدائش کے شروع میں، اس کی بقاء میں، اپنی کتاب کے شروع میں، اور اس کے نازل فرمانے کے شروع میں۔ اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں ایک نہیں کئی ایک ہیں جیسے (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا ڸ) 18۔ الكهف :1) وغیرہ۔ وہی اول آخر دنیا عقبیٰ میں لائق حمد وثناء ہے ہر حال میں اس کی حمد ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اہل جنت سے تسبیح و حمد اس طرح ادا ہوگی جیسے سانس چلتا رہتا ہے۔ یہ اس لیے کہ ہر وقت نعمتیں راحتیں آرام اور آسائش بڑھتا ہوا دیکھیں گے پس لا محالہ حمد ادا ہوگی۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، نہ اس کے سوا کوئی پالنہار ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے احسانات کا تذکرہ فرماتے ہیں فرمان ہے کہ میرے الطاف اور میری مہربانیوں کو دیکھو، کہ بندے کبھی کبھی تنگ آکر، گھبرا کر اپنے لیے، اپنے بال بچوں کے لیے اپنے مالک کے لیے، بد دعائیں کر بیٹھتے ہیں لیکن میں انہیں قبول کرنے میں جلدی نہیں کرتا۔ ورنہ وہ کسی گھر کے نہ رہیں جیسے کہ میں انہی چیزوں کی برکت کی دعائیں قبول فرمالیا کرتا ہوں۔ ورنہ یہ تباہ ہوجاتے۔ پس بندوں کو ایسی بدعاؤں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ چناچہ مسند بزار کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ اپنی جان و مال پر بد دعا نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت موافقت کر جائے اور وہ بد دعا قبول ہوجائے۔ اسی مضمون کا بیان (وَيَدْعُ الْاِنْسَان بالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بالْخَيْرِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا 11) 17۔ الإسراء :11) میں ہے۔ غرض یہ ہے کہ انسان کا کسی وقت اپنی اولاد مال وغیرہ کے لیے بد دعا کرنا کہ اللہ اسے غارت کرے وغیرہ۔ ایک نیک دعاؤں کی طرح قبولیت میں ہی آجا کرے تو لوگ برباد ہوجائیں۔
مومن ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں۔ اسی آیت جیسی (وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَاۗءٍ عَرِيْضٍ 51) 41۔ فصلت :51) ہے یعنی جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بڑی لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ ہر وقت اٹھتے بیٹھے لیٹتے اللہ سے اپنی تکلیف کے دور ہونے کی التجائیں کرتا ہے۔ لیکن جہاں دعا قبول ہوئی تکلیف دور ہوئی اور ایسا ہوگیا جیسے کہ نہ اسے کبھی تکلیف پہنچی تھی نہ اس نے کبھی دعا کی تھی۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں اور وہ انہیں اپنے ایسے ہی گناہ اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ ہاں ایماندار، نیک اعمال، ہدایت و رشد والے ایسے نہیں ہوتے۔ حدیث شریف میں ہے مومن کی حالت پر تعجب ہے۔ اس کے لیے ہر الٰہی فیصلہ اچھا ہی ہوتا ہے۔ اسے تکلیف پہنچی اس نے صبر و استقامت اختیار کی اور اسے نیکیاں ملیں۔ اسے راحت پہنچی، اس نے شکر کیا، اس پر بھی نیکیاں ملیں، یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ سابقہ اقوام پر تکذیب رسول کی وجہ سے عذاب آئے تہس نہس ہوگئے۔ اب تم ان کے قائم مقام ہو اور تمہارے پاس بھی افضل الرسل آچکے ہیں۔ اللہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے اعمال کی کیا کیفیت رہتی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں دنیا میٹھی، مزے کی، سبز رنگ والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ دنیا سے ہوشیار رہو۔ اور عورتوں سے ہوشیار رہو۔ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی آیا تھا۔ (مسلم) حضرت عوف بن مالک نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک رسی لٹکائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے تو اسے مکمل تھام لیا، پھر لٹکائی گئی تو ابوبکر صدیق ؓ نے بھی اسی طرح اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ پھر منبر کے ارد گرد لوگوں نے ناپنا شروع کیا تو حضرت عمر ؓ تین ذراع بڑھ گئے۔ حضرت عمر ؓ نے یہ خواب سن کر فرمایا بس ہٹاؤ بھی۔ ہمیں خوابوں کیا حاجت ؟ پھر اپنی خلافت کے زمانے میں عمر فاروق نے کہا عوف تمہارا خواب کیا تھا ؟ حضرت عوف نے کہا جانے دیجئے۔ جب آپ کو اس کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ نے جب مجھے ڈانٹ دیا پھر اب کیوں پوچھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس وقت تو تم خلیفۃ الرسول کو ان کی موت کی خبر دے رہے تھے۔ اب بیان کرو انہوں نے بیان کیا۔ تو آپ نے فرمایا لوگوں کا منبر کی طرف تین ذراع پانا یہ تھا کہ ایک تو خلیفہ برحق تھا۔ دوسرے خلیفہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بالکل بےپرواہ تھا۔ تیسرا خلیفہ شہید ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر ہم نے تمہیں خلیفہ بنایا کہ ہم تمہارے اعمال دیکھیں۔ اے عمر کی ماں کے لڑکے تو خلیفہ بنا ہوا ہے۔ خوب دیکھ بھال لے کہ کیا کیا عمل کر رہا ہے ؟ آپ کا فرمان کہ " میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا " سے مراد ان چیزوں میں ہے جو اللہ چاہے۔ شہید ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب حضرت عمر ؓ کی شہادت ہوئی اس وقت مسلمان آپ کی مطیع و فرمانبردار تھے۔