اب اللہ ذرا اس عظیم کائنات اور ان عظیم اجرام فلکی کی لطیف تنظیم کی طرف اشارہ فرماتا ہے اور اس تنظیم اور ترتیب کی وجہ سے کیا کیا مظاہر پیدا ہوتے ہیں ؟ غور کیجئے !
لا الشمس ینبغی ۔۔۔۔۔ فلک یسبحون (36: 40) ” نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں “۔ ہر ستارے اور سیارے کے لیے ایک فلک ہے یا اس کا اپنا مدار ہے۔ اپنی رفتار اور گردش میں وہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ ستاروں اور سیاروں کے درمیان عظیم فاصلے ہیں۔ زمین سورج کے درمیان 73 ملین میل کا فاصلہ ہے اور چاند زمین سے 240 ملین میل دور ہے۔ لیکن یہ فاصلے بھی اپنی اس دوری کے باوجود شمسی کہکشاں اور اس کے قریب ترین دوسری کہکشاں کے قریب تارے سے چار نوری سال دور ہے۔ اور نوری سال میں ٹائم کا تعین یوں کیا گیا ہے کہ جس میں روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سکینڈ ہو گویا سورج کی کہکشاں سے قریب ترین ستارہ ایک سو چار ملین میل دور ہے۔
اللہ جو اس کائنات کا خالق ہے ، اس نے ستاروں اور سیاروں کو درمیان اس قدر عظیم فاصلے پیدا کیے ہیں اور جس نے اس عظیم کائنات کا یہ عجیب نقشہ تیار فرمایا ہے تاکہ اسے باہم تصادم اور ٹکراؤ سے بچایا جائے اور یہ نظام یونہی جاری رہے الایہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت برپا کر دے اس لیے سورج کے اندر یہ قوت نہیں ہے کہ وہ چاند کو جالے۔ اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے نہ اس کے مقابلے میں کھڑی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جس گردش کی وجہ سے روزوشب پیدا ہوتے ہیں وہ جاری ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں سے کوئی دوسرے سے آگے نہیں ہوسکتا اور نہ دوسرے کی راہ روک سکتا ہے۔
وکل فی فلک یسبحون (36: 40) ” اور سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں “۔ فضائے کائنات میں ان سیاروں اور اجرام فلکی کی حرکت یوں ہے جس طرح سفینہ سمندر میں تیر رہا ہوتا ہے۔ یہ بحری جہاز اپنی عظمت کے باوجود اس عظیم سمندر میں ایک سیاہ نکتہ ہی ہوتا ہے۔
انسان حیران اور ششدر رہ جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ لاکھوں سیارے اور جرم فلکی اس وسیع فضائے کائنات میں بکھرے پڑے ہیں اور تیر رہے ہیں۔ ہر سیارے اور اجرام فلکی کے اردگرد ایک وسیع فضا ہے اور وہ دوسرے سے بہت دور ہے اور ان سیاروں اور اجرام کا حجم بہت بڑا ہونے کے باوجود اس وسیع فضا میں وہ ایک نکتہ ہیں ۔ بہت ہی معمولی نکتہ ! !
آیت 40 { لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَہَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ } ”نہ تو سورج کے لیے ممکن ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن سے آگے نکل سکتی ہے۔“ جب تک یہ دنیا قائم ہے یہ دونوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہی چلتے رہیں گے۔ { وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ } ”‘ اور یہ سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔“ یہ تمام اجرامِ سماویہ بہت منظم انداز میں اپنے اپنے مدار کے اندر محو ِگردش ہیں۔