سورہ یٰسین (36): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yaseen کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یٰسین کے بارے میں معلومات

Surah Yaseen
سُورَةُ يسٓ
صفحہ 442 (آیات 28 سے 40 تک)

۞ وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَىٰ قَوْمِهِۦ مِنۢ بَعْدِهِۦ مِن جُندٍ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا كُنَّا مُنزِلِينَ إِن كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَٰحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَٰمِدُونَ يَٰحَسْرَةً عَلَى ٱلْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ أَلَمْ يَرَوْا۟ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ ٱلْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ وَإِن كُلٌّ لَّمَّا جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ وَءَايَةٌ لَّهُمُ ٱلْأَرْضُ ٱلْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَٰهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّٰتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَٰبٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ ٱلْعُيُونِ لِيَأْكُلُوا۟ مِن ثَمَرِهِۦ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ سُبْحَٰنَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْأَزْوَٰجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۢبِتُ ٱلْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ وَءَايَةٌ لَّهُمُ ٱلَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ ٱلنَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ وَٱلشَّمْسُ تَجْرِى لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْعَلِيمِ وَٱلْقَمَرَ قَدَّرْنَٰهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَٱلْعُرْجُونِ ٱلْقَدِيمِ لَا ٱلشَّمْسُ يَنۢبَغِى لَهَآ أَن تُدْرِكَ ٱلْقَمَرَ وَلَا ٱلَّيْلُ سَابِقُ ٱلنَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ
442

سورہ یٰسین کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یٰسین کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اس کے بعد اُس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا ہمیں لشکر بھیجنے کی کوئی حاجت نہ تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama anzalna AAala qawmihi min baAAdihi min jundin mina alssamai wama kunna munzileena

وما انزلنا علی۔۔۔۔۔ فاذا ھم خمدون (28 – 29) ان سرکشوں کا کیا انجام ہوا ، یہاں اللہ تعالیٰ ان کو حقیر سمجھتے ہوئے قلم زد فرما دیتا ہے۔ ان حقیر لوگوں کے خلاف کسی لشکر کشی کی ضرورت نہ تھی۔ بس اچانک ایک دھماکہ ہوا ، ایک سخت چیخ اٹھی اور وہ بجھ کر رہ گئے۔ یہاں اب ان لوگوں کے اس حسرتناک ، ذلت آمیز اور توہین آمیز انجام پر پردہ گرتا ہے۔ اور یہ منظر یہاں لپیٹ لیا جاتا ہے

اردو ترجمہ

بس ایک دھماکہ ہوا اور یکایک وہ سب بجھ کر رہ گئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In kanat illa sayhatan wahidatan faitha hum khamidoona

اردو ترجمہ

افسوس بندوں کے حال پر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا اُس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya hasratan AAala alAAibadi ma yateehim min rasoolin illa kanoo bihi yastahzioona

درس 206 ایک نظر میں

پہلے سبق میں بات ان لوگوں کے بارے میں تھی جنہوں نے دعوت اسلامی کا استقبال انکار اور تکذیب کے ساتھ کیا۔ اور اس کا انجام ان کے گاؤں کا قصہ بیان کرکے بتایا گیا کہ ان جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ ان کا انجام یہ ہوا کہ

فاذاھم خمدون (36: 29) ” اچانک وہ بجھ کر رہ گئے “۔ لیکن اس سبق میں تمام ملتوں اور تمام کتب سماوی کے مکذبین کا انجام بنایا گیا ہے۔ اور پوری انسانی تاریخ سے گمراہ انسانوں کے خدوخال اور نقوش یہاں بتائے گئے ہیں اور یہاں نہایت ہی دلدوز آواز و انداز میں پکارا جاتا ہے کہ تعجب ہے کہ لوگ ان اقوام کی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ جن کی سچائی کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔ یہ مکذبین وہ ہیں جو گمراہی کے راستے پر آگے ہی بڑھ رہے ہیں اور یوم الدین کا انہیں کوئی خیال نہیں ہے۔

وان کل لما جمیع لدینا محضرون (36: 32) ” ان سب کو ایک روز ہمارے سامنے حاضر کیا جاتا ہے “۔

اس کے بعد تکوینی دلائل اور معجزات اور نشانیوں کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ وہ نشانیاں ہیں جن کو یہ لوگ رات اور دن دیکھتے ہیں اور نہایت ہی لاپرواہی سے ان پر سے گزر جاتے ہیں۔ یہ خود ان کے نفوس کے اندر بھی موجود ہیں۔ ان کے ماحول میں بھی موجود ہیں۔ ان کی قدیم تاریخ میں بھی موجود ہیں لیکن ان کو اس کا شعور نہیں ہے اور جب ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ یاد نہیں کرتے۔ سبق نہیں حاصل کرے۔

وما تاتیھم من ۔۔۔۔ عنھا معرضین (36: 46) ” ان کے سامنے ان کے رب کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے ، یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے “۔ اس کے برعکس یہ لوگ اللہ کے عذاب کے بارے میں جلد آنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ مطالبہ وہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کو عذاب کے آنے کا کوئی یقین نہیں۔

ویقولون متی۔۔۔۔۔ صدقین (36: 48) ” کہتے ہیں کہ یہ قیامت کی دھمکی آخر کب پوری ہوگی ؟ بتاؤ اگر تم سچے ہو “۔ چونکہ یہ لوگ عذاب میں شتابی کا مطالبہ کرتے ہیں ، قیامت کے آنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور دل میں یہ ہے کہ ان کو ان امور کے واقع ہونے کا یقین نہیں ہے۔ اس لیے یہاں مناظر قیامت میں سے ایک طویل منظر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ منظر صاف صاف بتاتا ہے کہ انجام کیا ہوگا ، جس کے واقع ہونے کی ان کو بہت جلدی ہے۔ یہ منظر اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ گویا ان کا انجام واقع ہوگیا اور یہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔

درس نمبر 206 تشریح آیات

30 ۔۔۔ تا۔۔۔ 68

یحسرۃ علی العباد۔۔۔۔۔ لدنیا محضرون (30 – 32) حسرت ایک ایسی نفسیاتی حالت ہے جس میں انسان کو بےحد افسوس ہوتا ہے لیکن وہ اس حالت کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پس وہ دیکھ دیکھ کر کڑھتا ہے اور اسے اذیت ہوتی ہے۔ اللہ کو تو بندوں کے ایمان نہ لانے پر کوئی حسرت نہیں ہوتی۔ مفہوم یہ ہے کہ انسان نقطہ نظر سے یہ لوگ قابل حسرت ہیں۔ وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی حالت پر افسوس کیا جائے۔ کیونکہ ان کا یہ حال نہایت ہی قابل تالیف ، پریشان کن اور قابل رحم ہے کہ یہ لوگ اپنی اس ضلالت کی وجہ سے دائمی شر اور دائمی مصیبت میں مبتلا ہونے والے ہیں۔

یقیناً وہ لوگ اس قابل ہیں کہ ان کی حالت پر افسوس کیا جائے جن کو نجات کا موقعہ ملتا ہے اور وہ اس سے استفادہ نہیں کرتے۔ ان کے سامنے انسانی تاریخ موجود ہے اور وہ اس تاریخ سے عبرت نہیں پکڑتے اور نہ ہی تاریخی واقعات پر غور کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس وقتاً فوقتاً اللہ ان کی ہدایت کے لیے رسولوں کو بھیجتا ہے لیکن یہ لوگ اللہ کی رحمت کے دروازوں سے دور ہوجاتے ہیں اور پھر اللہ کی شان میں گستاخی بھی کرتے ہیں۔

یحسرۃ علی ۔۔۔۔ یستھزءون (36: 30) ” جو رسول بھی ان کے پاس آیا اس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے “۔

اردو ترجمہ

کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں اور اس کے بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam yaraw kam ahlakna qablahum mina alqurooni annahum ilayhim la yarjiAAoona

الم یرواکم۔۔۔۔۔ لا یرجعون (36: 31) ” کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں اور اس کے بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے “۔ وہ اقوام جو ہلاک کی گئیں اور اس دنیا سے مٹا دی گئیں ، ان کے مٹ جانے میں لوگوں کے لیے سامان عبرت و نصیحت ہے ۔ اور طویل انسانی تاریخ انسانوں کے لیے موضوع غوروفکر و تدبر ہے۔ لیکن یہ بدبخت لوگ انسانی تاریخ پر غور نہیں کرتے۔ حالانکہ اپنی اس لاپرواہی کی وجہ سے وہ ہلاکت اور بربادی کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ تو انکی اس افسوسناک حالت پر حسرت کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔

ایک حیوان بھی جب دوسرے حیوان کی موت اور ہلاکت اپنے سامنے دیکھتا ہے تو وہ کانپ اٹھتا ہے اور مقدر بھر کوشش کرتا ہے کہ وہ اس انجام سے بچ جائے۔ لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ باوجود اسکے کہ وہ اپنے بھائیوں کو اپنی بےراہ روی کی وجہ سے ہلاک ہوتے دیکھتا ہے اور پھر وہ اسی راہ پر چلتا ہے۔ محض اپنے غرور اور کبر اور لاپرواہی کی وجہ سے ، وہ دھوکہ کھاتا ہے اور دیکھنے کے باوجود اسی راہ پر چلتا ہے۔ انسان کی ایک طویل تاریخ اس کے سامنے اور وہ جانتا بھی ہے کہ انسانوں کی ہلاکت فلاں فلاں اسباب کی وجہ سے ہوئی لیکن وہ پھر بھی اندھوں کی طرح لاپرواہی سے انہی راہوں پر چلتا ہے ۔ اور نہیں دیکھتا۔

جب ہلاک ہونے والے اور نابود کو دئیے جانے والے اب اپنے جانشینوں کے پاس واپس نہیں آسکتے تو یہ جانشین بھی اسی راستے پر جائیں گے۔ یہ ہم سے بچ کر نہ نکل سکیں گے۔ ان سے بھی حساب لیا جائے گا۔

وان کل لما ۔۔۔۔۔۔۔ محضرون (36: 32) ” بیشک ان سب کو ایک روز ہمارے سامنے حاضر کیا جانا ہے “۔

اردو ترجمہ

ان سب کو ایک روز ہمارے سامنے حاضر کیا جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain kullun lamma jameeAAun ladayna muhdaroona

اردو ترجمہ

اِن لوگوں کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waayatun lahumu alardu almaytatu ahyaynaha waakhrajna minha habban faminhu yakuloona

وایۃ لھم الارض المیتۃ۔۔۔۔۔ ومما لا یعلمون (33 – 36 پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں “۔

یہ لوگ رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور انسانی تاریخ کے اندر تکذیب کرنے والوں کی قتل گاہوں اور بربادیوں پر گور نہیں کرتے۔ اور یہ لوگ مخلوق کی اس حالت سے کوئی سبق نہیں لیتے کہ لوگ چلے جا رہے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی واپس نہیں ہو رہا ہے۔ اور رسول کی دعوت یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں ۔ وہ اللہ جس کے وجود پر ان کے اردگرد پھیلی ہوئی یہ کائنات اچھی طرح دلالت کرتی ہے۔ اللہ کی ثنا کرتی ہے اور اس کے وجود پر شاہد ہے۔ یہ زمین جو ان کے پاؤں کے نیچے ہے ، یہ دیکھتے ہیں کہ ایک وقت میں یہ مر جاتی ہے۔ اس میں کوئی روئیدگی نہیں ہوتی۔ پھر یہ زندہ ہوجاتی ہے۔ اس میں حیوانات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے اندر باغات پیدا ہوتے ہیں۔ کھجوریں ، انگور اور پھر ان باغات کے اندر چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور یوں انسانی اور دوسری زندگی رواں دواں نظر آتی ہے۔

اور پھر یہ زندگی بذات خود ایک معجزہ ہے اور کوئی انسان یہ قدرت نہیں رکھتا کہ وہ زندگی کا اجرا کرسکے ، اس کی تخلیق کرسکے اور اس کے بعد اس کا سلسلہ تناسل کو جاری کرسکے۔ زندگی کے اس عظیم معجزے کا اجراء دست قدرت کا عجیب کارنامہ ہے۔ مردہ جسم کے اندر زندگی کی روح پھونک دی جاتی ہے دم بدم بڑھنے والی فصل کو دیکھ کر ، گھنی چھاؤں والے باغات کو دیکھ کر ، اور اس سے بھرے ہوئے پختہ پھلوں کو دیکھ کر انسانی دل و دماغ کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ انسان دیکھتا ہے کہ یہ پوری زمین کو پھاڑ کر روشنی اور آزادی کے لیے سر نکالتے ہیں۔ اور یہ سر نکالنے والی لکڑی سورج کی روشنی میں سرسز و شاداب ہوجاتی ہے۔ اور پھر یہ پودا پتوں اور پھلوں سے مزین ہوجاتا ہے۔ پھول کھل جاتے ہیں ، پھل پک جاتے ہیں اور توڑنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

لیاکلوا ۔۔۔ ایدیھم (36: 35) ” تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں اور یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے “۔ یہ اللہ ہی کا ہاتھ ہے جس نے ان کو اس کام پر قدرت دی۔ جس طرح اس نے فصلوں اور پھلوں کو بڑھنے کی صلاحیت دی۔

افلا یشکرون (36: 35) ” پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے۔

اس کے بعد قرآن کریم میں ایک لطیف اشارہ ، اس طرح آتا ہے کہ جس ذات نے انسان کی راہنمائی ان نباتات اور باغات کی طرف فرمائی۔ وہ وہی ہے جس نے فصلوں کے اندر بھی جوڑے پیدا کیے یعنی نر اور مادہ جس طرح انسانوں اور حیوانوں کے اندر جوڑے ہیں اور تمام دوسری مخلوق میں بھی جوڑے ہیں جن کو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر چشمے پھوڑ نکالے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAalna feeha jannatin min nakheelin waaAAnabin wafajjarna feeha mina alAAuyooni

اردو ترجمہ

تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liyakuloo min thamarihi wama AAamilathu aydeehim afala yashkuroona

اردو ترجمہ

پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود اِن کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا اُن اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Subhana allathee khalaqa alazwaja kullaha mimma tunbitu alardu wamin anfusihim wamimma la yaAAlamoona

سبحن الذی۔۔۔۔ مما لایعلمون (36: 36) ”

اللہ کی یہ تسبیح نہایت ہی موزوں وقت پر آتی ہے اور تسبیح کے ساتھ ساتھ یہ اس کائنات کی عظیم حقیقت کا اظہار بھی کر رہی ہے۔ یہ کہ تمام مخلوق ایک جیسی ہے۔ اللہ کی تخلیق کا ایک اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے تمام مخلوقات کو جوڑے جوڑے پیدا کیا ہے۔ نباتات بھی انسانوں کی طرح جوڑے ہیں۔ اور انسانوں اور نباتات کے علاوہ دوسری مخلوق بھی جوڑے ہیں۔

ومما لا یعلمون (36: 36) ” اور ان اشیاء میں بھی جوڑے ہیں جنہیں یہ جانتے تک نہیں “۔ اصول تخلیق اور تکوین کی یہ یگانگت بتلاتی ہے کہ اس کائنات کا خالق بھی ایک ہے۔ تمام شکلوں ، تمام مجموعوں ، تمام انواع ، تمام اجناس ، تمام خصائص اور تمام علامات کے اندر یہ قاعدہ پوری طرح کارفرما ہے۔ یہ بات معلوم ہوگئی ہے کہ ایٹم اس کائنات کا وہ چھوٹا سا حصہ ہے جو آج معلوم ہوچکا ہے اور یہ ایٹم بھی دو جوڑوں سے مرکب ہے۔ یعنی مثبت اور منفی الیکڑانک شعاعیں۔ یہ باہم جدا بھی ہوتی ہیں اور متحد بھی۔ اسی طرح ہزاروں ستارے ایسے معلوم ہوچکے ہیں جو مزدوج تخلیق کے مالک ہیں۔ جو دو ستاروں سے بنے ہوئے ہیں اور باہم مرتب وہم آہنگ ہیں اور ایک ہی مدار میں پھرتے ہیں۔ گویا وہ ایک مرتب نغمہ کی شکل میں ہیں۔

اردو ترجمہ

اِن کے لیے ایک اور نشانی رات ہے، ہم اُس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو اِن پر اندھیرا چھا جاتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waayatun lahumu allaylu naslakhu minhu alnnahara faitha hum muthlimoona

یہ تو تھی مردہ زمین جس سے زندگی پھوٹ رہی ہے ۔ اب زمین سے آگے بڑھ کر قرآن آسمان کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، آسمانی نطارے ہمارے سامنے پیش ہوتے ہیں اور یہ تمام نظارے دست قدرت کے عجوبے ہیں۔

وایۃ لھو الیل ۔۔۔۔۔۔ فی فلک یسبحون (37 – 40) ” “۔

رات کے آنے کا منظر ، روشنی ختم ہوجاتی ہے اور اندھیرا آہستہ آہستہ چھا جاتا ہے ۔ یہ وہ منظر ہے جسے تمام انسان 24 گھنٹوں میں دہرایا ہوا دیکھتے ہیں ، ماسوائے ان خطوں کے جہاں رات اور دن کا عمل چھ ماہ کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ یعنی ان علاقوں میں جو قطبین کے بہت قریب ہیں۔ یہ عمل اگرچہ رات اور دن میں بار بار دہرایا جاتا ہے لیکن اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ اللہ کی قدرت

کا ایک عجوبہ ہے اور اس قابل ہے کہ انسان اس پر غور و فکر کریں۔

یہاں اس مقام پر اس عجوبے کا انداز تعبیر بھی منفرد ہے۔ یہاں رات کو دن میں ملبوس تصور کیا گیا ہے اور جب دن کا لباس اتر جائے تو رات آجاتی ہے۔ اور لوگ اچانک اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔ اسی انداز تعبیر کا ادراک یوں ہو سکتا ہے اور یہ اس وقت پھر مجاز کے بجائے حقیقت نظر آتی ہے ، جب ہم زمین کی گردش محوری پر غور کریں۔ سورج کے سامنے اس کی اس گردش کے بدولت زمین کا ایک نقطہ سورج کے سامنے رہتا ہے اور وہاں دن ہوتا ہے اور جن زمین کا وہ حصہ غائب ہوتا ہے تو اچانک دن کا لباس اتار دیا جاتا ہے اور ماحول پر پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اور یہ منظر نہایت ہی تنظیم کے ساتھ یونہی چلتا رہتا ہے۔ ہر وقت دن کے لباس کو رات کے جسم سے کھینچا جاتا ہے اور رات ظاہر ہوتی رہتی ہے غرض یہ قرآنی تعبیر حقیقی بھی ہے اور نہایت ہی فصیح اور ادیبانہ بھی

والشمس تجری لمستقرلھا (36: 38) ” اور سورج ، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے “۔ سورج بھی گردش محوری رکھتا ہے۔ بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اپنی جگہ ابستادہ ہے لیکن تازہ ترین سائنسی معلومات یہ ہیں کہ یہ سورج اپنی جگہ رکا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ بھی چل رہا ہے ، عملاً رواں ہے۔ یہ ایک ہی سمت میں جا رہا ہے۔ اس عظیم کائنات اور اس فضا اور خلا میں یہ ایک طرف جا رہا ہے۔ اور یہ 12 میل فی سیکنڈ کے حساب سے ایک ہی سمت میں جا رہا ہے۔ لیکن اس کی حرکت اور رفتار کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے جو خبیر وبصیر ہے اور اللہ صریح طور پر فرماتا ہے کہ اس کی ایک جائے فتراء ہے اور اس کے لیے دوب تابی سے چل رہا ہے۔ کس طرح اور کب وہاں پہنچتا ہے یہ قیامت ہے اور اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔

جب ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ اس سورج کا حجم زمین سے ایک ملین گنا زیادہ ہے اور یہ سورج اپنی اس کہکشاں کے ساتھ (اور کہکشاں کس قدر عظیم ہے ، ذرا سوچ لیں) ایک فضائے لامتناہی میں اپنے مستقر کے لیے رواں ہے ، تو اس سے اللہ کے علم اور قدرت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ ہے مفہوم اس آیت کا۔

ذلک تقدیر العزیز العلیم (36: 38) ” یہ زبردست ، علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے ؛۔

اردو ترجمہ

اور سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalshshamsu tajree limustaqarrin laha thalika taqdeeru alAAazeezi alAAaleemi

اردو ترجمہ

اور چاند، اُس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalqamara qaddarnahu manazila hatta AAada kaalAAurjooni alqadeemi

والقمر قدرنہ۔۔۔۔۔ القدیم (36: 39) ” چاند ، اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کی مانند رہ جاتا ہے “۔ لوگ چاند کو تو اپنی ان منزلوں میں دیکھ سکتے ہیں ۔ وہ ہلال کی طرح نمودار ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ گول ہو کر بدر ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد گھٹنا شروع ہوتا ہے اور پھر وہ ہلال کی طرح ہوجاتا ہے اور یوں نظر آتا ہے جس طرح کھجور کی پرانی خشک شاخ۔ العرجون اس شاخ کو کہتے ہیں جس میں کھجور کی قسم ” بلح “ ہوتی ہے۔ جو لوگ چاند کو ہر رات دیکھتے ہیں وہ قرآن کریم کی اس انداز تعبیر کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔

عاد کالعرجون القدیم (36: 39) ” یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے “۔ خصوصاً اس تعبیر میں لفظ قدیم معنی خیز ہے۔ چاند پہلی راتوں میں ہلال ہوتا ہے اور آخری راتوں میں بھی ہلال ہوتا ہے لیکن پہلی راتوں میں وہ شگفتہ اور نشوونما والا نظر آتا ہے۔ اور آخری راتوں میں پژ مردہ ، زوال پذیر اور خشکی اور سکڑنے کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہ سکڑ کر اس قدر خشک ہوجاتا ہے جس طرح خشک شاخ ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ قرآن نے یہ انداز تعبیر اختیار کیا ہے بلکہ یہ بامقصد اور اصل صورت کا حقیقی اظہار ہے اور عجیب ہے۔

چاندنی راتوں میں مسلسل غور و فکر کرنے سے انسانی احساس کے پردوں پر شعور اور تخیلات کی عجیب و غریب اور تروتازہ کیفیات آتی ہیں اور انسان پر اس سوچ کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور وہ انسان جو اس چاند کا پورے ایک ماہ تک مشاہدہ کرتا ہے اور غور کرتا ہے وہ تاثرات لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بدیع المسوات اور خالق جلال و جمال کی قدرت کی شان کیا ہے جس نے اس قدر عظیم اجرام سماوی کی یہ خوبصورتی اور یہ تنظیم عطا کی ہے۔ ہر شخص اس منظر سے بقدر ہمت ہدایت لے سکتا ہے۔ چاہے وہ اس عظیم کائنات کے ان رازوں کو جانتا ہے یا نہیں ۔ میں کہتا ہوں صرف رات کے وقت چاند کا مشاہدہ ہی انسانی دل کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ اس سے شعور بیدار ہوتا ہے اور انسان کے اندر غوروفکر کی عادت پڑتی ہے۔

اردو ترجمہ

نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La alshshamsu yanbaghee laha an tudrika alqamara wala allaylu sabiqu alnnahari wakullun fee falakin yasbahoona

اب اللہ ذرا اس عظیم کائنات اور ان عظیم اجرام فلکی کی لطیف تنظیم کی طرف اشارہ فرماتا ہے اور اس تنظیم اور ترتیب کی وجہ سے کیا کیا مظاہر پیدا ہوتے ہیں ؟ غور کیجئے !

لا الشمس ینبغی ۔۔۔۔۔ فلک یسبحون (36: 40) ” نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں “۔ ہر ستارے اور سیارے کے لیے ایک فلک ہے یا اس کا اپنا مدار ہے۔ اپنی رفتار اور گردش میں وہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ ستاروں اور سیاروں کے درمیان عظیم فاصلے ہیں۔ زمین سورج کے درمیان 73 ملین میل کا فاصلہ ہے اور چاند زمین سے 240 ملین میل دور ہے۔ لیکن یہ فاصلے بھی اپنی اس دوری کے باوجود شمسی کہکشاں اور اس کے قریب ترین دوسری کہکشاں کے قریب تارے سے چار نوری سال دور ہے۔ اور نوری سال میں ٹائم کا تعین یوں کیا گیا ہے کہ جس میں روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سکینڈ ہو گویا سورج کی کہکشاں سے قریب ترین ستارہ ایک سو چار ملین میل دور ہے۔

اللہ جو اس کائنات کا خالق ہے ، اس نے ستاروں اور سیاروں کو درمیان اس قدر عظیم فاصلے پیدا کیے ہیں اور جس نے اس عظیم کائنات کا یہ عجیب نقشہ تیار فرمایا ہے تاکہ اسے باہم تصادم اور ٹکراؤ سے بچایا جائے اور یہ نظام یونہی جاری رہے الایہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت برپا کر دے اس لیے سورج کے اندر یہ قوت نہیں ہے کہ وہ چاند کو جالے۔ اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے نہ اس کے مقابلے میں کھڑی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جس گردش کی وجہ سے روزوشب پیدا ہوتے ہیں وہ جاری ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں سے کوئی دوسرے سے آگے نہیں ہوسکتا اور نہ دوسرے کی راہ روک سکتا ہے۔

وکل فی فلک یسبحون (36: 40) ” اور سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں “۔ فضائے کائنات میں ان سیاروں اور اجرام فلکی کی حرکت یوں ہے جس طرح سفینہ سمندر میں تیر رہا ہوتا ہے۔ یہ بحری جہاز اپنی عظمت کے باوجود اس عظیم سمندر میں ایک سیاہ نکتہ ہی ہوتا ہے۔

انسان حیران اور ششدر رہ جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ لاکھوں سیارے اور جرم فلکی اس وسیع فضائے کائنات میں بکھرے پڑے ہیں اور تیر رہے ہیں۔ ہر سیارے اور اجرام فلکی کے اردگرد ایک وسیع فضا ہے اور وہ دوسرے سے بہت دور ہے اور ان سیاروں اور اجرام کا حجم بہت بڑا ہونے کے باوجود اس وسیع فضا میں وہ ایک نکتہ ہیں ۔ بہت ہی معمولی نکتہ ! !

442