سورہ طٰہٰ: آیت 74 - إنه من يأت ربه مجرما... - اردو

آیت 74 کی تفسیر, سورہ طٰہٰ

إِنَّهُۥ مَن يَأْتِ رَبَّهُۥ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُۥ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اُس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu man yati rabbahu mujriman fainna lahu jahannama la yamootu feeha wala yahya

آیت 74 کی تفسیر

انہ من یات ……تزکی (67)

اس نے ان کو دھمکی دی تھی کہ کون سخت ہے اور کس کا اقتدار دائمی ہے تو وہ پیش کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ کے سامنے مجرم بن کر آئے تو اس کو شدید عذاب ملتا ہے اور وہ عذاب دوزخ ہوتا ہے کیونکہ

فان لہ جھنم لا یموت فیھا ولا یحییٰ (02 : 38) ” اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور جیے گا۔ “ نہ وہ مر کر آرام کرے گا اور نہ زندہ رہ کر آرام میں ہوگا۔ وہ ایسا عذاب ہوگا کہ اس کے نتیجے میں موت بھی واقع نہ ہوگی ، نہ آرام کی زندگی ملے گی جبکہ دوسری جانب بلند درجے ہیں۔ ایسے باغات ہیں اور ان میں ایسے بالا خانے ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔

وذلک جزوا من تزکی (02 : 68) ” اور یہ جزاء ہے اس شخص کی جو پاکیزگی ” اختیار کرے۔ “ اور گناہوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ ایک سرکش اور تشدد پسند مقتدر اعلیٰ کی دھمکی جس نے اہل ایمان کے دلوں کو ہلاک کر رکھ دیا ، لیکن جواب میں انہوں نے بھی قوت ایمانی کے ساتھ جواب دیا۔ ایمان کی سربلندی کا ثبوت دیا اور اس سرکش کو انجام ہد سے ڈرایا اور اسے گہرے ایمان کی چمک دکھائی۔

یہ منظر اب آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے لیکن اس نے ثابت کردیا کہ جن لوگوں کے دلوں میں ایمان داخل ہوجاتا ہے تو وہ اس دنیا کے حدود وقیود کو پار کر کے ، اپنی آزادی اور حریت کا اعلان کردیتے ہیں۔ ان دلوں میں پھر طمع و لالچ نہیں رہتا ، ان کے سامنے زمین کا اقتدار ہیچ ہوتا ہے۔ اہل اقتدار کے ڈر سے وہ بےنیاز ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی انسان اور قلب انسانی آزادی کا یہ اعلان صرف ایمانی قوت کے بل بوتے پر کرسکتا ہے۔ اب پردہ گرتا ہے ، تاکہ اس قصے کی ایک جدید کڑی کو اسٹیج پر لایا جائے۔

یہ وہ منظر ہے جس میں ایک سچی جماعت کو اس کرئہ ارض پر بھی کامیابی نصیب ہوتی ہے لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب وہ نظریات اور ایمان کی دنیا میں اخلاقی فتح حاصل کرلیتی ہے۔ سیاق کلام میں عصا کو جادوگری پر فتح حاصل ہوچکی ہے۔ جادوگروں کے ایمان کو فرعون پر اخلاقی فتح حاصل ہوچکی ہے۔ ایمان کے بعد ان کو تمام دنیاوی خوف و خطر پر فتح حاصل ہوچکی ہے۔ وہ اب دھمکی اور دھونس سے نہیں ڈرتے۔ اب حق باطل پر ، ایمان ضلالت پر ، حق سرکشی پر عالم واقعہ میں فتح حصال کرتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ آخری فتح مشروط ہے ایمانی اور نظریاتی فتح کے ساتھ۔ واقعہ ار میدان جنگ میں فتح تب ہوتی ہے جب ضمیر کے اندر کوئی گروہ فاتح ہو۔ اہل حق کو ظاہری فتح ، ان کے باطن کی فتح کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایمان اور نظریات اپنے اندر ایک حقیقت رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت جب انسان کے شعور اور اس کی سوچ میں مجسم ہوتی ہے تو پھر یہ باہر نکلتی ہے اور لوگ اسے واقعی صورت میں زمین پر دیکھتے ہیں۔ اگر ایمان دلوں کے اندر مجسم شکل میں موجود نہ ہو ، اور سچائی ایک شعاع اور عمل کی شکل میں دلوں سے بہہ کر نکلتی ہو تو ایسے حالات میں سرکش اہل باطل ہی غالب ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسی مادی قوت کے مالک ہوتے ہیں جس کے مقابلے کے لئے ایمانی قوت بھی اہل حق کے ساتھ نہیں ہوتی اور قوت کا توازن نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ قلب اور دل میں ایمان ایک حقیقی قوت کی شکل میں موجود ہو۔ یہ ایمانی قوت اگر کسی کے اندر موجود ہو تو وہ بڑی سے بڑی مادی قوت کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا یہی موقف تھا جو انہوں نے جادو گروں ، فرعون اور سرداران فرعن کے مقابلے میں اختیار کیا ۔ وہ ایمانی اور نظریاتی اور اخلاقی کامیابی کے بعد اس سر زمین پر بھی کامیاب ہوئے۔ ذرا اس منظر کو دیکھیے۔

ایمان یافتہ جادوگروں پر فرعون کا عتاب۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں نے ایمان قبول فرما کر فرعون کو جو نصیحتیں کیں انہیں میں یہ آیتیں بھی ہیں۔ اسے اللہ کے عذاب کے عذابوں سے ڈرا رہے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا لالچ دلا رہے ہیں کہ گنہگاروں کا ٹھکانا جہنم ہے جہاں موت تو کبھی آنے ہی کی نہیں لیکن زندگی بھی بڑی مشقت والی موت سے بدتر ہوگی۔ جسے فرمان ہے (لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36؀ۚ) 35۔ فاطر :36)۔ یعنی نہ موت آئے گی نہ عذاب ہلکے ہوں گے کافروں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ اور آیتوں میں ہے (وَيَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى 11 ۙ) 87۔ الأعلی:11) یعنی اللہ کی نصیحتوں سے بےفیض وہی رہے گا جو ازلی بدبخت ہو جو آخرکار بڑی سخت آگ میں گرے گا جہاں نہ تو موت آئے نہ چین کی زندگی نصیب ہو۔ اور آیت میں ہے کہ جہنم میں جھلستے ہوئے کہیں گے کہ اے داروغہ دوزخ تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت ہی دے دے لیکن وہ جواب دے گا کہ نہ تم مرنے والے ہو نہ نکلنے والے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اصلی جہنمی تو جہنم میں ہی پڑے رہیں گے نہ وہاں انہیں موت آئے نہ آرام کی زندگی ملے ہاں ایسے لوگ بھی ہوں گے جہنیں ان گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ جل کر کوئلہ ہوجائیں گے جان نکل جائے گی پھر شفاعت کی اجازت کے بعد ان کا چورا نکالا جائے گا اور جنت کی نہروں کے کناروں پر بکھیردیا جائے گا اور جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو تو جس طرح تم نے نہر کے کنارے کے کھیت کے دانوں کو اگتے ہوئے دیکھا ہے اسی طرح وہ اگیں گے۔ یہ سن کر ایک شخص کہنے لگے حضور ﷺ نے مثال تو ایسی دی ہے گویا آپ کچھ زمانہ جنگل میں گزار چکے ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ خطبے میں اس آیت کی تلاوت کے بعد آپ نے یہ فرمایا تھا۔ اور جو اللہ سے قیامت ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جا ملا اسے اونچے بالا خانوں والی جنت ملے گی۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جنت کے سو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں۔ سب سے اوپر جنت الفردوس ہے اسی سے چاروں نہریں جاری ہوتی ہیں اس کی چھت رحمان کا عرش ہے اللہ سے جب جنت مانگو تو جنت الفردوس کی دعا کرو۔ (ترمذی وغیرہ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ کہا جاتا تھا کہ جنت کے سو درجے ہیں ہر درجے کے پھر سو درجے ہیں دو درجوں میں اتنی دوری ہے جتنی آسمان و زمین میں۔ ان میں یاقوت اور موتی ہیں اور زیور بھی۔ ہر جنت میں امیر ہے جس کی فضیلت اور سرداری کے دوسرے قائل ہیں۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ اعلی علیین والے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے تم لوگ آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ لوگوں نے کہا پھر یہ بلند درجے تو نبیوں کے لئے ہی مخصوص ہونگے ؟ فرمایا سنو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے نبیوں کو سچا جانا۔ سنن کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ ابوبکر وعمر انہی میں سے ہیں۔ اور کتنے ہی اچھے مرتبے والے ہیں۔ یہ جنتیں ہمیشگی کی اقامت ہیں جہاں یہ ہمیشہ ابدالاباد رہیں گے۔ جو لوگ اپنے نفس پاک رکھیں گناہوں سے . خباثت سے . گندگی سے . شرک و کفر سے دور رہیں . اللہ واحد کی عبادت کرتے رہیں . رسولوں کی اطاعت میں عمرگزاردیں ان کے لئے یہی قابل رشک مقامات اور قابل صد مبارکباد انعام ہیں (رزقنا اللہ ایاہا)۔

آیت 74 - سورہ طٰہٰ: (إنه من يأت ربه مجرما فإن له جهنم لا يموت فيها ولا يحيى...) - اردو