اس صفحہ میں سورہ Taa-Haa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ طه کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 66 قَالَ بَلْ اَلْقُوْاج ”تو یوں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں کو پہل کرنے کی دعوت دے دی۔ فَاِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعٰی ”حِبال جمع ہے حبل رسی کی اور عِصِیّ جمع ہے عصا لاٹھی کی۔ یعنی جادوگروں نے میدان میں رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں جو ان کے جادو کے اثر سے دیکھنے والوں کو سانپوں کی طرح بھاگتی دوڑتی نظر آنے لگیں۔
آیت 67 فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی۔ ”حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ خوف لاحق ہوا کہ جو معجزہ میرے پاس ہے اسی نوعیت کی چیز تو جادوگروں نے بھی دکھا دی ہے۔ چناچہ اب یہ سارے تماشائی تالیاں پیٹیں گے کہ موسیٰ کو شکست ہوگئی اور وہ جو عظیم الشان مشن اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اس کا کیا بنے گا ؟
آیت 69 وَاَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْاط اِنَّمَا صَنَعُوْا کَیْدُ سٰحِرٍ ط ”یعنی یہ جو کچھ میدان میں سانپوں کی صورت میں نظر آ رہا ہے اس کی حقیقت کچھ نہیں ‘ محض نظر کا دھوکا ہے۔ عرف عام میں اس کیفیت کو ”نظر بندی“ کہا جاتا ہے۔
آیت 70 فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا ”اس نکتے کی وضاحت سورة الاعراف کے مطالعہ کے دوران کی جا چکی ہے کہ آخر کیا وجہ تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فتح کے بعد جادو گر تو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگئے ‘ لیکن دوسری طرف نہ فرعون پر اس کا کچھ اثر ہوا اور نہ ہی اس کے درباریوں سمیت دوسرے لوگوں پر۔ دراصل فرعون اور اس کے درباریوں نے تو یہی سمجھا کہ یہ جادوگروں کا آپس میں مقابلہ تھا جس میں بڑے جادوگر نے چھوٹے جادوگروں کو مات دے دی۔ جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل جادو گر جو اپنے فن کے ماہر تھے وہ اپنے کمال فن کی انتہا سے بھی آگاہ تھے اور اس کی حدود limits سے بھی خوب واقف تھے۔ جیسے آج ایک طبیعیات دان Physicist خوب جانتا ہے کہ فزکس کے میدان میں اب تک کیا کیا ایجادات ہوچکی ہیں اور اس کے کمالات کی رسائی کہاں تک ہے۔ چناچہ جادوگروں پر یہ حقیقت منکشف ہونے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ نہ تو ان کے مد مقابل شخصیت کوئی جادوگر ہے اور نہ ہی یہ اژدھا کسی جادوئی کرشمے کا کمال ہے ! چناچہ وہ بغیر حیل و حجت سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگئے اور :
آیت 71 قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ ط ”فرعون نے مخصوص شہنشاہانہ انداز میں جادوگروں کو ڈانٹ پلائی کہ تمہاری یہ جرأت ! تم لوگوں نے مابدولت کی اجازت کے بغیر موسیٰ کے رب پر ایمان لانے کا اعلان بھی کردیا ! حالانکہ میری اجازت کے بغیر تو اس کے بارے میں تمہیں زبان بھی نہیں کھولنا چاہیے تھی۔ اِنَّہٗ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ ج ”اب فرعون کو ایک اور چال سوجھی۔ جس طرح عزیز مصر کی بیوی نے اپنے خاوند کو سامنے دروازے پر دیکھ کر یکدم پینترا بدلا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ یوسف اس کی آبرو کے درپے ہوا تھا ‘ اسی طرح فرعون نے جادوگروں کو مخاطب ہو کر کہا کہ تم لوگوں نے جو مقابلہ کیا ہے یہ محض دکھاوا تھا۔ موسیٰ دراصل تمہارا استاد ہے ‘ تم لوگوں نے اسی سے جادو سیکھ رکھا ہے۔ اندر سے تم لوگ آپس میں ملے ہوئے ہو۔ تمہاری یہ شکست تم لوگوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے اور اس طرح تم لوگوں نے مل ملا کر ہمارے خلاف ایک بہت بڑی سازش کی ہے۔ چناچہ اس نے گرجتے ہوئے جادوگروں کو دھمکی دی : وَلَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰی ”تم لوگوں کو میرے اور موسیٰ کے اختیار و مرتبے کا فرق بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کون زیادہ سخت سزا دے سکتا ہے اور کس کو بقاء و دوام حاصل ہے۔
آیت 72 قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآءَ نَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا ”اب ہمارے رب کی طرف سے ہم پر حق واضح کردیا گیا ہے ‘ حقیقت ہم پر منکشف ہوچکی ہے ‘ ہم اپنے رب پر ایمان لا چکے ہیں ‘ اب ہمارے لیے تیری مرضی و منشا کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ط ”اب تو ہمیں جو سزا دینا چاہے دے لے ‘ خواہ ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کر دے ‘ مگر ہم جس حق پر ایمان لائے ہیں اب اس سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ اِنَّمَا تَقْضِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا ”تو ہمارے ساتھ زیادہ سے زیادہ کر بھی کیا سکتا ہے ؟ صرف ہماری اس دنیوی زندگی ہی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکتا ہے نا ! جو آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں ویسے بھی ختم ہونے والی ہے۔ اگر تو اسے کل کے بجائے آج ختم کر دے گا تو اس میں ہمارے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں :
آیت 73 اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَلَنَا خَطٰیٰنَا وَمَآ اَکْرَہْتَنَا عَلَیْہِ مِنَ السِّحْرِ ط ”تیرے مجبور کرنے پر ہم نے اپنے جادو کے بل پر اللہ کے پیغمبر کا مقابلہ کرنے کی جو جسارت کی ہے ہم اپنے رب سے اس جرم کی معافی مانگتے ہیں۔ ان جادوگروں سے تو یہی کہا گیا ہوگا کہ تمہیں ایک بہت بڑے جادوگر کا مقابلہ کرنا ہے ‘ لیکن جب یہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں آئے تو آپ علیہ السلام کی با رعب شخصیت سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور مقابلہ کرنے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوگئے۔ قبل ازیں آیت 62 میں ان کی اس کیفیت کی جھلک دکھائی گئی ہے۔ اب جادوگروں کے اس اقراری بیان سے مزید واضح ہوگیا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ لینے اور آپ علیہ السلام کی تقریر سن لینے کے بعد آپ علیہ السلام سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتے تھے ‘ لیکن بالآخر فرعون کے مجبور کرنے پر وہ اس پر آمادہ ہوگئے تھے۔وَاللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ”حق کو قبول کرلینے اور اللہ پر ایمان لا چکنے کے بعد اب ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوچکی ہے کہ بقاء و دوام صرف اللہ ہی کو حاصل ہے اور اسی کا راستہ سب سے بہتر راستہ ہے۔
آیت 75 وَمَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓءِکَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی ”یعنی ایسے لوگ جن کے پاس ایمان حقیقی کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کی پونجی بھی ہوگی ان کے لیے بلند درجے ہوں گے۔