اس صفحہ میں سورہ Taa-Haa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ طه کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
مقابلہ شروع ہوا۔ جادوگروں نے موسیٰ ؑ سے کہا کہ اب بتاؤ تم اپنا وار پہلے کرتے ہو یا ہم پہل کریں ؟ اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا تم ہی پہلے اپنے دل کی بھڑاس نکال لو تاکہ دنیا دیکھ لے کہ تم نے کیا کیا اور پھر اللہ نے تمہارے کئے کو کس طرح مٹا دیا ؟ اسی وقت انہوں نے اپنی لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں کچھ ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا وہ سانپ بن کر چل پھر رہی ہیں اور میدان میں دوڑ بھاگ رہی ہیں۔ کہنے لگے فرعون کے اقبال سے غالب ہم ہی رہیں گے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر کے انہیں خوفزدہ کردیا اور جادو کے زبردست کرتب دکھا دیئے۔ یہ لوگ بہت زیادہ تھے۔ ان کی پھینکی ہوئی رسیوں اور لاٹھیوں سے اب سارے کا سارا میدان سانپوں سے پر ہوگیا وہ آپس میں گڈ مڈ ہو کر اوپر تلے ہونے لگے۔ اس منظر نے حضرت موسیٰ ؑ کو خوفزدہ کردیا کہ کہیں ایسا نہ ہو لوگ ان کے کرتب کے قائل ہوجائیں اور اس باطل میں پھنس جائیں۔ اسی وقت جناب باری نے وحی نازل فرمائی کہ اپنے داہنے ہاتھ کی لکڑی کو میدان میں ڈال دو ہراساں نہ ہو۔ آپ نے حکم کی تعمیل کی۔ اللہ کے حکم سے یہ لکڑی ایک زبردست بےمثال اژدھا بن گئی، جس کے پیر بھی تھے اور سر بھی تھا۔ کچلیاں اور دانت بھی تھے۔ اس نے سب کے دیکھتے سارے میدان کو صاف کردیا۔ اس نے جادوگروں کے جتنے کرتب تھے سب کو ہڑپ کرلیا۔ اب سب پر حق واضح ہوگیا، معجزے اور جادو میں تمیز ہوگئی۔ حق و باطل میں پہچان ہوگئی۔ سب نے جان لیا کہ جادوگروں کی بناوٹ میں اصلیت کچھ بھی نہ تھی۔ فی الواقع جادوگر کوئی چال چلیں لیکن اس میں غالب نہیں آسکتے۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے ترمذی میں بھی موقوفاً اور مرفوعاً مروی ہے کہ جادوگر کو جہاں پکڑو مار ڈالو، پھر آپنے یہی جملہ تلاوت فرمایا۔ یعنی جہاں پایا جائے امن نہ دیا جائے۔ جادوگروں نے جب یہ دیکھا انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کام انسانی طاقت سے خارج ہے وہ جادو کے فن میں ماہر تھے بیک نگاہ پہچان گئے کہ واقعی یہ اس اللہ کا کام ہے جسکے فرمان اٹل ہیں جو کچھ وہ چاہے اس کے حکم سے ہوجاتا ہے۔ اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں۔ اس کا اتنا کامل یقین انہیں ہوگیا کہ اسی وقت اسی میدان میں سب کے سامنے بادشاہ کی موجودگی میں وہ اللہ کے سامنے سربہ سجود ہوگئے اور پکار اٹھے کہ ہم رب العالمین پر یعنی ہارون اور موسیٰ (علیہما السلام) کے پروردگار پر ایمان لائے۔ سبحان اللہ صبح کے وقت کافر اور جادوگر تھے اور شام کو پاکباز مومن اور اللہ کی راہ کے شہید تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کی تعداد اسی ہزار تھی یا ستر ہزار یا کچھ اوپر تیس ہزار یا انیس ہزار یا پندرہ ہزار یا بارہ ہزار۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ ستر تھے۔ صبح جادوگر شام کو شہید۔ مروی ہے کہ جب یہ سجدے میں گرے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت دکھا دی اور انہوں نے اپنی منزلیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
نتیجہ موسیٰ ؑ کی صداقت کا گواہ بنا۔ اللہ کی شان دیکھئے چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اب راہ راست پر آجاتا۔ جن کو اس مقابلے کہ لئے بلوایا تھا وہ عام مجمع میں ہارے۔ انھوں نے اپنی ہار مان لی اپنے کرتوت کو جادو اور حضرت موسیٰ ؑ کے معجزے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ معجزہ تسلیم کرلیا۔ خود ایمان لے آئے جو مقابلے کے لئے بلوائے گئے تھے۔ مجمع عام میں سب کے سامنے بےجھجک انھوں نے دین حق قبول کرلیا۔ لیکن یہ اپنی شیطانیت میں اور بڑھ گیا اور اپنی قوت وطاقت دکھانے لگا لیکن بھلاحق والے مادی طاقتوں کو سمجھتے ہی کیا ہیں ؟ پہلے تو جادوگروں کے اس مسلم گروہ سے کہنے لگا کہ میری اجازت کے بغیر تم اس پر ایمان کیوں لائے ؟ پھر ایسا بہتان باندھا جس کا جھوٹ ہونا بالکل واضح ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ تو تمہارے استاد ہیں انہی سے تم نے جادو سیکھا ہے۔ تم سب آپس میں ایک ہی ہو مشورہ کرکے ہمیں تاراج کرنے کے لئے تم نے پہلے انہیں بھیجا پھر اس کے مقابلے میں خود آئے ہو اور اپنے اندورنی سمجھوتے کے مطابق سامنے ہار گئے ہو اور اسے جتا دیا اور پھر اس کا دین قبول کرلیا تاکہ تمہاری دیکھا دیکھی میری رعایا بھی چکر میں پھنس جائے مگر تمہیں اپنی اس ساز باز کا انجام بھی معلوم ہوجائے گا۔ میں الٹی سیدھی طرف سے تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر کجھور کے تنوں پر سولی دوں گا اور اس بری طرح تمہاری جان لوں گا کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔ اسی بادشاہ نے سب سے پہلے یہ سزا دی ہے۔ تم جو اپنے آپکو ہدایت پر اور مجھے اور میری قوم کو گمراہی پر سمجھتے ہو اس کا حال تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ دائمی عذاب کس پر آتا ہے اس دھمکی کا ان دلوں پر الٹا اثر ہوا۔ وہ اپنے ایمان میں کامل بن گئے اور نہایت بےپرواہی سے جواب دیا کہ اس ہدایت و یقین کے مقابلے میں جو ہمیں اب اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے ہم تیرا مذہب کسی طرح قبول کرنے کے نہیں۔ نہ تجھے ہم اپنے سچے خالق مالک کے سامنے کوئی چیز سمجھیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ قسم ہو یعنی اس اللہ کی قسم جس نے ہمیں اولاً پیدا کیا ہے ہم ان واضح دلیلوں پر تیری گمراہی کو ترجیح دے ہی نہیں سکتے خواہ تو ہمارے ساتھ کچھ ہی کرلے مستحق عبادت وہ ہے جس نے ہمیں بنایا نہ کہ تو، جو خود اسی کا بنایا ہوا ہے۔ تجھے جو کرنا ہو اس میں کمی نہ کر تو تو ہمیں اسی وقت تک سزا دے سکتا ہے جب تک ہم اس دنیا کی حیات کی قید میں ہیں ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد ابدی راحت اور غیر فانی خوشی ومسرت نصیب ہوگی۔ ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے اگلے قصوروں سے درگزر فرمالے گا بالخصوص یہ قصور جو ہم سے اللہ کے سچے نبی کے مقابلے پر جادو بازی کرنے کا سرزد ہوا ہے ابن عباس ؓ فرماتے ہیں فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس بچے لے کر انہیں جادوگروں کے سپرد کیا تھا کہ انہیں جادو کی پوری تعلیم دو اب یہ لڑکے یہ مقولہ کہہ رہے ہیں کہ تو نے ہم سے جبراً جادوگری کی خدمت لی۔ حضرت عبدالرحمن بن زید ؒ کا قول بھی یہی ہے۔ پھر فرمایا ہمارے لئے بہ نسبت تیرے اللہ بہت بہتر ہے اور دائمی ثواب دینے والا ہے۔ نہ ہمیں تیری سزاؤں سے ڈر نہ تیرے انعام کی لالچ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے۔ اسی کے عذاب دائمی ہیں اور سخت خطرناک ہیں اگر اس کی نافرمانی کی جائے۔ پس فرعون نے بھی ان کے ساتھ یہ کیا سب کے ہاتھ پاؤں الٹی سیدھی طرف سے کاٹ کر سولی پر چڑھا دیا وہ جماعت جو سورج کے نکلنے کے وقت کافر تھی وہی جماعت سورج ڈوبنے سے پہلے مومن اور شہید تھی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین۔
ایمان یافتہ جادوگروں پر فرعون کا عتاب۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں نے ایمان قبول فرما کر فرعون کو جو نصیحتیں کیں انہیں میں یہ آیتیں بھی ہیں۔ اسے اللہ کے عذاب کے عذابوں سے ڈرا رہے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا لالچ دلا رہے ہیں کہ گنہگاروں کا ٹھکانا جہنم ہے جہاں موت تو کبھی آنے ہی کی نہیں لیکن زندگی بھی بڑی مشقت والی موت سے بدتر ہوگی۔ جسے فرمان ہے (لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36ۚ) 35۔ فاطر :36)۔ یعنی نہ موت آئے گی نہ عذاب ہلکے ہوں گے کافروں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ اور آیتوں میں ہے (وَيَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى 11 ۙ) 87۔ الأعلی:11) یعنی اللہ کی نصیحتوں سے بےفیض وہی رہے گا جو ازلی بدبخت ہو جو آخرکار بڑی سخت آگ میں گرے گا جہاں نہ تو موت آئے نہ چین کی زندگی نصیب ہو۔ اور آیت میں ہے کہ جہنم میں جھلستے ہوئے کہیں گے کہ اے داروغہ دوزخ تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت ہی دے دے لیکن وہ جواب دے گا کہ نہ تم مرنے والے ہو نہ نکلنے والے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اصلی جہنمی تو جہنم میں ہی پڑے رہیں گے نہ وہاں انہیں موت آئے نہ آرام کی زندگی ملے ہاں ایسے لوگ بھی ہوں گے جہنیں ان گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ جل کر کوئلہ ہوجائیں گے جان نکل جائے گی پھر شفاعت کی اجازت کے بعد ان کا چورا نکالا جائے گا اور جنت کی نہروں کے کناروں پر بکھیردیا جائے گا اور جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو تو جس طرح تم نے نہر کے کنارے کے کھیت کے دانوں کو اگتے ہوئے دیکھا ہے اسی طرح وہ اگیں گے۔ یہ سن کر ایک شخص کہنے لگے حضور ﷺ نے مثال تو ایسی دی ہے گویا آپ کچھ زمانہ جنگل میں گزار چکے ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ خطبے میں اس آیت کی تلاوت کے بعد آپ نے یہ فرمایا تھا۔ اور جو اللہ سے قیامت ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جا ملا اسے اونچے بالا خانوں والی جنت ملے گی۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جنت کے سو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں۔ سب سے اوپر جنت الفردوس ہے اسی سے چاروں نہریں جاری ہوتی ہیں اس کی چھت رحمان کا عرش ہے اللہ سے جب جنت مانگو تو جنت الفردوس کی دعا کرو۔ (ترمذی وغیرہ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ کہا جاتا تھا کہ جنت کے سو درجے ہیں ہر درجے کے پھر سو درجے ہیں دو درجوں میں اتنی دوری ہے جتنی آسمان و زمین میں۔ ان میں یاقوت اور موتی ہیں اور زیور بھی۔ ہر جنت میں امیر ہے جس کی فضیلت اور سرداری کے دوسرے قائل ہیں۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ اعلی علیین والے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے تم لوگ آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ لوگوں نے کہا پھر یہ بلند درجے تو نبیوں کے لئے ہی مخصوص ہونگے ؟ فرمایا سنو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے نبیوں کو سچا جانا۔ سنن کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ ابوبکر وعمر انہی میں سے ہیں۔ اور کتنے ہی اچھے مرتبے والے ہیں۔ یہ جنتیں ہمیشگی کی اقامت ہیں جہاں یہ ہمیشہ ابدالاباد رہیں گے۔ جو لوگ اپنے نفس پاک رکھیں گناہوں سے . خباثت سے . گندگی سے . شرک و کفر سے دور رہیں . اللہ واحد کی عبادت کرتے رہیں . رسولوں کی اطاعت میں عمرگزاردیں ان کے لئے یہی قابل رشک مقامات اور قابل صد مبارکباد انعام ہیں (رزقنا اللہ ایاہا)۔