سورہ طٰہٰ: آیت 71 - قال آمنتم له قبل أن... - اردو

آیت 71 کی تفسیر, سورہ طٰہٰ

قَالَ ءَامَنتُمْ لَهُۥ قَبْلَ أَنْ ءَاذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُۥ لَكَبِيرُكُمُ ٱلَّذِى عَلَّمَكُمُ ٱلسِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَٰفٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِى جُذُوعِ ٱلنَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَآ أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ

اردو ترجمہ

فرعون نے کہا " تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہو گیا کہ یہ تمہارا گرو ہے جس نے تمہیں جادوگری سکھائی تھی اچھا، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر پا ہے" (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسیٰؑ)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala amantum lahu qabla an athana lakum innahu lakabeerukumu allathee AAallamakumu alssihra falaoqattiAAanna aydiyakum waarjulakum min khilafin walaosallibannakum fee juthooAAi alnnakhli walataAAlamunna ayyuna ashaddu AAathaban waabqa

آیت 71 کی تفسیر

’ قال امنتم لہ قبل ان اذن لکم (02 : 18) ” تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں جازت دیتا۔ “ یہ ایک سرکش حکمران کی سوچ ہے۔ وہ اس قدر بھی نہیں جانتا کہ یہ بیچارے خود بھی اب اپنے نفوس و قلوب کے مالک نہیں رہے۔ ان کے دلوں پر ایمان چھا گیا ہے۔ یہ خود بھی ایمان کو اب دل سے نکال نہیں سکتے۔ دل تو رحمٰن کی دو انگلیوں میں ہوتا ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔

انہ لکبیرکم ……السحر (02 : 18) ” معلوم ہوگیا کہ یہ تمہارا گروہ ہے جس نے تمہیں جادوگری سکھائی تھی۔ “ اس شخص کی نظروں میں شکست تسلیم کرنے کی اصل وجہ یہ ہے۔ یہ وجہ نہیں ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان اس راستے سے داخل ہوگیا جس کا وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے قلب و نظر پر پڑے ہوئے پردے ہٹا دیئے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقی وجوہات ہیں۔

سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو سخت ترین تشدد کی دھمکی دیتے ہیں اور جب وہ لوگوں کے دلوں کو نہیں بدل سکتے تو وہ لوگوں کے جسم اور بدن کو اذیت دیتے ہیں۔ ان کا آخری حربہ یہی ہوتا ہے۔

فلا قطعن ایدیکم و ارجلکم من خلاف ولاوصلبنکم فی حذوع النخل (02 : 18) ” اچھا ، اب میں تمہارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سولی دیتا ہوں۔ “

ڈکٹیٹر کا ہتھیار اندھی قوت کا استعمال ہے۔ جانوروں اور درندو کی قوت جو جنگل کے قانون کے نام سے مشہور ہوتی ہے۔ وہ قوت جو کسی کمزور کو چیر پھاڑ کر رکھا جاتای ہے۔ اس کے خیال میں انسان کے درمیان جو دلیل سے بات کرتا ہے اور اس حیوان کے رمیان جو نیچے سے بات کرتا ہے ، کوئی فرق نہیں ہوتا۔

ولتعلمن اینا اشدعاذاباً و ابقی (02 : 18) ” پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ “

لیکن اب وقت اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ ایمان کے احساس نے اس نہایت ہی حقیر ذرے کو ایک عظیم قوت سے ملا دیا تھا۔ یہ ذرہ اب عظیم قوت کا سرچشمہ تھا۔ اس کے سامنے فرعون جیسی عظیم قوت بھی ہیچ ہے۔ اب ان جادوگروں کے سامنے دنیا کی اس مختصر زنگدی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان کے دلوں کے سامنے نہایت ہی روشن اور کھلی دنیا کے آفاق کھل گئے تھے۔ اب ان کے سامنے اس دنیا اور اس کے انعام و اکرام کی حقیقت ہی کیا رہ گئی تھی۔ دنیا کا مال و متاع ان کی نظروں میں اب بےوقعت تھا۔

آیت 71 قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ ط ”فرعون نے مخصوص شہنشاہانہ انداز میں جادوگروں کو ڈانٹ پلائی کہ تمہاری یہ جرأت ! تم لوگوں نے مابدولت کی اجازت کے بغیر موسیٰ کے رب پر ایمان لانے کا اعلان بھی کردیا ! حالانکہ میری اجازت کے بغیر تو اس کے بارے میں تمہیں زبان بھی نہیں کھولنا چاہیے تھی۔ اِنَّہٗ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ ج ”اب فرعون کو ایک اور چال سوجھی۔ جس طرح عزیز مصر کی بیوی نے اپنے خاوند کو سامنے دروازے پر دیکھ کر یکدم پینترا بدلا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ یوسف اس کی آبرو کے درپے ہوا تھا ‘ اسی طرح فرعون نے جادوگروں کو مخاطب ہو کر کہا کہ تم لوگوں نے جو مقابلہ کیا ہے یہ محض دکھاوا تھا۔ موسیٰ دراصل تمہارا استاد ہے ‘ تم لوگوں نے اسی سے جادو سیکھ رکھا ہے۔ اندر سے تم لوگ آپس میں ملے ہوئے ہو۔ تمہاری یہ شکست تم لوگوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے اور اس طرح تم لوگوں نے مل ملا کر ہمارے خلاف ایک بہت بڑی سازش کی ہے۔ چناچہ اس نے گرجتے ہوئے جادوگروں کو دھمکی دی : وَلَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰی ”تم لوگوں کو میرے اور موسیٰ کے اختیار و مرتبے کا فرق بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کون زیادہ سخت سزا دے سکتا ہے اور کس کو بقاء و دوام حاصل ہے۔

نتیجہ موسیٰ ؑ کی صداقت کا گواہ بنا۔ اللہ کی شان دیکھئے چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اب راہ راست پر آجاتا۔ جن کو اس مقابلے کہ لئے بلوایا تھا وہ عام مجمع میں ہارے۔ انھوں نے اپنی ہار مان لی اپنے کرتوت کو جادو اور حضرت موسیٰ ؑ کے معجزے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ معجزہ تسلیم کرلیا۔ خود ایمان لے آئے جو مقابلے کے لئے بلوائے گئے تھے۔ مجمع عام میں سب کے سامنے بےجھجک انھوں نے دین حق قبول کرلیا۔ لیکن یہ اپنی شیطانیت میں اور بڑھ گیا اور اپنی قوت وطاقت دکھانے لگا لیکن بھلاحق والے مادی طاقتوں کو سمجھتے ہی کیا ہیں ؟ پہلے تو جادوگروں کے اس مسلم گروہ سے کہنے لگا کہ میری اجازت کے بغیر تم اس پر ایمان کیوں لائے ؟ پھر ایسا بہتان باندھا جس کا جھوٹ ہونا بالکل واضح ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ تو تمہارے استاد ہیں انہی سے تم نے جادو سیکھا ہے۔ تم سب آپس میں ایک ہی ہو مشورہ کرکے ہمیں تاراج کرنے کے لئے تم نے پہلے انہیں بھیجا پھر اس کے مقابلے میں خود آئے ہو اور اپنے اندورنی سمجھوتے کے مطابق سامنے ہار گئے ہو اور اسے جتا دیا اور پھر اس کا دین قبول کرلیا تاکہ تمہاری دیکھا دیکھی میری رعایا بھی چکر میں پھنس جائے مگر تمہیں اپنی اس ساز باز کا انجام بھی معلوم ہوجائے گا۔ میں الٹی سیدھی طرف سے تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر کجھور کے تنوں پر سولی دوں گا اور اس بری طرح تمہاری جان لوں گا کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔ اسی بادشاہ نے سب سے پہلے یہ سزا دی ہے۔ تم جو اپنے آپکو ہدایت پر اور مجھے اور میری قوم کو گمراہی پر سمجھتے ہو اس کا حال تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ دائمی عذاب کس پر آتا ہے اس دھمکی کا ان دلوں پر الٹا اثر ہوا۔ وہ اپنے ایمان میں کامل بن گئے اور نہایت بےپرواہی سے جواب دیا کہ اس ہدایت و یقین کے مقابلے میں جو ہمیں اب اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے ہم تیرا مذہب کسی طرح قبول کرنے کے نہیں۔ نہ تجھے ہم اپنے سچے خالق مالک کے سامنے کوئی چیز سمجھیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ قسم ہو یعنی اس اللہ کی قسم جس نے ہمیں اولاً پیدا کیا ہے ہم ان واضح دلیلوں پر تیری گمراہی کو ترجیح دے ہی نہیں سکتے خواہ تو ہمارے ساتھ کچھ ہی کرلے مستحق عبادت وہ ہے جس نے ہمیں بنایا نہ کہ تو، جو خود اسی کا بنایا ہوا ہے۔ تجھے جو کرنا ہو اس میں کمی نہ کر تو تو ہمیں اسی وقت تک سزا دے سکتا ہے جب تک ہم اس دنیا کی حیات کی قید میں ہیں ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد ابدی راحت اور غیر فانی خوشی ومسرت نصیب ہوگی۔ ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے اگلے قصوروں سے درگزر فرمالے گا بالخصوص یہ قصور جو ہم سے اللہ کے سچے نبی کے مقابلے پر جادو بازی کرنے کا سرزد ہوا ہے ابن عباس ؓ فرماتے ہیں فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس بچے لے کر انہیں جادوگروں کے سپرد کیا تھا کہ انہیں جادو کی پوری تعلیم دو اب یہ لڑکے یہ مقولہ کہہ رہے ہیں کہ تو نے ہم سے جبراً جادوگری کی خدمت لی۔ حضرت عبدالرحمن بن زید ؒ کا قول بھی یہی ہے۔ پھر فرمایا ہمارے لئے بہ نسبت تیرے اللہ بہت بہتر ہے اور دائمی ثواب دینے والا ہے۔ نہ ہمیں تیری سزاؤں سے ڈر نہ تیرے انعام کی لالچ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے۔ اسی کے عذاب دائمی ہیں اور سخت خطرناک ہیں اگر اس کی نافرمانی کی جائے۔ پس فرعون نے بھی ان کے ساتھ یہ کیا سب کے ہاتھ پاؤں الٹی سیدھی طرف سے کاٹ کر سولی پر چڑھا دیا وہ جماعت جو سورج کے نکلنے کے وقت کافر تھی وہی جماعت سورج ڈوبنے سے پہلے مومن اور شہید تھی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین۔

آیت 71 - سورہ طٰہٰ: (قال آمنتم له قبل أن آذن لكم ۖ إنه لكبيركم الذي علمكم السحر ۖ فلأقطعن أيديكم وأرجلكم من خلاف ولأصلبنكم...) - اردو