فتنازعوا امرھم ……استعلی (46)
جب اصرار کرنے والوں نے دیکھا کہ موسیٰ کی نصیحت کا بعض لوگوں پر اثر ہوگیا ہے تو انہوں نے ایک دوسرے کے حوصلے بلند کرنے کے لئے دلائل دینا شروع کئے کہ موسیٰ اور ہارون بہت خطرناک ہیں ، یہ مصر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کے نظریات بدلنا چاہتے ہیں ، لہٰذا ان کا مقابلہ متحدہ ہو کر کرنا چاہئے۔ اس میں تر دد اور نزاع کے بجائے یکسوئی ہونی چاہئے۔ اور آج کا مقابلہ بہت ہی اہم ہے۔ اس میں جو بھی کامیاب مستقبل ہوا مستقبل اس کا ہے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے صرف ایک بات کی ، لیکن یہ بات چونکہ پختہ یقین اور سچائی پر مشتمل تھی اس لئے وہ مخالف کیمپ میں گولے کی طرحف گری اور اس نے سب کچھ ہلاک کر رکھ دیا۔ ان کے اندر افراتفری پیدا ہوگئی ، ان کو اپنے اوپر اعتماد نہ رہ۔ اپنے عقائد و نظریات پر وہ شک کرنے لگے۔ دعوت حق ہمیشہ ایسی ہوتی ہے اور داعیان حق کو ہمیشہ نہایت ہی زور دار طریقے سے بات کرنا چاہئے۔ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) صرف دو آدمی تھے۔ جادوگر بہت تھے ، ان کی پشت پر فرعون ، اس کی پوری حکومت ، اس کی فوج اور اس کا حکومتی رعب اور اس کے مالی وسائل تھے۔ جبکہ موسیٰ و ہارون کے ساتھ ان کا رب تھا اور یہ عقیدہ محکم تھا کہ وہ ان کے ساتھ ہے ، سن رہا ہے اور کچھ دیکھ رہا ہے ۔
یہی وہ راز ہے جس سے فرعون جیسے قاہر و جابر کے یہ اقدامات اس کی پریشانی اور جادوگروں کی یہ دوڑ دھوپ اور پوری حکومت مشینری کا حرکت میں آنا سمجھ میں آجاتا ہے کیونکہ موسیٰ اور ہارون گیا تھا کہ فرعون جیسی قوت ان کو چیلنج دیتی ہے ، اور ان کے چیلنج کو قبول کرتی ہے۔ پھر یہ حکومت مکمل تیار کرتی ہے اور میدان میں آتی ہے تمام جادوگر جمع کرتی ہے۔ لوگ جمع کئے جاتے ہیں ، خود فرعون اور اس کے سردار اس مقابلے کا مشاہدہ کرتے ہیں نیز فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) دو افراد کے ساتھ مقابلہ و مباحثہ کرنا قبول کس رطح کیا حالانکہ وہ بنی اسرائیل میں سے تھے اور بنی اسرائیل مصریوں کے غلام کے سچائی کیہیت ناک چادر ڈال دی تھی اور اللہ ان کے ساتھ کھڑا تھا ، سن رہا تھا اور دیکھ رہا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ کا ایک جملہ ان کی صفوں پر زلزلہ برپا کردیتا ہے۔ وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ خفیہ مشورے کریں ، اسی خطرے کو محسوس کریں ، ایک دوسرے کی ہمت بندھائیں اور ایک دوسرے کو اتحاد و اتفاق کی دعوت دیں اور اس مقابلے میں ثابت قدمی اختیار کریں۔
آیت 62 فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰی ”جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے براہ راست جادوگروں سے خطاب کیا تو وہ مرعوب ہوگئے۔ نبوت کا رعب بھی تھا اور آپ علیہ السلام کی شخصیت کی خداداد وجاہت بھی ‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد قبل ازیں آیت 39 میں وارد ہوچکا ہے : وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ ج کہ میں نے اپنی طرف سے تم پر اپنی خاص محبت ڈال دی تھی۔ چناچہ جادوگر یہ سب کچھ برداشت نہ کرسکے۔ آپ علیہ السلام کی تقریر سنتے ہی مقابلے کا معاملہ ان میں متنازعہ ہوگیا۔ چناچہ وہ ایک دوسرے کو قائل کرنے کے لیے باہم سرگوشیوں میں مصروف ہوگئے۔ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تقریر سے فرعون کے درباریوں میں باہم اختلاف پیدا ہوگیا اور وہ آپس میں چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ مقابلہ نہ کرایا جائے۔ لیکن بالآخر وہ اتفاقِ رائے سے اس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے :