اس صفحہ میں سورہ Taa-Haa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ طه کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 52 قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍج لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَی ”میرا رب ہی جانتا ہے کہ ایسے لوگ جن کے پاس اللہ کی طرف سے دعوت لے کر کوئی رسول نہیں آیا ‘ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ میرا رب ان تمام لوگوں کے حالات سے خوب واقف ہے ‘ نہ تو اس سے غلطی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ بھولتا ہے۔ چناچہ ان کے بارے میں وہ خود ہی مناسب فیصلہ کرے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے درباریوں کو یہ مسکت جواب دینے کے بعد اپنی تقریر جاری رکھی :
فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُہٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَکَانًا سُوًی ”ایک کھلے میدان میں ہم سب جمع ہوجائیں۔ وہاں تم بھی اپنی یہ نشانیاں پیش کرو ‘ اور ہمارے جادو گر بھی اپنے جادو کے کمالات دکھائیں۔ فرعون کا خیال تھا کہ اس کے بلائے ہوئے جادوگر اس سے بہتر جادو دکھا دیں گے اور اس طرح موسیٰ کا دعویٰ باطل ثابت ہوجائے گا۔
آیت 59 قَالَ مَوْعِدُکُمْ یَوْمُ الزِّیْنَۃِ ”ان کے ہاں یہ کوئی تہوار تھا جس کے سلسلے میں وہ لوگ بڑی تعداد میں کسی میدان میں جمع ہو کر جشن مناتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکمت سے کام لیتے ہوئے اسی تہوار کے اجتماع کو مقابلے کے لیے مخصوص کرلیا۔وَاَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًی ”یہ ضحی کا وقت وہی ہے جس وقت ہم عیدین کے موقع پر نماز ادا کرتے ہیں۔ یعنی جب دھوپ ذرا سی اٹھ جائے اس وقت لوگوں کو جمع کرلیا جائے۔
آیت 60 فَتَوَلّٰی فِرْعَوْنُ ”جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ طے ہوگیا تو فرعون نے اپنی پوری توجہ اس کے لیے تیاری کرنے پر مرکوز کردی۔ فَجَمَعَ کَیْدَہٗ ثُمَّ اَتٰی ”اس نے اپنی پوری مملکت سے ماہر جادو گروں کو اکٹھا کیا اور یوں پوری تیاری کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لیے میدان میں اترا تاکہ ثابت کرسکے کہ آپ علیہ السلام کا دعویٰ باطل ہے۔
آیت 61 قَالَ لَہُمْ مُّوْسٰی وَیْلَکُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسْحِتَکُمْ بِعَذَابٍج ”حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آخری حجت کے طور پر انہیں خبردار کیا کہ دیکھو تم لوگ اللہ پر افترا بازی نہ کرو ‘ میں جو کچھ پیش کر رہا ہوں یہ جادو نہیں ہے ‘ یہ اللہ کا عطا کردہ معجزہ ہے۔
آیت 62 فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰی ”جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے براہ راست جادوگروں سے خطاب کیا تو وہ مرعوب ہوگئے۔ نبوت کا رعب بھی تھا اور آپ علیہ السلام کی شخصیت کی خداداد وجاہت بھی ‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد قبل ازیں آیت 39 میں وارد ہوچکا ہے : وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ ج کہ میں نے اپنی طرف سے تم پر اپنی خاص محبت ڈال دی تھی۔ چناچہ جادوگر یہ سب کچھ برداشت نہ کرسکے۔ آپ علیہ السلام کی تقریر سنتے ہی مقابلے کا معاملہ ان میں متنازعہ ہوگیا۔ چناچہ وہ ایک دوسرے کو قائل کرنے کے لیے باہم سرگوشیوں میں مصروف ہوگئے۔ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تقریر سے فرعون کے درباریوں میں باہم اختلاف پیدا ہوگیا اور وہ آپس میں چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ مقابلہ نہ کرایا جائے۔ لیکن بالآخر وہ اتفاقِ رائے سے اس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے :
آیت 63 قَالُوْٓا اِنْ ہٰذٰٹنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِہِمَا وَیَذْہَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی ”مُثْلیٰ مؤنث ہے اَمْثَل کا ‘ جس کے معنی ہیں سب سے زیادہ مثالی۔ حق کے مقابلے میں باطل ذہنیت کا باہمی اتفاق ملاحظہ ہو کہ جو دلیل اس وقت فرعون اور اس کے درباریوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف سوجھی تھی آج بھی شیطانی قوتیں مسلمانوں کے خلاف اسی دلیل کے تحت پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ ابلیسی سوچ کے نقیبوں نے آج بھی پوری دنیا میں شور برپا کر رکھا ہے کہ Muslim Fundamentalism ہماری مثالی تہذیب و ثقافت کے لیے خطرہ ہے۔ ہم نے بڑی محنت سے مختلف اداروں کو فروغ دیا ہے ‘ دنیا میں انسانی حقوق کا تصور متعارف کرایا ہے ‘ جان جوکھوں میں ڈال کر مرد و زن کی مساوات اور عورتوں کی آزادی کی جنگ لڑی ہے۔ مگر مسلمان بنیاد پرست ہماری تہذیب و ثقافت کی ان مثالی achievements کو ملیا میٹ کردینا چاہتے ہیں۔
آیت 64 فَاَجْمِعُوْا کَیْدَکُمْ ثُمَّ اءْتُوْا صَفًّا ج ”تم لوگ اپنے تمام دستیاب مادی و فنی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوجاؤ۔