حضرت موسیٰ کی اس بات کی تکمیل کے لئے اب اللہ کا یہ فرمان آجاتا ہے :
منھا خلقنکم ……وابی (65)
اس زمین سے تمہیں پیدا کیا ہے جو تمہارے لئے گہوارہ ہے۔ جس میں تمہارے لئے راستے بنائے۔ جس پر ہم نے بارشیں برسائیں اور مختلف قسم کے نباتات پیدا کئے ، کھانے کے لئے اور چارے کے طور پر۔ اس زمین سے تم پیدا کئے گئے ہو ، اس میں تم دفنائے جائو گے اور سای سے ہم تمہیں دوبارہ نکال کر زندہ کردیں گے۔
انسان اس زمین کے مادے سے تخلیق کیا گیا ہے۔ زمین کے اکثر عناصر اس کے جسم میں موجود ہیں۔ اس کی فصل اور پیداوار اس کی خوراک ہے۔ اس کا پانی وہ پیتا ہے ، اسی کی ہوا میں سانس لیتا ہے۔ یہ اسی کا بیٹا ہے اور یہ اس کے لئے گہوارہ ہے اور جب یہ اس میں دفن کیا جاتا ہے تو اس کا جسم گل سڑ کے خاک ہوجاتا ہے ، گس بن کر ہوا میں شامل ہوجاتا ہے ، اس زمین سے اسے پھر نکال کر حیات جدید دی جائے گی جیسا کہ پہلے اسے زندگی دی گئی۔
فرعون کے ساتھ گفتگو میں زمین کا تذکرہ بہت ہی مناسب ہے ، یہ بہت ہی متکبر تھا ، یہ اپنے آپ کو رب مخلوق سمجھتا تھا ، حالانکہ وہ اس زمین کا بچہ تھا اور اس زمین میں اسے جانا تھا وہ اس زمین میں تخلیق کردہ اشیاء میں سے ایک شے تھا اور زین ار اس کی ہر چیز کا ایک فرض منصبی مقرر ہے لیکن
ولقد ارینہ ایتنا کلھا فکذب وابی (0 : 65) ” ہم نے فرعون کو اپنی سب نشانیاں دکھائیں مگر وہ جھٹالئے چلا گیا۔ “ اس کے ماحول سے حضرت موسیٰ نے اسے جو آیات دکھائیں ان کی بھی اس نے تکذیب کی۔ اس کو عصا اور ید بیضا کی نشانیاں بھی دکھائیں ، جو آیات تکوینی کا ایک حصہ ہی ہیں مگر اس نے انکار ہی کیا ، اور آیات تکوینی اور آیات خارق عادت میں قرآن کے نزدیک کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ، اس لئے قرآن نے یہاں دونوں کا ذکر مشترکہ طور پر کردیا۔ قرآن نے صرف اس بات کا ذکر کیا کہ فرعون نے ان تمام آیات و معجزات کو رد کردیا جادو کہہ کر۔