سورہ طٰہٰ: آیت 14 - إنني أنا الله لا إله... - اردو

آیت 14 کی تفسیر, سورہ طٰہٰ

إِنَّنِىٓ أَنَا ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدْنِى وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ لِذِكْرِىٓ

اردو ترجمہ

میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innanee ana Allahu la ilaha illa ana faoAAbudnee waaqimi alssalata lithikree

آیت 14 کی تفسیر

اننی انا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فتردی (02 : 61) (02 : 41۔ 61) ” ‘۔

یہ کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اسلامی نظریہ حیات کا بنیادی عنصر ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود پکار کر موسیٰ (علیہ السلام) کو جو پیغام دیا ‘ اس میں اس کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ ہمہ جہت تاکید۔

اننی انا اللہ میں لفظ ان تاکیدی ‘ پھر انا تاکیدی ‘ مبدا وخبر کی حصر تاکیدی ‘ پھر نفی و اثبات کی تاکیدی حصر

لا الہ الا انا (41) جس میں اللہ کی الوہیت کا اثبات اور تمام غیر اللہ کی الوہیت کی نفی ثابت کی گئی ہے۔ پھر الوہیت کے ثبوت کے بعد الہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور بندگی کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں صرف اللہ کی طرف توجہ کی جائے لیکن عبادات میں سے نماز کو یہاں خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔

و اق ، الصلوۃ لذکری (41) ” میری یاد کے لئے نماز قائم کر “۔ نماز دراصل عبادت کی ایک مکمل صورت ہے اور ذکر الہٰی کا بہترین ذریعہ ہے۔ کیونکہ اس کا فنکشن ہی اللہ کی یاد کو تازہ رکھنا ہے۔ اس میں انسان یاد الہٰی کے سوا تمام باتوں سے کٹ جاتا ہے۔ صرف یاد الٰہی پیش نظر رہ جاتی ہے اور کچھ دیر کے لئے انسان اللہ سے مربوط ہوجاتا ہے۔

رہی قیامت تو وہ پوری زندگی کی جوابدہی کا ایک عادلانہ وقت حساب و محاسبہ ہے۔ لوگ آخرت کی طرف جب متوجہ ہوتے ہیں تو وہ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اس کا خیال رکھتے ہیں اور زندگی کی پر پیچ راہوں میں ‘ ٹھوکروں اور پھسلن سے بچتے ہیں۔ قیام قیامت کی قرآن کریم میں باربار تاکید کی گئی ہے۔ بار بار کہا گیا ہے۔

ان الساعتہ اتیتہ (51) ” قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے “۔ اللہ نے اس کے قیام کے وقت اور تاریخ کو مخفی رکھا ہے۔ لہٰذا اس کے قیام کے بارے میں ہمارا علم اسی قدر ہے جس قدر اللہ نے ہمیں دیا ہے۔ اللہ نے اس کے بارے وہی کچھ علم دیا ہے جو اس کی حکمت کے مطابق ہے۔ بعض چیزوں سے لا علمی انسانی زندگی کو مناسب طریقے سے چلانے کے لئی بہت ہی اہم ہے لہٰذا اللہ نے بعض چیزوں کو جان بوجھ کر انسانوں سے مجمول رکھا تاکہ وہ حصول علم کے لئے تگ و دو کرتے رہیں۔ اگر تمام امور کے بارے میں اللہ انسان کو قبل از وقت علم دے دیتا اور انسان ایسے ہی ہوتے جس طرح کہ ان کی فطرت اس وقت ہے ‘ تو ان کی زندگی کی گاڑی رک جاتی اور زندگی جمود کا شکار ہوجاتی کیونکہ انسان کی جدوجہد ایک مجمول اور نامعلوم مستقبل کے لئے ہے۔ وہ احتیاط کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں ‘ امید رکھتے ہیں ‘ تجربے کرتے ہیں ‘ نئی نئی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اپنی خفیہ قوتوں کو کام میں لاتے ہیں۔ ان کے اردگرد کائنات میں پھیلی ہوئی قوتوں کے بارے میں وہ ہر وقت کھوج لگاتے ہیں اور اپنے نفسوں اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات میں وہ نشانات الہیہ کو دریافت کرتے ہیں۔ وہ زمین میں اللہ کی مشعیت کے مطابق نئی نئی ایجادات کرتے ہیں اور ان کے دل قیام قیامت کے ساتھ اٹکے ہوتے ہیں ‘ جس کے قیام کا وقت انہیں معلوم نہیں ہے۔ یہ تصور ان کو بےراہ روی سے بچاتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ قیامت کب آئے گی ‘ اس لیے ہر لمحہ وہ اس کے قیام کی توقع کرتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں۔ یہ تو ان لوگوں کی بات ہے جو صحیح الفطرت ہوں ‘ ان کی فطرت مستقیم ہو ‘ رہے وہ لوگ جن کی فطرت میں بگاڑ ہو ‘ جو خواہشات نفس کے بندے ہوں ‘ تو وہ غافل اور جاہل ہوجاتے ہیں ‘ ایسے لوگ زندگی کی پر پیچ راہوں میں کسی گڑھے میں گر جاتے ہیں اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔

فلا یصدنک عنھا۔۔۔۔۔۔ ہوہ فتردی ( 02 : 61) ” پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہو تجھ کر اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے “۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی خواہشات نفس کے بندے ہوتے ہیں ‘ وہ قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ ایک صحیح الفطرت انسان تو یہی سوچتا ہے کہ اس دنیاوی زندگی میں انسان کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس میں مکمل عدل کا قیام ممکن نہیں۔ اس لئے اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ضروری ہے جس میں مطلوبہ کمال حاصل کیا جاسکے۔ جس میں ہر انسان کو اس کے اعمال کے مطابق پوری پوری جزاء و سزا دی جاسکے۔

یہ تو تھی اس آسمانی پکار کی پہلی اہم بات ‘ جس کی تائید میں موسیٰ (علیہ السلام) کے اردگرد پھیلی ہوئی پوری کائنات ان کے ہمرکاب تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عقیدہ توحید کی بنیادیں سکھائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اچانک جس صورت حال سے دو چار ہونا پڑا ‘ ظاہر ہے کہ وہ اس موقع پر اپنی ذات اور وادی طوی میں آنے کی غرض وغایت اور اپنے پسماندگان سب کو وہ بھول گئے ہوں گے۔ وہ ہمہ تن اس نئی صورت حال کی طرف ہی متوجہ ہوں گے۔ گھبراہٹ اور خوف میں مزید کچھ سننے کے منتظر ہوں گے۔ وہ اس سوچ ہی میں گم تھے اور ان کے جسم کا ذرا ذرہ عالم بالا کی طرف متوجہ تھا کہ اچانک ان پر ایک سوال ہوتا ہے۔ ایک بہت آسان وال جس کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

آیت 14 اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا ”یہ آیت اس لحاظ سے ممتاز و منفرد ہے کہ اللہ کی انا نیت انا نیت کبریٰ کے اظہار کے لیے جو الفاظ یہاں اس مقام پر استعمال ہوئے ہیں ‘ میرے علم کی حد تک قرآن میں کسی اور مقام پر نہیں ہوئے۔ علامہ اقبال نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ایک تو ہماری انائے صغیر The finite ego ہے اور اس کے مقابلے میں اللہ کی انائے کبیر The Infinite Ego ہے۔ اس انائے کبیر The Great I am کا اس آیت میں بھرپور انداز میں اظہار ہوا ہے۔

آیت 14 - سورہ طٰہٰ: (إنني أنا الله لا إله إلا أنا فاعبدني وأقم الصلاة لذكري...) - اردو