اس صفحہ میں سورہ Taa-Haa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ طه کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
وانا اخترتک (31) ” اور میں نے تجھ کو چن لیا “۔ ما شاء اللہ کیا اکرام ہے ! اللہ بذات خود انتخاب فرما رہے ہیں۔ اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو ‘ انسانوں کے ہزارہا گروہوں میں سے صرف ایک فرد کو ‘ یہ فرد اللہ کے پیدا کردہ ستاروں میں سے ایک ستارے پر رہتا ہے ‘ جو بہ نسبت پوری کائنات کے ایک ذرہ ہے۔ وہ کائنات جو صرف کن کے حکم کے نتیجے میں وجود میں آگئی لیکن یہ اس ذات باری کی ذرہ نوازی ہی تو ہے۔
اس اعزاز اور انتخاب کے بعد اور جوتے اتار کر بار گاہ رب العزت میں حاضری اور اخذ وحی کی تیاری و استعداد کے بعد حکم آتا ہے کہ اب سنو ‘ باران رحمت کا نزول ہورہا ہے۔
فاستمع لما یوحی (31) ” سن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے “۔ جو پیغام دیا جارہا ہے ‘ وہ تین مربوط امور پر مشتمل ہے۔ عقیدہ توحید ‘ توجہ سے اللہ کی بندگی اور آخرت کی جوابدہی کا احساس اور اس کی تیاری۔ یہ نکات تمام رسالتوں کا نصب العین رہے ہیں جو ایک ہی نوعیت رکھتی ہیں۔
اننی انا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فتردی (02 : 61) (02 : 41۔ 61) ” ‘۔
یہ کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اسلامی نظریہ حیات کا بنیادی عنصر ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود پکار کر موسیٰ (علیہ السلام) کو جو پیغام دیا ‘ اس میں اس کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ ہمہ جہت تاکید۔
اننی انا اللہ میں لفظ ان تاکیدی ‘ پھر انا تاکیدی ‘ مبدا وخبر کی حصر تاکیدی ‘ پھر نفی و اثبات کی تاکیدی حصر
لا الہ الا انا (41) جس میں اللہ کی الوہیت کا اثبات اور تمام غیر اللہ کی الوہیت کی نفی ثابت کی گئی ہے۔ پھر الوہیت کے ثبوت کے بعد الہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور بندگی کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں صرف اللہ کی طرف توجہ کی جائے لیکن عبادات میں سے نماز کو یہاں خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔
و اق ، الصلوۃ لذکری (41) ” میری یاد کے لئے نماز قائم کر “۔ نماز دراصل عبادت کی ایک مکمل صورت ہے اور ذکر الہٰی کا بہترین ذریعہ ہے۔ کیونکہ اس کا فنکشن ہی اللہ کی یاد کو تازہ رکھنا ہے۔ اس میں انسان یاد الہٰی کے سوا تمام باتوں سے کٹ جاتا ہے۔ صرف یاد الٰہی پیش نظر رہ جاتی ہے اور کچھ دیر کے لئے انسان اللہ سے مربوط ہوجاتا ہے۔
رہی قیامت تو وہ پوری زندگی کی جوابدہی کا ایک عادلانہ وقت حساب و محاسبہ ہے۔ لوگ آخرت کی طرف جب متوجہ ہوتے ہیں تو وہ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اس کا خیال رکھتے ہیں اور زندگی کی پر پیچ راہوں میں ‘ ٹھوکروں اور پھسلن سے بچتے ہیں۔ قیام قیامت کی قرآن کریم میں باربار تاکید کی گئی ہے۔ بار بار کہا گیا ہے۔
ان الساعتہ اتیتہ (51) ” قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے “۔ اللہ نے اس کے قیام کے وقت اور تاریخ کو مخفی رکھا ہے۔ لہٰذا اس کے قیام کے بارے میں ہمارا علم اسی قدر ہے جس قدر اللہ نے ہمیں دیا ہے۔ اللہ نے اس کے بارے وہی کچھ علم دیا ہے جو اس کی حکمت کے مطابق ہے۔ بعض چیزوں سے لا علمی انسانی زندگی کو مناسب طریقے سے چلانے کے لئی بہت ہی اہم ہے لہٰذا اللہ نے بعض چیزوں کو جان بوجھ کر انسانوں سے مجمول رکھا تاکہ وہ حصول علم کے لئے تگ و دو کرتے رہیں۔ اگر تمام امور کے بارے میں اللہ انسان کو قبل از وقت علم دے دیتا اور انسان ایسے ہی ہوتے جس طرح کہ ان کی فطرت اس وقت ہے ‘ تو ان کی زندگی کی گاڑی رک جاتی اور زندگی جمود کا شکار ہوجاتی کیونکہ انسان کی جدوجہد ایک مجمول اور نامعلوم مستقبل کے لئے ہے۔ وہ احتیاط کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں ‘ امید رکھتے ہیں ‘ تجربے کرتے ہیں ‘ نئی نئی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اپنی خفیہ قوتوں کو کام میں لاتے ہیں۔ ان کے اردگرد کائنات میں پھیلی ہوئی قوتوں کے بارے میں وہ ہر وقت کھوج لگاتے ہیں اور اپنے نفسوں اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات میں وہ نشانات الہیہ کو دریافت کرتے ہیں۔ وہ زمین میں اللہ کی مشعیت کے مطابق نئی نئی ایجادات کرتے ہیں اور ان کے دل قیام قیامت کے ساتھ اٹکے ہوتے ہیں ‘ جس کے قیام کا وقت انہیں معلوم نہیں ہے۔ یہ تصور ان کو بےراہ روی سے بچاتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ قیامت کب آئے گی ‘ اس لیے ہر لمحہ وہ اس کے قیام کی توقع کرتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں۔ یہ تو ان لوگوں کی بات ہے جو صحیح الفطرت ہوں ‘ ان کی فطرت مستقیم ہو ‘ رہے وہ لوگ جن کی فطرت میں بگاڑ ہو ‘ جو خواہشات نفس کے بندے ہوں ‘ تو وہ غافل اور جاہل ہوجاتے ہیں ‘ ایسے لوگ زندگی کی پر پیچ راہوں میں کسی گڑھے میں گر جاتے ہیں اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔
فلا یصدنک عنھا۔۔۔۔۔۔ ہوہ فتردی ( 02 : 61) ” پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہو تجھ کر اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے “۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی خواہشات نفس کے بندے ہوتے ہیں ‘ وہ قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ ایک صحیح الفطرت انسان تو یہی سوچتا ہے کہ اس دنیاوی زندگی میں انسان کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس میں مکمل عدل کا قیام ممکن نہیں۔ اس لئے اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ضروری ہے جس میں مطلوبہ کمال حاصل کیا جاسکے۔ جس میں ہر انسان کو اس کے اعمال کے مطابق پوری پوری جزاء و سزا دی جاسکے۔
یہ تو تھی اس آسمانی پکار کی پہلی اہم بات ‘ جس کی تائید میں موسیٰ (علیہ السلام) کے اردگرد پھیلی ہوئی پوری کائنات ان کے ہمرکاب تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عقیدہ توحید کی بنیادیں سکھائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اچانک جس صورت حال سے دو چار ہونا پڑا ‘ ظاہر ہے کہ وہ اس موقع پر اپنی ذات اور وادی طوی میں آنے کی غرض وغایت اور اپنے پسماندگان سب کو وہ بھول گئے ہوں گے۔ وہ ہمہ تن اس نئی صورت حال کی طرف ہی متوجہ ہوں گے۔ گھبراہٹ اور خوف میں مزید کچھ سننے کے منتظر ہوں گے۔ وہ اس سوچ ہی میں گم تھے اور ان کے جسم کا ذرا ذرہ عالم بالا کی طرف متوجہ تھا کہ اچانک ان پر ایک سوال ہوتا ہے۔ ایک بہت آسان وال جس کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
وما تلک۔۔۔۔۔ مارب اخری (71۔ 81) ’
سوال ہوتا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں کیا ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو اپنے حال میں نہ تھے۔ دیکھ کر بتایا کہ عصا ہے۔ سوال میں یہ نہ تھا کہ عصا کے فوائد کیا ہیں ؟ صرف یہ تھا کہ ہاتھ میں کیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سمجھا کہ جو ہاتھ میں ہے ‘ اس کی ماہیت تو نہیں پوچھی جاتی ‘ ماہیت تو واضح ہے ‘ بلکہ عصا کے فوائد پوچھے جارہے ہیں ‘ اس لیے انہوں نے فوائد گنوا دیئے ‘ جو فوائد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جانتے تھے ‘ وہ بتا دیئے کہ وہ اس کا سہارا لیتے ہیں ‘ اس کے ذریعہ درختوں کے پتے جھاڑتے ہیں تا کہ بکریاں کھا لیں۔ آپ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بکریاں چراتے تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ واپسی کے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بکریوں کا ایک گلہ بھی تھا ‘ جو ان کے حصے میں آئی تھیں ‘ الایہ کہ یہ عصا اس قسم کے دوسرے مقاصد میں بھی استعمال ہوتا ہے ‘ ان کا ذکر انہوں نے اجمالا کردیا کہ اس میں اور بھی فوائد ہیں۔
لیکن ذرا آگے دیکھو کہ قدرت خداوندی اس عصا سے وہ کچھ کام لینا چاہتی ہے جس کا کبھی موسیٰ (علیہ السلام) نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ یہ تجربہ ان کو اس لیے کرایا جاتا ہے کہ وہ فرعون کے دربار میں بےدھڑک ہو کر جائیں۔
قال القھایموسی۔۔۔۔۔ سیرتھا الاولیٰ (91 تا 12) ”“۔ ۔
یہ خارق عادت معجزہ ظہور پذیر ہوگیا ‘ یہ معجزہ اس کائنات میں ہر لمحہ ہر طرف ظاہر ہوتا رہتا ہے ‘ لیکن لوگوں کی سوچ اس طرف نہیں جاتی۔ یعنی ” زندگی “ کا معجزہ ۔ ایک عصا سانپ بن گئی۔ اس دنیا میں ہر سیکنڈ میں عصا کی طرح اربوں مردہ ذرے زندگی پاتے ہیں اور زندہ خلیوں کی شکل اختیار کرتے ہیں لیکن انسان انہین اس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح وہ ایک بڑی عصا کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اس لیے کہ انسان اپنے حواس کا بندہ اور اپنے تجربات کا قیدی ہے۔ وہ اپنے تصورات میں حواس کے دائرے سے آگے جانے کی تکلیف نہیں کرتا۔ ایک عصا کا زندہ ہو کر سانپ بن جانا اور پھر چلنا انسانی احساس کو شدت سے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ‘ لیکن وہ خلیے جو زندگی کے پہلے معجزے کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور وہ مظاہر جوہر لمحہ اربوں ذرات کے زندہ خلیوں کی شکل اختیار کرنے میں پیش آتے ہیں۔ یہ خفیہ یا باریک ہیں۔ اور انسان ان کی طرف متفت نہیں ہوتے۔ پھر جو لوگ ان کا ملاحظہ بھی کرتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے وہ ان مناظر کے اس زدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر وہ ان سے متاثر ہی نہیں ہوتے اور غفلت کے ساتھ ان مناظر پر سے گزر جاتے ہیں۔
یہ معجزہ جب رہ نما ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) ششدر رہ گئے ‘ بلکہ ڈر گئے اور اللہ کو کہنا پڑاخذھا ولا۔۔۔۔ سیرتھا الاولیٰ (02 : 12) ” پکڑلے اس کو اور ڈرو نہیں ‘ ہم اسے پھر ویسا ہی کریں گے “۔ یعنی عصا۔۔۔ یہاں قرآن مجید نے ایک بات کا ذکر نہیں کیا جو دوسری جگہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھاگ کھڑے ہوئے اور پیچھے نہ دیکھا۔ یہاں صرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ نہ ڈرو ‘ یہ اس لیے کہ اس سورة کی فضا اور مناظر میں امن ‘ اطمینان ‘ سکون اور وقار چھایا ہوا ہے لہٰذا اس میں یہ مناسب نہیں ہے کہ اسٹیج پر جزع و فزع دکھایا جائے اور کوئی بھاگ کھڑا ہو۔
حضرت موسیٰ مطمئن ہوگئے ‘ عصا کو لیا توسانپ پھر عصا تھا۔ یہ معجزہ اب دوسری شکل میں ظاہر ہوگیا۔ ایک زندہ چیز کو مردہ بنایا گیا۔ اچانک زندہ رینگنے ‘ والی چیز مردہ اور عصا کی شکل میں آگئی۔ جس طرح کہ پہلے معجزے سے قبل تھی۔ ایک بار پھر موسیٰ کو عالم بالا سے حکم ملتا ہے۔
واضمم یدک الیٰ ۔۔۔۔۔ ایتہ اخری (22) ”
موسیٰ نے ہاتھ اپنی بغلوں میں دبائے۔ یہاں قرآن کریم نے ہاتھ اور بغل کے لئے پر کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ پروں میں خوبصورتی اور حرکت ہے ‘ ہلکا پن ہے اور یہ مقام ایسا ہے کہ اس میں انسانیت زمین کی بوجھل فضا سے ہلکی ہو کر عالم بالا کی طرف پرواز کر رہی ہے اور یہ ہاتھ سفید ہر کر نکلے ‘ مرض کی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ معجزانہ سفید بغیر بیماری کے سفید ہوگا۔ اور عصا کے بعد یہ دوسری نشانی ہوگی آپ کی نبوت کی سچائی پر۔
لنریک من ایتنا۔۔۔۔ انہ طغی (32۔ 42) ” اس لئے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں۔ اب تو فرعون کے پاس جا ‘ وہ سرکش ہوگیا ہے “۔
یہ نشانیاں اور معجزات جس کا حسن اظہار ہو رہا ہے اے موسیٰ (علیہ السلام) پہلے آپ کو دکھائی جارہی ہیں تاکہ تم مطمئن ہو کر اور ان سے مسلح ہو کر فرعون کے پاس جائو یہاں تک کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم نہ تھا کہ وہ اس عظیم مہم اور اس عظیم منصب کے لئے چن لئے گئے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ فرعون کون ہے کیونکہ وہ تو پہلے ہی اس کے گھر میں تھے ‘ اس کی سرکشی اور سخت داروگیر سے وہ وقف تھے۔ وہ بنی اسرائیل پر جو مظالم ڈھا رہا تھا اس سے بھی واقف تھے ‘ وہ اس وقت چونکہ بارگاہ رب العزت میں پہنچے ہوئے ہیں ‘ سمجھتے ہیں کہ ان کو بڑا اعزاز مل چکا ہے اور وہ ایک بہت ہی معزز بندے ہیں لہٰذا ان کے دل میں یہ بات آگئی کہ یہ موزوں وقت ہے کہ وہ اس مہم کے لیے ضروری سازو سامان اسی وقت طلب کرلیں تا کہ وہ پوری طرح لیس ہو کر فرعون کے پاس جائیں۔
قال رب اشرح لی۔۔۔۔ انک کنت بنا بصیرا (52 تا 53) ”
اس ذریں موقعہ پر حضرت موسیٰ نے یہ درخواست کی کہ اے اللہ ‘ میرے سینے کو اس کام کے لئے کھول دے۔ جب انسان کو شرح صدر حاصل ہوجائے تو مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔ اس میں انسان کو لذت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے انسان کی زندگی ہل کہ ہوجاتی ہے۔ اس پر کوئی بوجھ نہیں رہتا اور انسان سبک رفتاری سے زندگی بسر کرتا ہے۔
انہوں نے یہ درخواست بھی کی کہ اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات کو اچھی طرح سمجھ جائیں۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ کی زبان میں لکنت تھی ‘ راجح بات یہ ہے کہ ان کا سوال اس لکنت کو دور کرنے کے بارے میں تھا ، دوسری سورة میں اس کے بارے میں یوں آیا ہے۔
واخی ہارون ھوافصح من لسانا ” اور میرے بھائی ہارون ” مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں “۔ اس سے قبل وہ ایک عمومی دعا کرچکے تھے کہ اللہ مجھے شرح صدر عطا کر اور میرے کام کو میرے لئے آسان کر دے۔ اس عمومی دعا اور مطالبہ کے بعد یہ خصوصی درخواست تھی تاکہ اس کام کے سلسلے میں آپ کو تمام سہولتیں حاصل ہوجائیں۔ پھر آپ نے یہ درخواست کی کہ میرے خاندان میں سے میرا ایک معاون اور مدد گار بھی مجھے عطا کر دے ہارون میرے بھائی ‘ وہ مجھ سے زیادہ فصیح النسان ‘ مضبوط دل والے اور مضبوط اعصاب کے مالک ہیں ‘ جبکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) زیادہ جذباتی ‘ تیز مزاج اور جلد متاثر ہونے والے تھے۔ چناچہ انہوں نے یہ درخواست کی کہ ان کو یہ معاون دے دیں تاکہ ان کی قوت اور فعالیت میں اضافہ ہو ‘ وہ ان کے لئے قوت کا باعث ہوں ‘ مشیر ہوں کیونکہ یہ مہم بہت ہی عظیم ہے۔
یہ مہم جسکے لئے وہ بھیجے جا رہے ہیں وہ ذکر کثیر اور تسبیح و ثنا کثیر کی محتاج ہے ‘ اس میں اللہ کے ساتھ مضبوط رابطہ ضروری ہے۔ اس لئے انہوں نے شرح صدرنیسیر امر ‘ زبان کی گرہ کھولنے ‘ معاون اور بھائی کو وزیر مقرر کرنے کے مطالبے کیے۔ یہ سب درخواستیں ایسی نہ تھیں کہ وہ براہ راست اس مہم کو آگے بڑھائیں۔ بلکہ یہ چیزیں اس مہم کی تیاری کے مرحلے کے لئے ضروری تھیں۔ یہ چیزیں انہیں اور ان کے بھائی کو اس کام کے لئے تیار کر رہی تھیں۔ تسبیح کثیر ‘ ذکر کثیر ‘ علم کثیر ‘ اور زبان کی صفائی اور اللہ سے علوم کا اخذ ‘ یہ سب تیاری کے مراحل ہیں۔
انک کنت بنا بصیرا (02 : 53) ” تو ہمیشہ ہمارے حال پر نگران ہے “۔ آپ کو ہمارا حال اچھی طرح معلوم ہے ہم ضعیف و قصور کھتے ہیں اور آپ کو ہماری ضروریات کا اچھی طرح علم ہے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت ہی طویل سوال کیا اور اپنی ضروریات بتائیں۔ اپنی کمزوری کا اظہار کیا ‘ مدد ‘ سہولیات اور مسلسل رابطے کی ضرورت کا ذکر کیا۔ رب تعالیٰ تو سنتا ہے اور جانتا ہے ۔ آپ کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) ضعیف ہیں۔ مانگتے ہیں اور بات کرتے جاتے ہیں۔ تو رب ذوالجلال اپنے مہمان کو شرمندہ نہیں فرماتے ‘ کوئی سوال رد نہیں کرتے ‘ منظوری میں دیر بھی نہیں کرتے۔
قال قد اوتیت سولک یمٰوسیٰ (63) ” فرمایا “ دیا گیا جو تو نے مانگا اے موسیٰ (علیہ السلام) ! “۔ ایک ہی فقرہ میں تمام سوالات منظور ‘ ایک ہی اجمالی آرڈر کردیا گیا۔
تفصیلات دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ وعدہ بھی نہیں بلکہ فائنل منظوری بلکہ دستی تعمیل۔ جو مانگا وہی دے دیا گیا۔ نہ دیر اور نہ بار بار کا مطالبہ۔ درخواست کی منظوری کے ساتھ ساتھ لطف و کرم کا اظہار بھی ہے ‘ تعظیم و تکریم بھی ہے ‘ پھر محبت کا اظہار یوں نام لے کر (اے موسیٰ ) اس سے بڑھ کر تکریم اور کیس ہو سکتی ہے۔ کہ پوری کائنات کی مجلس میں اللہ ایک بندے کا نام لے کر اس کے مطالبے منظور کرے۔
یہاں تک آپ نے دیکھا کہ اللہ کے فضل وکرم کی تکمیل کس قدر ہوچکی ہے ‘ محبت اور بےتکلفی کی باتیں ہو چکیں۔ طویل عر صے تک بھی قائم رہی ‘ مناجات ہوتی رہی ‘ تمام درخواستیں منظور اور فوراً تعمیل ہوگئی ‘ لیکن ان کے فضل پر کوئی داروغہ نہیں ہے۔ اور اللہ کی رحمتوں پر کوئی کنٹرول کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ اس بندے پر مزید فضل کرنا چاہتے ہیں ‘ اپنی رضا مندی کا یہ فیض ان پر طویل تر کرتے جاتے ہیں۔ اس دربار میں ان کی حاضری کا وقت مزید بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ اب موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی سابقہ مہربانیاں گنوا کر ان کے ساتھ مزید ہمکلام ہونا چاہتے ہیں کہ ان کو مزید اطمینان ہو ‘ وہ مزید بےتکلف ہوجائیں ‘ اللہ اپنی رحمتوں اور قدیم مہربانیوں کا ذکر شروع کردیتے ہیں۔ اس دربار علیہ میں ان کے لقاء کے وقت میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے وہ ان کے لئے سرمایہ زندگی ہے اور باعث افتخار ہے۔ وہ ایک نہایت ہی روشن اور مقدس مقام پر کھڑے ہیں سنئے :
و لقد مننا علیک۔۔۔۔۔ واصطنعتک لنفسی (73 تا 14) ”
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک ایسے بادشاہ کے دربار میں پیغام حق پہنچانے کے لیے جارہے ہیں جو اس وقت اس کرئہ ارض پر نہایت ہی سرکش ‘ ظالم اور داداگیر بادشاہ تھا ، وہ کفر و ایمان کے معف کہ میں داخل ہو رہے تھے ‘ وہ پہلی بار فرعون کے دربار میں جارہے تھے۔ وہاں ان کے لیے مسائل ‘ واقعات اور مشکلات کے پہاڑ کھڑے تھے۔ پھر ان کی قوم کی حالت یہ تھی کہ ایک طویل عرصہ ذلت اور غلامی کی زندگی گزارتے گزارتے وہ اس کی خ اگر ہوگئے تھے۔ ان کی فطرت ہی بدل گئی موسیٰ (علیہ السلام) اگر اپنی مہم میں کامیاب ہوئے بھی تو ان کی قوم اس آزادی کے لئے نہ موزوں ہے نہ تیار۔ ان کے رب ان کو بتاتے ہیں کہ تمہیں تیاری کے بعد بھیجا جا رہا ہے اور وہ کسی بھی رسول کو جب بھیجتے ہیں کہ اس کے ارسال کے لیے اسٹیج تیار ہوتا ہے۔ یہ کہ اے موسیٰ تمہاری تربیت بھی ہم ایک عرصہ سے اپنی نگرانی میں کر رہے ہیں۔ جب تم دودھ پیتے بچے تھے تب سے ہم نے تمہیں تربیت دینا شروع کی ہے۔ اس ضیعف و ناتوانی کی حالت میں اللہ کا فضل تمہارے شامل حال رہا ہے ۔ تم فرعون کے ہاتھ میں تھے۔ تمہارے پاس کوئی قوت نہ تھی لیکن یہ اللہ ہہی کی حکمت تھی جس نے فرعون کی دست درازیوں سے تمہیں بچایا۔ یہ دست قدرت تھا جو تمہاری مدد کر رہا تھا۔ اللہ کی نظروں میں تم تھے۔ قدم قدم پر تمہاری نگرانی اور نگہبانی ہو رہی تھی ۔ لہٰذا آج بھی فرعون تمہارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا ، آج تو تم جوان ہو۔ رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہوگیا ہے اور تم اس کی بارگاہ میں ہو۔ اور میں نے تمہیں خود اپنے مشن کے لئے پیدا کیا ہے اور تربیت دی ہے اور چنا ہے۔
ولقد مننا علیک مرۃ اخری (02 : 73) ” ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا “۔ تم پر تو زمانہ قدیم سے مسلسل مہربانیاں ہو رہم ہیں۔ ایک عرصے سے اللہ کی مہربانی اور فضل تمہارے شامل حال ہے اور اس مشن کی سپردگی کے بعد تو یہ مسلسل جاری رہے گا۔
دیکھو ‘ تم پر یہ احسان کیا کم تھا کہ فرعون بچوں کو قتل کر رہا تھا اور ہم نے تیری ماں کو یہ الہام کیا کہ
ان اقذفیہ فی ۔۔۔۔۔ الیم بالساحل (02 : 53) ” ہم نے تیری ماں کو اشارہ دیا ‘ ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے کہ ” اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے ‘ دریا اسے ساحل پر پھینک گا “۔ یہ ایسے افعال ہیں جن میں سختی پائی جاتی ہے ’‘ بچے کو تابوت میں گرانا ‘ تابوت کو نذر سمندر کرنا ‘ سمندر کی طرف سے اسے ساحل پر پھینک دینا اور پھر کیا ؟ یہ تابوت اب کہاں جائے گا ‘ اس میں بچہ پھینکا گیا ہے ‘ تابوت سمندر کی لہروں کے کرم پر ہے۔ لہریں اسے ساحل پر پھینک دیتی ہیں۔ کون اب اسے لے گا ؟
عدولی وعدولہ (02 : 93) ” اسے میرا دشمن اور اس بچے کا شمن اٹھا لے گا “۔
ان خطرات کے ہجوم میں اور ان صدمات کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس ضعیف ‘ ناتوان اور بےبس بچے کو جو تابوت میں قید ہے ‘ کیا پیش آتا ہے ؟ کون اسے بچاتا ہے۔