آیت نمبر 82 تا 83
اس نے اپنا منہاج کار بھی متعین کردیا ، وہ اللہ کی عزت کی قسم اٹھا کر اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ میں ان تمام انسانوں کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔ ہاں وہ صرف ان لوگون کو مستثنیٰ کرتا ہے جن پر اس کا بس نہیں چلتا۔ اس لیے نہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ وہ کچھ مہربانی کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس کے دام میں آنے والے نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ شیطان کی دست درازیوں سے محفوظ ہیں۔ ان کے اور شیطان کے درمیان کیا پردہ ہوتا ہے ؟ وہ یہ کہ بندہ اللہ کی بندگی اخلاص کے ساتھ کرے تو وہ شیطان کی دسترس سے دور ہوجاتا ہے۔ یہی طریق نجات ہے اور یہی زندگی کی مضبوط رسی ہے۔ اور یہ بھی اللہ کے ارادے اور تقدیر کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ کی مشیت کے دائرہ کے اندر ہلاکت یا نجات ملتی ہے۔ اس موقع پر اللہ نے بھی اپنے ارادے کا برملا اظہار کردیا اور اللہ نے بھی اپنے منہاج کا اعلان کردیا ۔
آیت 82 { قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ } ”اس نے کہا : پس تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو گمراہ کر کے رہوں گا۔“