سورہ سعد (38): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Saad کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ ص کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ سعد کے بارے میں معلومات

Surah Saad
سُورَةُ صٓ
صفحہ 457 (آیات 62 سے 83 تک)

وَقَالُوا۟ مَا لَنَا لَا نَرَىٰ رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُم مِّنَ ٱلْأَشْرَارِ أَتَّخَذْنَٰهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ ٱلْأَبْصَٰرُ إِنَّ ذَٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ ٱلنَّارِ قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ مُنذِرٌ ۖ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ رَبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ٱلْعَزِيزُ ٱلْغَفَّٰرُ قُلْ هُوَ نَبَؤٌا۟ عَظِيمٌ أَنتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ مَا كَانَ لِىَ مِنْ عِلْمٍۭ بِٱلْمَلَإِ ٱلْأَعْلَىٰٓ إِذْ يَخْتَصِمُونَ إِن يُوحَىٰٓ إِلَىَّ إِلَّآ أَنَّمَآ أَنَا۠ نَذِيرٌ مُّبِينٌ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّى خَٰلِقٌۢ بَشَرًا مِّن طِينٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُۥ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُوا۟ لَهُۥ سَٰجِدِينَ فَسَجَدَ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّآ إِبْلِيسَ ٱسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلْكَٰفِرِينَ قَالَ يَٰٓإِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَىَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ ٱلْعَالِينَ قَالَ أَنَا۠ خَيْرٌ مِّنْهُ ۖ خَلَقْتَنِى مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُۥ مِن طِينٍ قَالَ فَٱخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِىٓ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلدِّينِ قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِىٓ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ ٱلْمُنظَرِينَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْوَقْتِ ٱلْمَعْلُومِ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ ٱلْمُخْلَصِينَ
457

سورہ سعد کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ سعد کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور وہ آپس میں کہیں گے "کیا بات ہے، ہم اُن لوگوں کو کہیں نہیں دیکھتے جنہیں ہم دنیا میں برا سمجھتے تھے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo ma lana la nara rijalan kunna naAAudduhum mina alashrari

وقالوا۔۔۔ الابصار (38: 62 تا 63) ” وہ آپس میں کہیں گے ” کیا بات ہے ، ہم ان لوگوں کو کہیں نہیں دیکھتے جنہیں ہم دنیا میں برا سمجھتے تھے اور ہم نے یونہی ان کا مذاق بنالیا تھا ، یا وہ کہیں نظروں سے اوجھل ہیں ؟ “ یہ لوگ ان کے بارے میں جہنم میں اتہ پتہ دریافت کررہے ہیں حالانکہ وہ لوگ جنتوں کے مزوں میں ہیں۔ یہ منظر اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ اہل دوزخ میں یہ جھگڑے یونہی چلتے رہیں گے۔

اردو ترجمہ

ہم نے یونہی ان کا مذاق بنا لیا تھا، یا وہ کہیں نظروں سے اوجھل ہیں؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Attakhathnahum sikhriyyan am zaghat AAanhumu alabsaru

اردو ترجمہ

بے شک یہ بات سچی ہے، اہل دوزخ میں یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna thalika lahaqqun takhasumu ahli alnnari

ان ذلک لحق تخاصم اھل النار (38: 64) ” بیشک یہ بات سچی ہے کہ اہل دوزخ میں یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں “

ذرا دیکھئے کہ ان کا انجام اہل ایمان کے انجام سے کس قدر مختلف اور اپنے طور پر کس قدر بھیانک ہے۔ دنیا میں تو اہل جہنم متقین کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اور یہ سمجھتے تھے کہ اللہ نے ان پر جو کلام الہٰی نازل کیا ہے۔ یہ اس کے اہل ہی نہیں۔ اور یہی وہ نقشہ عذاب ہے جس کے لیے وہ بچوں کی شتابی مچا رہے تھے۔ اور کہتے تھے۔

وقالو۔۔۔ الحساب (38: 16) ” اے ہمارے رب ' ہمارا حصہ ہمیں یوم الحساب سے بھی پہلے دے دے “۔

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) اِن سے کہو، "میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں کوئی حقیقی معبود نہیں مگر اللہ، جو یکتا ہے، سب پر غالب

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innama ana munthirun wama min ilahin illa Allahu alwahidu alqahharu

درس نمبر 214 تشریح آیات

یہ اس سورت کا آخری سبق ہے اور یہ ان مسائل کو دہراتا ہے جو اس سورت کے اغاز میں دہرائے گئے تھے۔ مسئلہ توحید ، مسئلہ وحی الہٰی ، مسئلہ جزاء وسزا ، حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصے کو ثبوت وحی کے لیے پیش کیا جاتا ہے کیونکہ رسولوں کا بھیجنا اس وقت طے ہوگیا تھا جب اللہ تخلیق آدم کے بارے میں فرشتوں کو بتارہا تھا۔ نیز اسی دن یہ طے ہوگیا تھا کہ ہدایت وضلالت کی راہ اختیار کرنے کا حساب اللہ لے ھا اور جزاء وسزا ہوگی ۔ اس قصے میں یہ بھی بتایا گیا ہے۔ انسان کے ساتھ شیطان کو روزازل سے حسد اور کینہ ہے اس نے روزاول سے اپنے آپ کو انسانی سے افضل سمجھا۔ یوں معرکہ آدم وابلیس شروع ہوا اور یہ معرکہ ہمیشہ جاری ہے اور قیامت تک یہ جنگ سرد نہیں پڑسکتی۔ کوئی فریق ہتھیار نہ ڈالے گا۔ شیطان کا ہدف یہ ہے کہ وہ انسانوں کی بڑی تعداد کو گمراہ کردے تاکہ وہ ان کو جہنم رسید کردے اور یہ وہاں اس کے ساتھی ہوں۔ یہ شیطان کی طرف سے انسان سے انتقام ، ان کے باپ سے انتقام ہے ، اس نے آدم کو جنت سے نکالا لیکن تعجب ہے کہ ابن ادم اس کھلی دشمنی کے باوجود شیطان کی اطاعت قبول کرتا ہے۔

سورت کا اختتام وحی الہٰی کے مضمون پر ہوتا ہے۔ انسان کے لیے وحی الہٰی کی اہمیت بہت ہی عظیم ہے۔ جبکہ تکذیب کرنے والے غافل وحی الہٰی کی اہمیت کو سمجھ نہیں پا رہے۔

آیت نمبر 65 تا 66

ان مشرکین سے کہو ، جن پر تحریک کی وجہ سے دہشت طاری ہوگئی اور یہ لوگ حیران ہوکر کہتے ہیں۔

اجعل الالھة الٰھا واحدا۔۔۔۔ ان ھذالشیء عجاب (38: 5) ” کیا اس نے تمام الہوں کے بجائے ایک الہہ اختیار کرلیا ہے۔ ۔۔۔۔ یہ تو عجیب چیز ہے “۔ ان سے کہو کہ یہی تو حقیقت عظمی ہے۔

ومامن اله لا اللہ الواحد القھار (38: 65) ” کوئی معبود نہیں مگر اللہ جو یکتا سب پر غالب “۔ اور ان سے صاف صاف کہہ دیں کہ اختیارات میرے پاس نہیں ہیں۔ میرے ذمے جو کام ہے وہ صرف یہ ہے کہ میں لوگوں کو ڈراؤں اور اس سے بعد اللہ واحد اور قہار پر ان کا انجام چھوڑ دوں جو

رب اسمٰوٰت والارض وما بینھما (38: 66) ” جو زمین و آسمان اور ان ساری چیزوں کا رب ہے جو ان کے درمیان ہیں “۔ لہٰذا اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اور زمین و آسمان میں کسی کے لیے اس کے دربار کے سوا جائے پناہ نہیں ہے۔ وہ عزیز ہے ، قوی ہے ، اور وہ گناہوں کا بخشنے والا ، وہ درگزر فرمانے والا ہے۔ جو لوگ توبہ کرکے اس کی پناہ گاہ میں آتے ہیں وہ محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اور اس کے تو بہت عظیم نتائج ، انقلابی نتائج نکلنے والے ہیں مگر تم غافل ہو۔

اردو ترجمہ

آسمانوں اور زمین کا مالک اور اُن ساری چیزوں کا مالک جو ان کے درمیان ہیں، زبردست اور درگزر کرنے والا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbu alssamawati waalardi wama baynahuma alAAazeezu alghaffaru

اردو ترجمہ

اِن سے کہو "یہ ایک بڑی خبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul huwa nabaon AAatheemun

آیت نمبر 67 تا 68

کہہ دو ' قرآن کریم اپنے موجودہ زمانے اور مستقبل قریب کی بہ نسبت آگے چل کر بہت ہی عظیم نتائج پیدا کرنے والا ہے۔ اس کائنات میں یہ امر الہٰی ہے۔ اور اس کا تعلق اس پوری کائنات کے عظیم معاملات میں سے ہے۔ یہ اس کائنات میں جاری وساری نظام قضاو قدر سے متعلق ہے۔ یہ قرآن اور اس کا نزول زمین و آسمانوں کے معاملات سے کوئی علیحدہ فیصلہ نہیں ہے۔ اس سے ماضی (ان سے کہو) ” مجھے اس وقت کی کوئی خبر نہ تھی جب ملاء اعلیٰ میں جھگڑا ہورہا تھا۔

بعید کے امور بھی متعلق ہیں اور مستقبل کی تبدیلیاں بھی اس کے نتیجے میں ہوں گی۔

یہ تو ایک عظیم شہ سرخی ہے۔ یہ عظیم خبر قریش سے بھی آگے بڑھنے والی ' یہ مدین اور جزیرۃ العرب سے بھی آگے پھیلنے والی ہے۔ یہ اس وقت کی موجود نسل سے بھی آگے آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک شہ سرخی ہے۔ یہ خبر زمان و مکان میں محدود رہنے والی نہیں ہے۔ یہ انسانیت کے مستقبل کے زمانوں میں اور تمام اقطار عالم میں انقلاب برپا کرنے والی خبر ہے۔ اور یہ انسانیت کے حالات اور مسائل کو اس وقت تک متاثر کرتی رہے گی جب تک قیامت برپا نہیں ہوجاتی ۔ نظام کائنات میں اس خبر کے لیے جو وقت مقرر تھا۔ یہ خبر بعینہ اپنے وقت پر نشر ہوئی تاکہ اس کے ذریعے دنیا کے اندر وہ تغیرات پیدا ہوں جو اللہ چاہتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دست قدرت نے اس بناء عظیم کے ذریعے انسانیت کے سفر کے لیے جو راہ متعین کی ہے اور جس طرح انسانیت کو صراط مستقیم پر ڈالا ہے اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو وہ انقلابی تغیرات ثابت ہوں گے۔ ان لوگوں پر تو یہ اثرات ہوئے جو ماننے والے تھے لیکن اس سے وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو نہ ماننے والے تھے بلکہ جو مخالف تھے۔ نزول قرآن کے دور میں جانی والی نسلیں بھی اس سے متاثر ہوئیں اور بعد میں آنے والے بھی اس سے متاثر ہوئے۔ پوری انسانی تاریخ پر کسی بات ، کسی خبر نے اس قدر گہرے اثرات مرتب نہیں کیے ہیں جس طرح قرآن نے کیے۔

قرآن نے دنیا کو اعلیٰ اقدار اور برتر تصورات عطا کیے۔ اس دنیا کو ضابطہ اخلاق ، ضابطہ قانون اور بین الاقوامی قانون دیا۔ اور یہ قوانین اور انتظامات پوری انسانیت کے لیے تھے۔ ان اقدار اور ضابطہ عمل کے بارے میں عربوں نے تو سوچا ہی نہ تھا۔

عربوں نے کبھی یہ نہ سوچا تھا اور نہ سوچ سکتے تھے کہ اس عظیم خبر کے نتیجے میں روئے زمین پر اس قدر تغیرات واقع ہوں گے۔ تاریخ کا دھارا بدل جائے گا۔ اس زندگی کا نقشہ اللہ کی تقدیر کے مطابق بدل جائے گا۔ انسان کے ضمیرو شعور اور اس کے حالات میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اور یہ تغیرات اس لائن پر ہوں گے جس پر یہ پوری جائنات چل رہی ہے اور یہ کہ یہ خبر دراصل اس سچائی کی خبر ہے جس کے اوپر یہ کائنات چل رہی ہے اور قیامت تک زندگی نے اب اس طرح چلنا ہے اور اس طرح اس بناء عظیم نے انسانوں کی قسمت کو بدلنا ہے۔

آج مسلمانوں کا ردعمل اس خبر پر وہی ہے جس طرح ابتداء میں عربوں کا تھا۔ وہ یہ نہ سمجھ پائے کہ اس خبر کا تعلق روح کائنات کے ساتھ ہے۔ آج مسلمان بھی یہ نہیں سمجھتے کہ یہ بناء عظیم اسی سچائی کی حامل ہے جس پر یہ کائنات قائم ہے۔ مسلمان اس کائنات پر اسکے اثرات کو اس طرح پیش نہیں کرتے ۔ جس طرح فی الواقع وہ اثرات مرتب ہوئے۔ انسانی تاریخ پر وہ قرآنی نظریہ اور قرآنی زاویہ سے نگاہ نہیں ڈالتے بلکہ وہ انسانی اور خود اپنی تاریخ اور اس عظیم خبر کو ان لوگوں کی عینک لگا کر پڑھتے ہیں جو اسے سرے سے درست ہی نہیں سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس کرۂ ارض پر نہ اپنے ماضی کے کردار کو سمجھتے ہیں ، نہ اپنے حالیہ کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور نہ مستقبل میں جو کردار انہوں نے ادا کرنا ہے اسکو سمجھے ہیں حالانکہ قیامت تک یہ کر ادار ادا کرنا ان کا فریضہ ہے۔

ابتدائی دور کے عرب یہ سمجھتے تھے کہ یہ معاملہ عربوں کا ہے ، قریش کا ہے اور محمد ﷺ کا ہے۔ اور صرف یہ ہے کہ عربوں سے محمد نامی شخص کو نبی چن لیا گیا حالانکہ ان کے خیال میں وہ کوئی بڑا آدمی نہ تھا۔ ان کے ارادے اور ان کی سوچ اس قدر محدود شکل میں تھی۔ قرآن کریم ان سے کہتا ہے کہ یہ کوئی میونسپل مسئلہ نہیں ہے ، یہ تو بہت ہی عظیم امر ہے۔ یہ محمد ابن عبد اللہ کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ تو صرف اس عظیم خبر کو نشر کرنے والے ہیں ۔ یہ خود اس کے موجد بھی نہیں ہیں۔ وہ صرف وہ بات کہہ رہے ہیں جس کے بارے میں ان کو حکم دیا گیا ہے کہ اس عظیم خبر کا اعلان کردو۔ محمد کو کیا پتہ کہ آغاز میں اللہ نے تخلیق انسانیت کے بارے میں کیا مکالمہ کیا۔

اردو ترجمہ

جس کو سن کر تم منہ پھیرتے ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Antum AAanhu muAAridoona

اردو ترجمہ

(ان سے کہو) "مجھے اُس وقت کی کوئی خبر نہ تھی جب ملاء اعلیٰ میں جھگڑا ہو رہا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma kana liya min AAilmin bialmalai alaAAla ith yakhtasimoona

آیت نمبر 69 تا 70

یہاں پھر قصہ انسانیت شروع ہوتا ہے کہ اس بناء عظیم میں انسان کا کیا مقام ہے ۔ اس وقت عالم بالا میں وہ مکالمہ ہوا جس سے انسانی تاریخ کی لائن متعین ہوتی ہے۔ اور انسانی قدریں متعین ہوتی ہیں اور اسی نظریہ اور فلسفہ کی تبلیغ کے لیے حضرت محمد ﷺ بھیجے گئے ہیں۔

اردو ترجمہ

مجھ کو تو وحی کے ذریعہ سے یہ باتیں صرف اس لیے بتائی جاتی ہیں کہ میں کھلا کھلا خبردار کرنے والا ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In yooha ilayya illa annama ana natheerun mubeenun

اردو ترجمہ

جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا "میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith qala rabbuka lilmalaikati innee khaliqun basharan min teenin

آیت نمبر 71 تا 72

ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ مکالمہ کس انداز میں ہوا ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی فرشتوں کے ساتھ مکالمے کی کیفیت کیا ہے اور یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے کہ فرشتے اللہ سے ہدایات کس طرح اخذ کرتے ہیں۔ نہ ہم فرشتوں کی حقیقت سے باخبر ہوں ۔ نہ ہمیں ان مسائل میں الجھنے کی ضرورت لاحق ہے اور نہ کوئی فائدہ متوقع ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس قصے کا جو مطلب ہے اور اس کے اندر جو فلسفہ ہے اس پر بات کریں۔

اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ جس طرح زمین کی تمام ذی روح چیزوں کو مٹی سے بنایا۔ تمام زندہ مخلوقات کے عناصر ترکیبی مٹی میں موجود ہیں۔ صرف ایک چیز ابھی تک راز ہے کہ روح اور حیات اس کے اندر کہاں سے آئی اور کس طرح آئی۔ اس راز کے سوا انسان کی ذات کے تمام مٹی سے ہیں۔ اور انسان دوسرے حیوانوں کے مقابلے میں انسان قرار پایا۔ وہ اسی روح کی وجہ سے جو اللہ نے اس کی ذات کے اندر پھونکا۔ انسان کی ماں یہ زمین ہے۔ زمین کے عناصر سے اس کی تخلیق ہوئی ہے اور جب اس سے روح جدا ہوتی ہے تو وہ پھر مٹی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جب اس کے جسد خاکی سے روح نکلتی ہے تو اس سے اس کے آثار علوی نکل جاتے ہیں۔

روح کی پھونک کی کیا حقیقت ہے ' اس کی اہلیت سے ہم بیخبر ہیں ' البتہ روح کے آثار ہمارے علم میں ہیں۔ یہ روحانی آثار ہیں جن کی بنا پر یہ حضرت انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور اس روح ہی کی وجہ سے وہ روحانی اور عقلی ارتقاء کرتا ہے ۔ یہ روح ہی ہے جس کی وجہ سے انسان ماضی سے تجربات حاصل کرتا ہے۔ اور مستقبل کے لیے راہ عمل متعین کرتا ہے۔ اس طرح انسانی عقل حواس کے مدرکات اور عقل کے مدرکات سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ اور اسے وہ روحانی معلومات حاصل ہوتی جو حواس اور عقل کے دائرے سے وراء ہیں۔

عقل اور روحانی ارتقاء انسان کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس زمین پر زندہ ہونے والے تمام دوسرے ذی حیات انسان کے ساتھ اس خاصہ میں شریک نہیں ہیں۔ جب سے انسان پیدا ہوا ہے اس کے ساتھ دوسرے حیوانات بھی پیدا ہوئے۔ لیکن انسان اور زمین کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حیوانات میں سے کوئی حیوان عقل اور روح کے اعتبار سے انسان جیسی ترقی کر گیا ہو۔ اگر ہم عضویاتی ارتقاء کو تسلیم بھی کرلیں لیکن عقلی ارتقاء کی کوئی مثال نہیں ہے۔

اللہ نے اس بشری مخلوق میں اپنی روح پھونکی ہے۔ کیونکہ اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ حضرت انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہو اور اس خلافت اور نیابت کی رو سے زمین کے اختیارات اپنے حدودقدرت کی حد تک سنبھال لے۔ یعنی اس کی تعمیر کرے۔ اس کے اندر پوشیدہ قوتوں کو اپنے کام میں لائے اور یہاں خدا کی منشاء کو پورا کرے۔

اللہ نے انسان کو ترقی اور حصول علم دی اور اپنے روز آفرینش سے وہ ترقی کررہا ہے بشرطیکہ وہ اس روح کے منبع سے جڑا رہے یعنی ذات باری سے۔ اور ذات باری سے وہ صراط مستقیم کی طرف گامزن ہونے کی ہدات لیتا رہے لیکن اگر وہ عالم بالا کی ہدایات سے منحرف ہوجائے تو پھر انسان کی ذات میں ترقی اور آگاہی کا جو تموج ہے وہ متوازن نہیں رہتا ۔ اور اس کی سمت بھی درست نہیں رہتی۔ اور بعض اوقات انسان آگے بڑھنے کے بجائے ترقی معکوس کرتا ہے اور یہ تموج پھر اس کی ذاتی اور انسانی سلامتی کے لیے خطرناک صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اگر وہ انسانی خصوصیات میں رفعت قہقری اختیار کرلے تو حقیقی ارتقاء کے بجائے وہ زوال کی راہ پر پڑجاتا ہے۔ اگرچہ بظاہر اس کے علوم وفنون زیادہ ہوگئے ہوں۔ وہ تجربات میں بہت آگے جاچکا ہو اور زندگی کے بعض پہلوؤں کے اعتبار سے ترقی کر گیا ہو۔

یہ انسان ! نہایت ہی جھوٹا انسان ' کائنات کے ان عظیم اور ہولناک اجسام وکرات کی بہ نسبت ! یہ انسان ! جس کی قوتیں نہایت محدود ہیں جس کا عمل بہت قصیر ہے۔ جس کا علم بہت ہی محدود ہے۔ یہ انسان اس قدر عظمت و کرامت حاصل ہی نہ کرسکتا تھا۔ اگر اللہ نے اس میں اپنی روح نہ پھونکی ہوتی اور اس پر اللہ کا یہ مخصوص کرم نہ ہوا ہوتا۔

ذرا سوچو ' اس انسان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ یہ تو اس کائنات کے اندر ایک نہایت ہی چھوٹا سا کیڑا ہے اور یہ لاتعدولا نحصی دوسرے زندہ کیڑوں ، مکوڑوں اور پرندوں اور چرندوں کے ساتھ یہاں رہتا ہے اور یہ زمین کیا ہے ، یہ کسی ایک نظام شمسی میں چھوٹی سی گیند ہے اور اس قسم کی کئی بلین گیندیں اس کائنات میں تیرتی پھرتی ہیں۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کا آغاز کہاں سے ہے اور انتہا کہاں پر ہے ' یہ انسان ! اس انسان کو فرشتے سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے فرشتے ' یہ محض اس نفح روح کی وجہ سے ہے جو نہایت ہی گہراراز ہے اور عظیم راز ہے۔ اس راز ہی کی وجہ سے یہ انسان زمانہ قدیم سے محض حیوان رذیل نہیں ہے۔ اگر اس سے یہ روح اور روحانیات کو منفی کردیا جائے تو یہ ایک حقیر مٹی کا ٹکڑا ہے۔ ملائکہ نے بہرحال امرالہٰی کی تعمیل کی۔

اردو ترجمہ

پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha sawwaytuhu wanafakhtu feehi min roohee faqaAAoo lahu sajideena

اردو ترجمہ

اس حکم کے مطابق فرشتے سب کے سب سجدے میں گر گئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasajada almalaikatu kulluhum ajmaAAoona

آیت نمبر 73

کس طرح سجدہ کیا ۔ کہاں کیا ' کب کیا ؟ یہ سب اللہ کے علوم غسیہ سے ہیں۔ اگر یہ معلومات اللہ فراہم ہی کردیتا تو اس سے اس قصے کے مفہوم اور مطلب میں کسی چیز کا اضافہ نہ ہوتا ۔ قصے کا مقصد یہ ہے کہ مٹی سے بنایا ہوا یہ حضرت انسان جو دوسرے حیوانات کی طرح ہے کس طرح مکرم اور مسجود ملائک بن گیا۔ یوں کہ اسے نفح ربانی کی وجہ سے یہ برتری حاصل ہوئی۔ اس کی روح اور روحانیت کی وجہ سے نہ جسم اور جسمانیات کی وجہ سے۔ ملائکہ نے ازراہ امر الہٰی سجدہ کرلیا۔ وہ اس کی حکمت کو پاگئے تھے ۔ کیونکہ اللہ ان کو سکھا گیا تھا۔

اردو ترجمہ

مگر ابلیس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa ibleesa istakbara wakana mina alkafireena

آیت نمبر 74

کیا ابلیس فرشتوں میں سے تھا ؟ ظاہر یہ ہے کہ نہ تھا۔ کیونکہ اگر یہ فرشتوں میں سے ہوتا تو معصیت کیسے کرتا اس لیے کہ فرشتے تو اللہ کے اوامر سے معصیت نہیں کرتے اور ان کو جو بھی حکم دیا جاتا ہے۔ اسے وہ کر گزرتے ہیں۔ آئندہ یہ بات آئے گی یہ آگ سے پیدا شدہ مخلوق ہے۔ اور یہ بات معقول ہے کہ فرشتے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن وہ فرشتوں میں رہتا تھا۔ اور اسے بھی حکم دیا گیا تھا کہ سجدہ کرو۔ اور حکم دیتے وقت صرف فرشتوں کا تذکرہ ہوا۔ اور اس کا تذکرہ نہ ہوا یعنی ” یہ نہیں کہا اے فرشتو اور شیطان سجدہ کرو “۔ اس لیے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ یہ نافرمانی کرے گا لہٰذا اسے نظر انداز کرنے کے لیے ایسا کیا گیا۔ ہمیں تب معلوم ہوا کہ شیطان کو بھی سجدے کا حکم دیا گیا تھا جب اس پر عتاب نازل ہوا۔

اردو ترجمہ

رب نے فرمایا "اے ابلیس، تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟ تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala ya ibleesu ma manaAAaka an tasjuda lima khalaqtu biyadayya astakbarta am kunta mina alAAaleena

آیت نمبر 75

میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ؟ اللہ تو سب مخلوقات کا خالق ہے۔ لہٰذا انسان کی تخلیق میں کوئی امتیازی بات ہے ' اس لیے یہاں اللہ نے اپنے دست قدرت کا ذکر کیا ۔ وہ خصوصیت یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے اس مخلوق پر مخصوص عنایات کی ہیں ، اس میں اپنی مخصوص روح پھونکی ہے اور اس پر بہت کچھ عنایات کی ہیں۔

تو نے میرے حکم کے مقابلے میں سرکشی کی ہے یا تو کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے ہے۔ (ام کنت من العالین (38:

75) یعنی ان لوگوں میں سے ہے جو میری بغاوت پر تلے ہوئے ہوتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اُس نے جواب دیا "میں اُس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala ana khayrun minhu khalaqtanee min narin wakhalaqtahu min teenin

آیت نمبر 76

اس جواب سے حسد ٹپکا پڑتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ جسد آدم میں مٹی کے عنصر سے جو زائد عنصر ہے ، شیطان اس سے غافل تھا۔ یہ وہی عنصر تھا یعنی روح ربانی جو اس عزت افزائی کا مستحق تھا۔ بہرحال یہ اس ذات کی جانب سے ایک کورا جواب ہے جو اس منظر میں ہر قسم کی خبر اور بھلائی سے محروم ہوتی ہے۔

چناچہ بارگاہ رب العزت سے حکم نامہ جاری ہوا اور اس قبیح ذات کو دربار عالیہ سے نکال دیا گیا۔

اردو ترجمہ

فرمایا "اچھا تو یہاں سے نکل جا، تو مردود ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala faokhruj minha fainnaka rajeemun

آیت نمبر 77 تا 78

یہ واضح نہیں ہے کہ منہا کی ضمیر کس طرف عائد ہوتی ہے۔ کیا یہ جنت کی طرف راجع ہے اور یہ خبیث جنت میں تھا۔ یا اس کا مرجع رحمت الہیہ ہے۔ دونوں کی طرف یہ ضمیر راجع ہوسکتی ہے۔ اس پر کسی مباحثہ کی ضرورت نہیں ہے۔ غرض شیطان راندۂ درگاہ ہوگیا اس پر اللہ کی لعنت ہوئی اور غضب ہوا کیوں ؟ اس لیے کہ اس نے امرالہٰی کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں جرات اور جسارت کا مظاہرہ کیا۔

اردو ترجمہ

اور تیرے اوپر یوم الجزاء تک میری لعنت ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna AAalayka laAAnatee ila yawmi alddeeni

اردو ترجمہ

وہ بولا "ا ے میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس وقت تک کے لیے مہلت دے دے جب یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbi faanthirnee ila yawmi yubAAathoona

آیت نمبر 79

اللہ کی مشیت کا تقاضا یوں تھا کہ اس کی دوخواست منظور کرلی اور اسے قیامت تک فرصت و مہلت دے دی جائے۔

اردو ترجمہ

فرمایا، "اچھا، تجھے اُس روز تک کی مہلت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala fainnaka mina almunthareena

آیت نمبر 80 تا 81

شیطان نے اپنے مقاصد صاف صاف بتا دیئے کہ اپنی کینہ پروری وہ ان مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔

اردو ترجمہ

جس کا وقت مجھے معلوم ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ila yawmi alwaqti almaAAloomi

اردو ترجمہ

اس نے کہا "تیری عزت کی قسم، میں اِن سب لوگو ں کو بہکا کر رہوں گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala fabiAAizzatika laoghwiyannahum ajmaAAeena

آیت نمبر 82 تا 83

اس نے اپنا منہاج کار بھی متعین کردیا ، وہ اللہ کی عزت کی قسم اٹھا کر اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ میں ان تمام انسانوں کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔ ہاں وہ صرف ان لوگون کو مستثنیٰ کرتا ہے جن پر اس کا بس نہیں چلتا۔ اس لیے نہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ وہ کچھ مہربانی کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس کے دام میں آنے والے نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ شیطان کی دست درازیوں سے محفوظ ہیں۔ ان کے اور شیطان کے درمیان کیا پردہ ہوتا ہے ؟ وہ یہ کہ بندہ اللہ کی بندگی اخلاص کے ساتھ کرے تو وہ شیطان کی دسترس سے دور ہوجاتا ہے۔ یہی طریق نجات ہے اور یہی زندگی کی مضبوط رسی ہے۔ اور یہ بھی اللہ کے ارادے اور تقدیر کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ کی مشیت کے دائرہ کے اندر ہلاکت یا نجات ملتی ہے۔ اس موقع پر اللہ نے بھی اپنے ارادے کا برملا اظہار کردیا اور اللہ نے بھی اپنے منہاج کا اعلان کردیا ۔

اردو ترجمہ

بجز تیرے اُن بندوں کے جنہیں تو نے خالص کر لیا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa AAibadaka minhumu almukhlaseena
457