آیت نمبر 67 تا 68
کہہ دو ' قرآن کریم اپنے موجودہ زمانے اور مستقبل قریب کی بہ نسبت آگے چل کر بہت ہی عظیم نتائج پیدا کرنے والا ہے۔ اس کائنات میں یہ امر الہٰی ہے۔ اور اس کا تعلق اس پوری کائنات کے عظیم معاملات میں سے ہے۔ یہ اس کائنات میں جاری وساری نظام قضاو قدر سے متعلق ہے۔ یہ قرآن اور اس کا نزول زمین و آسمانوں کے معاملات سے کوئی علیحدہ فیصلہ نہیں ہے۔ اس سے ماضی (ان سے کہو) ” مجھے اس وقت کی کوئی خبر نہ تھی جب ملاء اعلیٰ میں جھگڑا ہورہا تھا۔
بعید کے امور بھی متعلق ہیں اور مستقبل کی تبدیلیاں بھی اس کے نتیجے میں ہوں گی۔
یہ تو ایک عظیم شہ سرخی ہے۔ یہ عظیم خبر قریش سے بھی آگے بڑھنے والی ' یہ مدین اور جزیرۃ العرب سے بھی آگے پھیلنے والی ہے۔ یہ اس وقت کی موجود نسل سے بھی آگے آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک شہ سرخی ہے۔ یہ خبر زمان و مکان میں محدود رہنے والی نہیں ہے۔ یہ انسانیت کے مستقبل کے زمانوں میں اور تمام اقطار عالم میں انقلاب برپا کرنے والی خبر ہے۔ اور یہ انسانیت کے حالات اور مسائل کو اس وقت تک متاثر کرتی رہے گی جب تک قیامت برپا نہیں ہوجاتی ۔ نظام کائنات میں اس خبر کے لیے جو وقت مقرر تھا۔ یہ خبر بعینہ اپنے وقت پر نشر ہوئی تاکہ اس کے ذریعے دنیا کے اندر وہ تغیرات پیدا ہوں جو اللہ چاہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دست قدرت نے اس بناء عظیم کے ذریعے انسانیت کے سفر کے لیے جو راہ متعین کی ہے اور جس طرح انسانیت کو صراط مستقیم پر ڈالا ہے اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو وہ انقلابی تغیرات ثابت ہوں گے۔ ان لوگوں پر تو یہ اثرات ہوئے جو ماننے والے تھے لیکن اس سے وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو نہ ماننے والے تھے بلکہ جو مخالف تھے۔ نزول قرآن کے دور میں جانی والی نسلیں بھی اس سے متاثر ہوئیں اور بعد میں آنے والے بھی اس سے متاثر ہوئے۔ پوری انسانی تاریخ پر کسی بات ، کسی خبر نے اس قدر گہرے اثرات مرتب نہیں کیے ہیں جس طرح قرآن نے کیے۔
قرآن نے دنیا کو اعلیٰ اقدار اور برتر تصورات عطا کیے۔ اس دنیا کو ضابطہ اخلاق ، ضابطہ قانون اور بین الاقوامی قانون دیا۔ اور یہ قوانین اور انتظامات پوری انسانیت کے لیے تھے۔ ان اقدار اور ضابطہ عمل کے بارے میں عربوں نے تو سوچا ہی نہ تھا۔
عربوں نے کبھی یہ نہ سوچا تھا اور نہ سوچ سکتے تھے کہ اس عظیم خبر کے نتیجے میں روئے زمین پر اس قدر تغیرات واقع ہوں گے۔ تاریخ کا دھارا بدل جائے گا۔ اس زندگی کا نقشہ اللہ کی تقدیر کے مطابق بدل جائے گا۔ انسان کے ضمیرو شعور اور اس کے حالات میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اور یہ تغیرات اس لائن پر ہوں گے جس پر یہ پوری جائنات چل رہی ہے اور یہ کہ یہ خبر دراصل اس سچائی کی خبر ہے جس کے اوپر یہ کائنات چل رہی ہے اور قیامت تک زندگی نے اب اس طرح چلنا ہے اور اس طرح اس بناء عظیم نے انسانوں کی قسمت کو بدلنا ہے۔
آج مسلمانوں کا ردعمل اس خبر پر وہی ہے جس طرح ابتداء میں عربوں کا تھا۔ وہ یہ نہ سمجھ پائے کہ اس خبر کا تعلق روح کائنات کے ساتھ ہے۔ آج مسلمان بھی یہ نہیں سمجھتے کہ یہ بناء عظیم اسی سچائی کی حامل ہے جس پر یہ کائنات قائم ہے۔ مسلمان اس کائنات پر اسکے اثرات کو اس طرح پیش نہیں کرتے ۔ جس طرح فی الواقع وہ اثرات مرتب ہوئے۔ انسانی تاریخ پر وہ قرآنی نظریہ اور قرآنی زاویہ سے نگاہ نہیں ڈالتے بلکہ وہ انسانی اور خود اپنی تاریخ اور اس عظیم خبر کو ان لوگوں کی عینک لگا کر پڑھتے ہیں جو اسے سرے سے درست ہی نہیں سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس کرۂ ارض پر نہ اپنے ماضی کے کردار کو سمجھتے ہیں ، نہ اپنے حالیہ کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور نہ مستقبل میں جو کردار انہوں نے ادا کرنا ہے اسکو سمجھے ہیں حالانکہ قیامت تک یہ کر ادار ادا کرنا ان کا فریضہ ہے۔
ابتدائی دور کے عرب یہ سمجھتے تھے کہ یہ معاملہ عربوں کا ہے ، قریش کا ہے اور محمد ﷺ کا ہے۔ اور صرف یہ ہے کہ عربوں سے محمد نامی شخص کو نبی چن لیا گیا حالانکہ ان کے خیال میں وہ کوئی بڑا آدمی نہ تھا۔ ان کے ارادے اور ان کی سوچ اس قدر محدود شکل میں تھی۔ قرآن کریم ان سے کہتا ہے کہ یہ کوئی میونسپل مسئلہ نہیں ہے ، یہ تو بہت ہی عظیم امر ہے۔ یہ محمد ابن عبد اللہ کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ تو صرف اس عظیم خبر کو نشر کرنے والے ہیں ۔ یہ خود اس کے موجد بھی نہیں ہیں۔ وہ صرف وہ بات کہہ رہے ہیں جس کے بارے میں ان کو حکم دیا گیا ہے کہ اس عظیم خبر کا اعلان کردو۔ محمد کو کیا پتہ کہ آغاز میں اللہ نے تخلیق انسانیت کے بارے میں کیا مکالمہ کیا۔
آیت 67 { قُلْ ہُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ } ”آپ کہہ دیجیے کہ یہ ایک بہت بڑی خبر ہے۔“