سورہ سعد: آیت 65 - قل إنما أنا منذر ۖ... - اردو

آیت 65 کی تفسیر, سورہ سعد

قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ مُنذِرٌ ۖ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) اِن سے کہو، "میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں کوئی حقیقی معبود نہیں مگر اللہ، جو یکتا ہے، سب پر غالب

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innama ana munthirun wama min ilahin illa Allahu alwahidu alqahharu

آیت 65 کی تفسیر

درس نمبر 214 تشریح آیات

یہ اس سورت کا آخری سبق ہے اور یہ ان مسائل کو دہراتا ہے جو اس سورت کے اغاز میں دہرائے گئے تھے۔ مسئلہ توحید ، مسئلہ وحی الہٰی ، مسئلہ جزاء وسزا ، حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصے کو ثبوت وحی کے لیے پیش کیا جاتا ہے کیونکہ رسولوں کا بھیجنا اس وقت طے ہوگیا تھا جب اللہ تخلیق آدم کے بارے میں فرشتوں کو بتارہا تھا۔ نیز اسی دن یہ طے ہوگیا تھا کہ ہدایت وضلالت کی راہ اختیار کرنے کا حساب اللہ لے ھا اور جزاء وسزا ہوگی ۔ اس قصے میں یہ بھی بتایا گیا ہے۔ انسان کے ساتھ شیطان کو روزازل سے حسد اور کینہ ہے اس نے روزاول سے اپنے آپ کو انسانی سے افضل سمجھا۔ یوں معرکہ آدم وابلیس شروع ہوا اور یہ معرکہ ہمیشہ جاری ہے اور قیامت تک یہ جنگ سرد نہیں پڑسکتی۔ کوئی فریق ہتھیار نہ ڈالے گا۔ شیطان کا ہدف یہ ہے کہ وہ انسانوں کی بڑی تعداد کو گمراہ کردے تاکہ وہ ان کو جہنم رسید کردے اور یہ وہاں اس کے ساتھی ہوں۔ یہ شیطان کی طرف سے انسان سے انتقام ، ان کے باپ سے انتقام ہے ، اس نے آدم کو جنت سے نکالا لیکن تعجب ہے کہ ابن ادم اس کھلی دشمنی کے باوجود شیطان کی اطاعت قبول کرتا ہے۔

سورت کا اختتام وحی الہٰی کے مضمون پر ہوتا ہے۔ انسان کے لیے وحی الہٰی کی اہمیت بہت ہی عظیم ہے۔ جبکہ تکذیب کرنے والے غافل وحی الہٰی کی اہمیت کو سمجھ نہیں پا رہے۔

آیت نمبر 65 تا 66

ان مشرکین سے کہو ، جن پر تحریک کی وجہ سے دہشت طاری ہوگئی اور یہ لوگ حیران ہوکر کہتے ہیں۔

اجعل الالھة الٰھا واحدا۔۔۔۔ ان ھذالشیء عجاب (38: 5) ” کیا اس نے تمام الہوں کے بجائے ایک الہہ اختیار کرلیا ہے۔ ۔۔۔۔ یہ تو عجیب چیز ہے “۔ ان سے کہو کہ یہی تو حقیقت عظمی ہے۔

ومامن اله لا اللہ الواحد القھار (38: 65) ” کوئی معبود نہیں مگر اللہ جو یکتا سب پر غالب “۔ اور ان سے صاف صاف کہہ دیں کہ اختیارات میرے پاس نہیں ہیں۔ میرے ذمے جو کام ہے وہ صرف یہ ہے کہ میں لوگوں کو ڈراؤں اور اس سے بعد اللہ واحد اور قہار پر ان کا انجام چھوڑ دوں جو

رب اسمٰوٰت والارض وما بینھما (38: 66) ” جو زمین و آسمان اور ان ساری چیزوں کا رب ہے جو ان کے درمیان ہیں “۔ لہٰذا اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اور زمین و آسمان میں کسی کے لیے اس کے دربار کے سوا جائے پناہ نہیں ہے۔ وہ عزیز ہے ، قوی ہے ، اور وہ گناہوں کا بخشنے والا ، وہ درگزر فرمانے والا ہے۔ جو لوگ توبہ کرکے اس کی پناہ گاہ میں آتے ہیں وہ محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اور اس کے تو بہت عظیم نتائج ، انقلابی نتائج نکلنے والے ہیں مگر تم غافل ہو۔

آیت 65 { قُلْ اِنَّمَآ اَنَا مُنْذِرٌق وَّمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ } ”اے نبی ﷺ ! کہہ دیجیے کہ میں تو بس ایک خبردار کرنے والا ہوں ‘ اور نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ‘ وہ اکیلا ہے اور ہرچیز پر پوری طرح چھایا ہوا ہے۔“

نبی ؑ کا خواب۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو حکم فرماتا ہے کہ کافروں سے کہہ دو کہ میری نسبت تمہارے خیالات محض غلط ہیں میں تو تمہیں ڈر کی خبر پہچانے والا ہوں۔ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا اور کوئی قابل پرستش نہیں وہ اکیلا ہے وہ ہر چیز پر غالب ہے، ہر چیز اس کے ماتحت ہے۔ وہ زمین و آسمان اور ہر چیز کا مالک ہے اور سب تصرفات اسی کے قبضے میں ہیں۔ وہ عزتوں والا ہے اور باوجود اس عظمت و عزت کے بڑا بخشنے والا ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے یعنی میرا رسول بن کر تمہاری طرف آنا پھر تم اے غافلو اس سے اعراض کر رہے ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بڑی چیز ہے یعنی قرآن کریم۔ حضرت آدم ؑ کے بارے میں فرشتوں میں جو کچھ اختلاف ہوا اگر رب کی وحی میرے پاس نہ آئی ہوتی تو مجھے اس کی بابت کیا علم ہوتا ؟ ابلیس کا آپ کو سجدہ کرنے سے منکر ہونا اور رب کے سامنے اس کی مخالفت کرنا اور اپنی بڑائی جتانا وغیرہ ان سب باتوں کو میں کیا جانوں ؟ مسند احمد میں ہے ایک دن صبح کی نماز میں حضور ﷺ نے بہت دیر لگا دی یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے کا وقت آگیا پھر بہت جلدی کرتے ہوئے آئے تکبیر کہی گئی اور آپ نے ہلکی نماز پڑھائی۔ پھر ہم سے فرمایا ذرا دیر ٹھہرے رہو پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا رات کو میں تہجد کی نماز پڑھ رہا تھا جو مجھے اونگھ آنے لگی یہاں تک کہ میں جاگا میں نے دیکھا کہ گویا میں اپنے رب کے پاس ہوں میں نے اپنے پروردگار کو بہرتین عمدہ صورت میں دیکھا مجھ سے جناب باری نے دریافت فرمایا جانتے ہو عالم بالا کے فرشتے اس وقت کس امر میں گفتگو اور سوال و جواب کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا میرے رب مجھے کیا خبر ؟ تین مرتبہ کے سوال جواب کے بعد میں میں نے دیکھا کہ میرے دونوں مونڈھوں کے درمیان اللہ عزوجل نے اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ انگلیوں کی ٹھنڈک مجھے میرے سینے میں محسوس ہوئی اور مجھ پر ہر ایک چیز روشن ہوگئی پھر مجھ سے سوال کیا اب بتاؤ ملاء اعلیٰ میں کیا بات چیت ہو رہی ہے ؟ میں نے کہا گناہوں کے کفارے کی۔ فرمایا پھر تم بتاؤ کفارے کیا کیا ہیں ؟ میں نے کہا نماز با جماعت کے لئے قدم اٹھا کر جانا۔ نمازوں کے بعد مسجدوں میں بیٹھے رہنا اور دل کے نہ چاہئے پر بھی کامل وضو کرنا۔ پھر مجھ سے میرے اللہ نے پوچھا درجے کیا ہیں ؟ میں نے کہا کھانا کھلانا۔ نرم کلامی کرنا اور راتوں کو جب لوگ سوئے پڑے ہوں نماز پڑھنا۔ اب مجھ سے میرے رب نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے ؟ میں نے کہا میں نیکیوں کا کرنا برائیوں کا چھوڑنا مسکینوں سے محبت رکھنا اور تیری بخشش، تیرا رحم اور تیرا ارادہ جب کسی قوم کی آزمائش کا فتنے کے ساتھ ہو تو اسے فتنے میں مبتلا ہونے سے پہلے موت، تیری محبت اور تجھ سے محبت رکھنے والوں کی محبت اور ان کاموں کی چاہت جو تیری محبت سے قریب کرنے والے ہوں مانگتا ہوں اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا یہ سراسر حق ہے اسے پڑھو پڑھاؤ سیکھو سکھاؤ۔ یہ حدیث خواب کی ہے اور مشہور بھی یہی ہے بعض نے کہا ہے یہ جاگتے کا واقعہ ہے لیکن یہ غلط ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ قرآن میں فرشتوں کی جس بات کا رد و بدل کرنا اس آیت میں مذکور ہے وہ یہ نہیں جو اس حدیث میں ہے بلکہ یہ سوال تو وہ ہے جس کا ذکر اس کے بعد ہی ہے ملاحظہ ہوں اگلی آیتیں۔

آیت 65 - سورہ سعد: (قل إنما أنا منذر ۖ وما من إله إلا الله الواحد القهار...) - اردو