سورہ کہف: آیت 5 - بل كذبوا بالحق لما جاءهم... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ کہف

بَلْ كَذَّبُوا۟ بِٱلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ فَهُمْ فِىٓ أَمْرٍ مَّرِيجٍ

اردو ترجمہ

بلکہ اِن لوگوں نے تو جس وقت حق اِن کے پاس آیا اُسی وقت اُسے صاف جھٹلا دیا اِسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal kaththaboo bialhaqqi lamma jaahum fahum fee amrin mareejin

آیت 5 کی تفسیر

اس کے بعد ان کی شخصیت کا تجزیہ کر کے بتایا جاتا ہے اور وہ اصل سبب بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ وہی اعتراضات وہ کرتے ہیں یہ کہ انہوں نے سچائی کا مضبوط پلیٹ فارم چھوڑ دیا ہے ، ان کے پاؤں کے نیچے زمین ہی نہیں ہے۔ اس لیے یہ کسی موقف پر جم ہی نہیں سکتے۔

بل کذبوا بالحق لما جاءھم فھم فی امر مریج (50 : 5) “ بلکہ ان لوگوں نے تو جس وقت حق ان کے پاس آیا اسی وقت اسے صاف جھٹلا دیا۔ اسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں “۔

یہ بھی ایک نہایت منفرد انداز تعبیر ہے۔ جو لوگ مستقل سچائی کو ترک کرتے ہیں تو پھر ان کے قدم کسی جگہ نہیں جم سکتے۔

سچائی ایک ایسا نقطہ ہے جس پر وہ شخص قائم ہوتا ہے جو سچائی پر ایمان لاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے قدموں میں کوئی لغزش نہیں ہوتی ۔ اس روش میں اضطراب نہیں ہوتا کیونکہ اس کے قدموں کے نیچے زمین مضبوط ہوتی ہے۔ اس میں کوئی زلزلہ نہیں آتا اور نہ اس کا کوئی حصہ زمین میں دھنستا ہے جبکہ اس کے ماحول کے دوسرے افراد ڈانواں ڈول ، مضطرب ، بےثبات اور دولت یقین سے محروم ہوتے ہیں۔ نہ ان میں کوئی مضبوط کردار ہوتا ہے اور نہ وہ مشکلات برداشت کرسکتے ہیں۔ جس نے بھی حق سے تجاوز کرلیا اور ادھر ادھر ہوگیا ، وہ پھسل گیا۔ اور ثبات وقرار سے محروم ہوگیا۔ اور اسے کبھی اطمینان نہ ہوگا۔ وہ ہر وقت شک ، پریشانی اور بےچینی میں مبتلا رے گا۔

پھر جو شخص سچائی کو چھوڑ دے تو ہر طرف سے خواہشات نفس کی آندھیاں چلنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ میلانات و خواہشات ، بدلتی ہوئی خواہشات ، اسے کسی ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتیں ۔ حیران و پریشان ، افتاں و خیزاں کبھی ادھر دوڑتا ہے ، کبھی ادھر بھاگتا ہے۔ جہاں کھڑا ہوتا ہے وہاں مطمئن نہیں ہوتا۔ پاگلوں کی طرح کبھی دائیں ، کبھی بائیں ، کبھی آگے کبھی پیچھے دوڑتا رہتا ہے۔ اس کے لئے کوئی جائے امن وقرار نہیں ہوتی۔

یہ ایک عجیب انداز بیان ہے کہ وہ ” امر مریج “ میں پھنسا ہوا ہے ۔ ایسی حالت میں جس میں الجھن ہو اور وہ فیصلہ نہ کرسکتا ہو اور دائمی خلجان میں گرفتار ہو۔ انداز بیان ایسا ہے کہ ایسے شخص کی اندرونی کیفیات کو اس کی حرکات ظاہر کر رہی ہیں اور لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔

آیت 5 { بَلْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہُمْ } ”بلکہ انہوں نے جھٹلا دیا حق کو جب کہ وہ ان کے پاس آیا“ { فَہُمْ فِیْٓ اَمْرٍ مَّرِیْجٍ۔ } ”سو اب وہ ایک بڑی الجھن میں مبتلاہو گئے ہیں۔“ ایک طرف تو جواب دہی اور احتساب کی باتیں ماننے کے لیے ان کی طبیعتیں آمادہ نہیں اور دوسری طرف اس بارے میں قرآن کی زبان میں حضور ﷺ کے دلائل ایسے قوی ہیں کہ انہیں جھٹلانا ان کے لیے ممکن نہیں۔ بس یہی الجھن ہے جس میں یہ لوگ پھنس چکے ہیں۔ اس کائنات کی ایک ایک چیز اس حقیقت پر گواہ ہے اور اس کا مربوط و مستحکم نظام بھی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا خالق ایک علیم و حکیم ہستی ہے۔ پھر انسان کے اندر پائی جانے والی ”اخلاقی حس“ بھی اس کے اچھے برے اعمال کے ٹھوس اور حتمی نتائج کا تقاضا کرتی ہے جس کے لیے ایک دوسری زندگی کی ضرورت ہے۔ ان تمام حقائق و شواہد کی موجودگی میں ایک صاحب ِعقل اور ذی شعور انسان کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ کائنات بس ”رام کی لیلا“ ہے اور انسان کی اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ چناچہ منکرین آخرت کے لیے ان حقائق کو تسلیم کیے بغیر چارہ بھی نہیں ‘ لیکن ان کی طبیعتیں ہیں کہ احتساب کے لیے تیار بھی نہیں۔ یہ انسان کی وہی نفسیاتی الجھن ہے جس کا ذکر غالب ؔنے اس شعر میں کیا ہے جو میں نے ابھی آپ کو سنایا ہے : ؎جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی !ان لوگوں کے قلوب و اذہان میں منفی خیالات و نظریات اس قدر راسخ ہوچکے ہیں کہ اب ان سے پیچھا چھڑانا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ دراصل انسان اپنے لڑکپن کی عمر میں جن عقائد و نظریات کا اثر قبول کرتا ہے وہ ساری عمر کے لیے اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انسان کی اس کمزوری کا نقشہ ایک انگریزی نظم The Cage میں بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم میں نے اپنے انٹرمیڈیٹ کے زمانے میں پڑھی تھی۔ اس نظم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ان عادات کے ”پنجرے“ کا قیدی ہے جنہیں وہ لڑکپن کی عمر میں ایک ایک کرکے اپناتا ہے۔ گویا اس پنجرے کی سلاخیں اپنے لیے وہ خود تیار کرتا ہے۔ بقول شاعر :" I built these bars when I was young"”اس پنجرے کی سلاخیں میں نے اس وقت تیار کی تھیں جب میں جوان تھا“۔ جوانی میں انسان کے قویٰ مضبوط ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ اس کے ذہن پر نقش کا لحجر بن جاتا ہے اور پھر اپنی باقی عمر وہ ان عادات و نظریات کا قیدی بن کر پنجرے میں قید پرندے کی مانند گزار دیتا ہے۔ چناچہ یہ منکرین آخرت بھی اپنے غلط عقائد و نظریات کے خود ساختہ پنجروں کے قیدی ہیں۔ ان پنجروں کی سلاخیں وہ اس قدر مضبوط کرچکے ہیں کہ اب انہیں توڑ کر باہر نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔

آیت 5 - سورہ کہف: (بل كذبوا بالحق لما جاءهم فهم في أمر مريج...) - اردو