سورہ کہف: آیت 19 - وجاءت سكرة الموت بالحق ۖ... - اردو

آیت 19 کی تفسیر, سورہ کہف

وَجَآءَتْ سَكْرَةُ ٱلْمَوْتِ بِٱلْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ

اردو ترجمہ

پھر دیکھو، وہ موت کی جاں کنی حق لے کر آ پہنچی، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajaat sakratu almawti bialhaqqi thalika ma kunta minhu taheedu

آیت 19 کی تفسیر

یہ تو ہیں کتاب زندگی کے صفحات اور آخری صفحہ اس دنیا کی زندگی کا الٹایا جا رہا ہے۔

وجاءت سکرۃ ۔۔۔۔۔ منہ تحید (50 : 19) ” پھر دیکھو ، وہ موت کی جان کنی حق لے کر آپہنچی ، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا “۔

موت وہ حقیقت ہے جس سے اللہ کی تمام مخلوقات ڈرتی ہے۔ اور ہر شخص موت کا تصور اپنے ذہن سے محو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ کس طرح ممکن ہے۔ موت ایک ایسا طلبگار ہے جو مطالبے سے تھکتا نہیں۔ یہ اپنی رفتار سے انسان کے قریب ہوتی رہتی ہے۔ اور اس کے قدموں کی رفتار کبھی سست نہیں پڑتی ۔ اور اس کے مقررہ وقت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی۔ موت کے آخری لمحات جنہیں سکرات الموت کہا جاتا ہے۔ اس کے تصور ہی سے انسان کے اعجا کانپ اٹھتے ہیں۔ یہ موت کا منظر اسکرین پر ابھی پیش ہو رہا ہے کہ سوال ہوتا ہے۔

ذلک ما کنت منہ تحید (50 : 19) ” وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا “۔ انسان ابھی تک تو زندہ ہے اس دنیا میں ہے لیکن وہ اس سوال کو سن رہا ہے۔ لیکن جب وہ حقیقتاً جان کنی کے لمحات میں ہوگا اور اس وقت وہ یہ سوال سنے گا تو کیا حالت ہوگی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب آپ ﷺ پر سکرات الموت طاری ہوئے تو آپ ﷺ اپنے چہرۂ مبارک سے پسینہ پونچھ رہے تھے اور فرماتے تھے۔

” سبحان اللہ فی الواقعہ جان کنی کے لمحات ہوتے ہیں “ ۔ آپ یہ کہہ رہے تھے حالانکہ آپ الرفیق الاعلیٰ کی طرف رواں تھے اور اللہ کے لقاء کے مشتاق تھے دوسروں کی حالت کیا ہوگی ؟

یہاں آیت میں ایک لفظ قابل توجہ ہے۔

وجاءت سکرۃ الموت بالحق (50 : 19) ” اور موت کی جان کنی حق لے کر آپہنچی “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب آخری لمحات میں ہوتا ہے تو اسے عالم آخرت نظر آجاتا ہے ۔ تمام حجابات ہٹ جاتے ہیں ، اب یہ جن باتوں سے جاہل تھا وہ اسے معلوم ہوجاتی ہیں۔ وہ بھی اس کے سامنے آجاتی ہیں جن کا وہ انکار کیا کرتا تھا۔ لیکن اب تو وقت گزر جاتا ہے۔ اب دیکھا تو مفید نہیں رہتا۔ اب علم و فضل اور حقائق کا ادراک کس کام کا ! کیونکہ اب توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ ایمان لانا اب مفید نہیں ہے۔ یہ وہ سچائی تھی جس کی وہ تکذیب کرتے تھے اور اس کے بارے میں سخت خلجان میں تھے۔ اب جبکہ انہوں نے اسے پا لیا ہے اور تصدیق کر رہے ہیں تو یہ ادراک اور تصدیق ان کے کسی کام کی نہیں ہے۔

آیت 19{ وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّط } ”اور بالآخر موت کی بےہوشی کا وقت آن پہنچا ہے حق کے ساتھ۔“ موت کا آنا تو قطعی اور برحق ہے ‘ اس سے کسی کو انکار نہیں۔ اللہ کے منکر تو بہت ہیں لیکن موت کا منکر کوئی نہیں۔ { ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ۔ } ”یہی ہے نا وہ چیز جس سے تو بھاگا کرتا تھا !“ اس بات کا انسان کی نفسیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ ہر انسان کی نفسیاتی کمزوری ہے کہ موت کو برحق جانتے ہوئے بھی وہ اس کے تصور کو حتی الوسع اپنے ذہن سے دور رکھنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ وقتی طور پر اگر کسی عزیز کی موت اور تجہیز و تکفین کے موقع پر اپنی موت اور قبر کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آتا بھی ہے تو انسان فوری طور پر اس خیال کو ذہن سے جھٹک کر روز مرہ کے معمولات میں خود کو مصروف کرلیتا ہے۔

آیت 19 - سورہ کہف: (وجاءت سكرة الموت بالحق ۖ ذلك ما كنت منه تحيد...) - اردو