سورہ کہف (50): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Qaaf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ ق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ کہف کے بارے میں معلومات

Surah Qaaf
سُورَةُ قٓ
صفحہ 519 (آیات 16 سے 35 تک)

وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِۦ نَفْسُهُۥ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ ٱلْوَرِيدِ إِذْ يَتَلَقَّى ٱلْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ ٱلْيَمِينِ وَعَنِ ٱلشِّمَالِ قَعِيدٌ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ وَجَآءَتْ سَكْرَةُ ٱلْمَوْتِ بِٱلْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ وَنُفِخَ فِى ٱلصُّورِ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ ٱلْوَعِيدِ وَجَآءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَآئِقٌ وَشَهِيدٌ لَّقَدْ كُنتَ فِى غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ ٱلْيَوْمَ حَدِيدٌ وَقَالَ قَرِينُهُۥ هَٰذَا مَا لَدَىَّ عَتِيدٌ أَلْقِيَا فِى جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيبٍ ٱلَّذِى جَعَلَ مَعَ ٱللَّهِ إِلَٰهًا ءَاخَرَ فَأَلْقِيَاهُ فِى ٱلْعَذَابِ ٱلشَّدِيدِ ۞ قَالَ قَرِينُهُۥ رَبَّنَا مَآ أَطْغَيْتُهُۥ وَلَٰكِن كَانَ فِى ضَلَٰلٍۭ بَعِيدٍ قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا۟ لَدَىَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُم بِٱلْوَعِيدِ مَا يُبَدَّلُ ٱلْقَوْلُ لَدَىَّ وَمَآ أَنَا۠ بِظَلَّٰمٍ لِّلْعَبِيدِ يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ ٱمْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ وَأُزْلِفَتِ ٱلْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ مَّنْ خَشِىَ ٱلرَّحْمَٰنَ بِٱلْغَيْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ ٱدْخُلُوهَا بِسَلَٰمٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ ٱلْخُلُودِ لَهُم مَّا يَشَآءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ
519

سورہ کہف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ کہف کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad khalaqna alinsana wanaAAlamu ma tuwaswisu bihi nafsuhu wanahnu aqrabu ilayhi min habli alwareedi

آیت 16 { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج } ”اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے۔“ یہ اس قوت شرکا ذکر ہے جو انسان کے اندر ہے۔ نفس انسانی کے شر کا ذکر سورة یوسف میں یوں آیا ہے :{ وَمَـآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓ ئِ اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ”اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا ‘ یقینا انسان کا نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے سوائے اس کے جس پر میرا ربّ رحم فرمائے۔ یقینا میرا ربّ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔“فطری طور پر انسان کے اندر داعیہ خیر بھی ہے اور داعیہ شر بھی۔ انسان کی اندرونی قوت شر کو سورة یوسف کی اس آیت میں ”نفس ِامارہ“ کا نام دیا گیا ہے۔ فرائیڈ اسے id یا libido کہتا ہے۔ دوسری طرف انسان کے اندر خیر کی قوت اس کی روح ہے جس کا مسکن قلب انسانی ہے۔ انسان کی روح اسے بلندی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ اس داعیہ یا قوت کو فرائیڈ super ego کا نام دیتا ہے ‘ یعنی ego انسانی انا کا اعلیٰ درجہ۔ فرائیڈ کے دیے ہوئے یہ عنوانات تو کسی حد تک ہمارے لیے قابل قبول ہیں ‘ لیکن ان عنوانات کی تشریح جو اس نے کی ہے اسے ہم درست نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو اس حوالے سے کئی مرتبہ پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ مغربی سائنسدان اور فلاسفرز سب کے سب ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ وہ صرف ”عالم خلق“ یعنی اسباب و علل کی دنیا سے واقف ہیں اور اس میں کوئی کلام نہیں کہ مادی دنیا کے اسرار و رموز کو وہ خوب سمجھتے ہیں۔ اس میدان میں انہوں نے تحقیق و تفتیش کے ایسے معیار قائم کیے ہیں کہ انسانی عقل واقعی دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ”عالم امر“ کے بارے میں وہ بالکل اندھے اور کورے ہیں۔ یعنی ان کے ہاں روح ‘ وحی اور فرشتے وغیرہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”انسان“ کے بارے میں ان کے فلسفیانہ تجزیے اکثر درست نہیں ہوتے۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں انسان کے اندر موجود قوت شر نفس امارہ کا ذکر ہے کہ انسان کا نفس اسے جو پٹیاں پڑھاتا ہے اس کی تفصیلات اس کے خالق سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ { وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ } ”اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے اس قرب کی کیفیت اور نوعیت کے بارے میں ہم کچھ نہیں جان سکتے ‘ بقول شاعر یہ قرب ”بےتکیف و بےقیاس“ ہے : ؎اتصالے بےتکیف بےقیاس ہست ربّ الناس را با جانِ ناس سورة الحدید کی آیت 4 میں بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس قرب کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے : { وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ } کہ تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہم اس ”معیت“ کا تصور نہیں کرسکتے۔ اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور چہرے کا ذکر بھی ہے ‘ اس کا چہرہ کیسا ہے ؟ ہم نہیں جانتے۔ اس کا ہاتھ کیسا ہے ؟ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ وہ کیسے نزول فرماتا ہے ؟ ہم اس کی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ایسے معاملات میں خواہ مخواہ کا تجسس ہمیں فتنوں میں مبتلا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں آخری بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ”عالم امر“ اور اس کی کیفیات ہماری سمجھ سے وراء الوراء ہیں۔ ہم اپنے حواس خمسہ اور عقل و شعور کے ذریعے جو علم حاصل کرسکتے ہیں اس کا تعلق ”عالم خلق“ سے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسی ”دائرے“ میں رہتے ہوئے ‘ سوچیں سمجھیں ‘ تحقیق کریں ‘ نتائج اخذ کریں اور ان نتائج کو بروئے کار لائیں۔ دوسری طرف ”عالم امر“ سے متعلق جو معلومات وحی کے ذریعے ہم تک پہنچیں انہیں من وعن تسلیم کرلیں۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے الفاظ { اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ } میں اسی طرزعمل کی طرف ہماری راہنمائی کی گئی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہمارے لیے بس یہ جان لینا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری رگِ جان سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ اس قرب کی منطق اور کیفیت کے بارے میں ہمیں عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

(اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith yatalaqqa almutalaqqiyani AAani alyameeni waAAani alshshimali qaAAeedun

آیت 17{ اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۔ } ”جبکہ لیتے جاتے ہیں دو لینے والے جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہوتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ خود بھی ہر جگہ ‘ ہر آن موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ہر انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے بھی مقرر کر رکھے ہیں جو اس کے ہر فعل اور عمل کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ سورة الانفطار ‘ آیت 11 میں ان فرشتوں کو ’ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma yalfithu min qawlin illa ladayhi raqeebun AAateedun

آیت 18 { مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۔ } ”وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا ہے مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے۔“ یعنی کوئی انسان جو لفظ بھی اپنی زبان سے بولتا ہے متعلقہ فرشتہ اس کو فوراً ریکارڈ کرلیتا ہے اور ظاہر ہے فرشتوں کی یہ ریکارڈنگ بھی عالم امر کی چیز ہے ‘ اس لیے اس کی کیفیت بھی ہمارے تصور میں نہیں آسکتی۔ ریکارڈنگ کے شعبے میں گزشتہ چند دہائیوں میں انسانی سطح پر جو ترقی دیکھنے میں آئی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب انسان کی ”ریکارڈنگ“ کا معیار یہ ہے اور اس معیار میں مزید ترقی بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی تو اللہ کی قدرت سے جو ریکارڈنگ ہو رہی ہے اس کا معیار کیا ہوگا !

اردو ترجمہ

پھر دیکھو، وہ موت کی جاں کنی حق لے کر آ پہنچی، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajaat sakratu almawti bialhaqqi thalika ma kunta minhu taheedu

آیت 19{ وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّط } ”اور بالآخر موت کی بےہوشی کا وقت آن پہنچا ہے حق کے ساتھ۔“ موت کا آنا تو قطعی اور برحق ہے ‘ اس سے کسی کو انکار نہیں۔ اللہ کے منکر تو بہت ہیں لیکن موت کا منکر کوئی نہیں۔ { ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ۔ } ”یہی ہے نا وہ چیز جس سے تو بھاگا کرتا تھا !“ اس بات کا انسان کی نفسیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ ہر انسان کی نفسیاتی کمزوری ہے کہ موت کو برحق جانتے ہوئے بھی وہ اس کے تصور کو حتی الوسع اپنے ذہن سے دور رکھنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ وقتی طور پر اگر کسی عزیز کی موت اور تجہیز و تکفین کے موقع پر اپنی موت اور قبر کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آتا بھی ہے تو انسان فوری طور پر اس خیال کو ذہن سے جھٹک کر روز مرہ کے معمولات میں خود کو مصروف کرلیتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور پھر صور پھونکا گیا، یہ ہے وہ دن جس کا تجھے خوف دلایا جاتا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanufikha fee alssoori thalika yawmu alwaAAeedi

آیت 20 { وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِط ذٰلِکَ یَوْمُ الْوَعِیْدِ۔ } ”اور صور میں پھونکا جائے گا ‘ یہ ہے وعدے کا دن !“ پہلے انفرادی موت کی بات کی گئی تھی۔ اب اس آیت میں پوری دنیا کی اجتماعی موت کا ذکر ہے۔ جب کسی شخص کو موت آتی ہے تو اس کے لیے تو گویا وہی قیامت ہے۔ اس لیے انسان کی انفرادی موت کو قیامت ِصغریٰ اور تمام انسانوں کی اجتماعی موت کو قیامت کبریٰ کہا جاتا ہے۔ چناچہ گزشتہ آیت میں قیامت صغریٰ کا بیان تھا ‘ اب یہاں قیامت کبریٰ کا نقشہ دکھایا جا رہا ہے۔

اردو ترجمہ

ہر شخص اِس حال میں آ گیا کہ اُس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajaat kullu nafsin maAAaha saiqun washaheedun

آیت 21 { وَجَآئَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَآئِقٌ وَّشَہِیْدٌ۔ } ”اور ہر جان آئے گی اس حالت میں کہ اس کے ساتھ ہوگا ایک دھکیلنے والا اور ایک گواہ۔“ دنیا میں ہر انسان کے ساتھ جو دو فرشتے کِرَامًا کَاتِبِیْنَ مامور ہیں وہی قیامت کے دن اسے لا کر اللہ کی عدالت میں پیش کریں گے۔ ان میں سے ایک فرشتہ اس کا اعمال نامہ اٹھائے ہوئے ہوگا جب کہ دوسرا اسے عدالت کی طرف دھکیل رہا ہوگا۔

اردو ترجمہ

اِس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad kunta fee ghaflatin min hatha fakashafna AAanka ghitaaka fabasaruka alyawma hadeedun

آیت 22 { لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا } ”اللہ فرمائے گا : اے انسان ! تو اس دن سے غفلت میں رہاتھانا !“ { فَـکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ۔ } ”تو آج ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے ‘ تو آج تمہاری نگاہ کتنی تیز ہوگئی ہے۔“ دنیا میں رہتے ہوئے بہت سے حقائق تمہارے لیے پردہ غیب میں تھے۔ وہاں تجھ سے مطالبہ تھا کہ ان حقائق پر بغیر دیکھے ایمان لائو۔ آج غیب کا پردہ اٹھا دیا گیا ہے اور اب تمہاری نظر ہرچیز کو دیکھ سکتی ہے ‘ حتیٰ کہ آج تم اپنے ساتھ آنے والے فرشتوں کو بھی دیکھ رہے ہو۔

اردو ترجمہ

اُس کے ساتھی نے عرض کیا یہ جو میری سپردگی میں تھا حاضر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala qareenuhu hatha ma ladayya AAateedun

آیت 23{ وَقَالَ قَرِیْنُہٗ ہٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌ۔ } ”اور اس کا ساتھی کہے گا : پروردگار ! یہ جو میری تحویل میں تھا ‘ حاضر ہے !“ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں ”ساتھی“ سے فرشتہ مراد ہے ‘ لیکن میں ان لوگوں سے متفق ہوں جو اس سے شیطان مراد لیتے ہیں۔ دراصل خیر اور شر کی قوتیں انسان کے اندر بھی موجود ہیں اور خارج میں بھی۔ اندر سے انسان کا نفس اسے برائی پر ابھارتا ہے ‘ جبکہ خارج میں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان بھی مامور ہے جو اس کے نفس میں ہر وقت وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان کے اندر اس کی روح ”داعی ٔ خیر“ کے طور پر موجود ہے جبکہ خارج میں اس حوالے سے فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں۔ سورة حٰمٓ السجدۃ کی آیات 30 اور 31 میں ان فرشتوں کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں جو نیکی کے کاموں میں انسان کی پشت پناہی کرتے ہیں : { نَحْنُ اَوْلِیٰٓــؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج }۔ فرشتوں کی معیت کے باعث ہی کوئی نیک کام کر کے ہمیں خوشی اور طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ ایسے مواقع پر فرشتے دراصل ہمیں بشارت اور شاباش دے رہے ہوتے ہیں جس کے اثرات ہماری روح پر طمانیت کی صورت میں مرتب ہوتے ہیں۔

اردو ترجمہ

حکم دیا گیا "پھینک دو جہنم میں ہر گٹے کافر کو جو حق سے عناد رکھتا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alqiya fee jahannama kulla kaffarin AAaneedin

آیت 24{ اَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْدٍ۔ } ”اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھونک دو جہنم میں ہر ناشکرے سرکش کو۔“ یہ حکم گویا اس انسان اور اس کے ساتھی شیطان دونوں کے لیے ہوگا۔

اردو ترجمہ

خیر کو روکنے والا اور حد سے تجاوز کرنے والا تھا، شک میں پڑا ہوا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

MannaAAin lilkhayri muAAtadin mureebin

آیت 25{ مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِ۔ } ”جو خیر سے روکنے والا ‘ حد سے بڑھنے والا اور شکوک و شبہات میں مبتلا رہنے والا ہے۔“

اردو ترجمہ

اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خدا بنائے بیٹھا تھا ڈال دو اُسے سخت عذاب میں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee jaAAala maAAa Allahi ilahan akhara faalqiyahu fee alAAathabi alshshadeedi

آیت 26 { نِ الَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ } ”جس نے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ بھی بنا لیا تھا۔“ { فَاَلْقِیٰــہُ فِی الْْعَذَابِ الشَّدِیْدِ۔ } ”تو جھونک دو اس کو بڑے سخت عذاب میں۔“ اس انسان کا شیطان یہ سمجھ رہا ہوگا کہ اس کی اپنی حیثیت ”سرکاری کارندے“ کی ہے جو مجرم کو سزا کے لیے لے کر آیا ہے ‘ لیکن دونوں کو جہنم رسید کرنے کا حکم سن کر وہ فوراً اپنی صفائی میں چلانا شروع کر دے گا۔

اردو ترجمہ

اُس کے ساتھی نے عرض کیا "خداوندا، میں نے اِس کو سرکش نہیں بنایا بلکہ یہ خود ہی پرلے درجے کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala qareenuhu rabbana ma atghaytuhu walakin kana fee dalalin baAAeedin

آیت 27{ قَالَ قَرِیْنُہٗ رَبَّـنَا مَآ اَطْغَیْتُہٗ وَلٰــکِنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍم بَعِیْدٍ۔ } ”اس کا ساتھی شیطان کہے گا : پروردگار ! میں نے اس کو سرکش نہیں بنایا ‘ بلکہ یہ خود ہی بہت دور کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔“ گویا وہ چاہے گا کہ جو انسان اس کی تحویل میں دیا گیا تھا اسے سزا کے لیے وصول کرلیا جائے اور خود اس کی جان بخشی کردی جائے۔

اردو ترجمہ

جواب میں ارشاد ہوا "میرے حضور جھگڑا نہ کرو، میں تم کو پہلے ہی انجام بد سے خبردار کر چکا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala la takhtasimoo ladayya waqad qaddamtu ilaykum bialwaAAeedi

آیت 28{ قَالَ لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَیَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ اِلَـیْکُمْ بِالْوَعِیْدِ۔ } ”اللہ فرمائے گا : اب میرے سامنے جھگڑ 1 مت کرو ‘ جبکہ میں پہلے ہی تمہاری طرف وعید بھیج چکا ہوں۔“ کہ میں نے تو جن و انس پر ’ ’ انذار“ کے حوالے سے اتمامِ حجت کردیا تھا۔ سورة الاحقاف میں ان جنات کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں جو حضور ﷺ سے قرآن سن کر ایمان لائے اور پھر داعیانِ حق بن کر اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ گویا قرآن کا پیغام اور انذار جنات تک بھی پہنچا دیا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma yubaddalu alqawlu ladayya wama ana bithallamin lilAAabeedi

آیت 29{ مَا یُـبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۔ } ”میرے حضور میں بات تبدیل نہیں کی جاسکتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔“ چناچہ اب میرے قانون کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

اردو ترجمہ

وہ دن جبکہ ہم جہنم سے پوچھیں گے کیا تو بھر گئی؟ اور وہ کہے گی کیا اور کچھ ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma naqoolu lijahannama hali imtalati wataqoolu hal min mazeedin

آیت 30{ یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَئْتِ } ”جس دن ہم پوچھیں گے جہنم سے کہ کیا تو بھر گئی ؟“ { وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ۔ } ”اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟“ یعنی وہ کہے گی کہ ابھی تو میرے اندر بہت گنجائش ہے۔ ابھی مزید جنوں اور انسانوں کو میرے اندر ڈالا جائے تاکہ میں بھر جائوں۔

اردو ترجمہ

اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی، کچھ بھی دور نہ ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waozlifati aljannatu lilmuttaqeena ghayra baAAeedin

آیت 31 { وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّـۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ۔ } ”اور جنت قریب لائی جائے گی اہل تقویٰ کے لیے ‘ کچھ بھی دور نہیں ہوگی۔“

اردو ترجمہ

ارشاد ہوگا "یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatha ma tooAAadoona likulli awwabin hafeethin

آیت 32 { ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ } ”ان سے کہا جائے گا یہ ہے جس کا وعدہ تم لوگوں سے کیا جاتا تھا“ { لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ۔ } ”ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اور حفاظت کرنے والا ہو۔“ یعنی اس امانت کی حفاظت کرنے والا جو ہم نے اس کے سپرد کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں جو روح پھونکی ہے وہ اس کے پاس اللہ کی امانت ہے ‘ جیسا کہ سورة الاحزاب کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے : { اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُط } آیت 72 ”ہم نے اس امانت کو پیش کیا آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر تو ان سب نے انکار کردیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا“۔ چناچہ ”حَفِیْظ“ سے ایسا شخص مراد ہے جس نے اس امانت کا حق ادا کیا اور اپنی روح کو گناہ کی آلودگی سے محفوظ رکھا۔ سورة الشعراء میں ایسی محفوظ اور پاکیزہ روح کو ”قلب سلیم“ کا نام دیا گیا ہے : { یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ } ”جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے۔ سوائے اس کے جو آئے اللہ کے پاس قلب ِسلیم لے کر“۔ اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورة الاحزاب کی آیت 72 کی تشریح۔

اردو ترجمہ

جو بے دیکھے رحمٰن سے ڈرتا تھا، اور جو دل گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Man khashiya alrrahmana bialghaybi wajaa biqalbin muneebin

آیت 33 { مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ } ”جو ڈرتا رہا رحمن سے غیب میں ہونے کے باوجود۔“ { وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِ۔ } ”اور لے کر آیا رجوع کرنے والا دل۔“ قلب منیب سے بھی یہاں قلب سلیم ہی مراد ہے۔ یہ ایسے شخص کا ذکر ہے جو دنیا میں اللہ کا فرمانبردار بندہ بن کر رہا۔ اللہ کی امانت کو اس نے پوری حفاظت اور سلامتی کے ساتھ رکھا اور صحیح و سلامت حالت میں لوٹایا۔

اردو ترجمہ

داخل ہو جاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ" وہ دن حیات ابدی کا دن ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Odkhulooha bisalamin thalika yawmu alkhuloodi

آیت 34{ نِ ادْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍ ط ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ۔ } ”ان سے کہا جائے گا : داخل ہو جائو اس جنت میں سلامتی کے ساتھ ‘ اب یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔“ اب ایسا کوئی مرحلہ نہیں آئے گا کہ تمہیں جنت سے نکلنا پڑے۔

اردو ترجمہ

وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ان کے لیے ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahum ma yashaoona feeha waladayna mazeedun

آیت 35{ لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ فِیْہَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ۔ } ”ان کے لیے اس میں وہ سب کچھ ہوگاجو وہ چاہیں گے ‘ اور ہمارے پاس مزید بھی بہت کچھ ہے۔“ قرآن کے مختلف مقامات پر جنت کی نعمتوں کا جو تعارف ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کے تین درجے ہیں۔ نفس انسانی کے بنیادی تقاضوں کی تسکین کا بھرپور سامان تو جنت میں پہلے سے موجود ہوگا۔ اس کے علاوہ ہر شخص اپنی پسند ‘ ذوق اور خواہش کے مطابق جو کچھ طلب کرے گا وہ بھی اسے فراہم کیا جائے گا۔ ظاہر ہے ہر شخص کی طلب اپنے ذوق اور معیار کے مطابق ہوگی۔ ایک سادہ لوح دیہاتی اپنی پسند کے مطابق کوئی چیز مانگے گا اور ایک حکیم و فلسفی اپنے ذوق کی تسکین چاہے گا۔ البتہ اس حوالے سے کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو کچھ بھی طلب نہیں کریں گے ‘ وہ لوگ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ الکہف : 28 کے مصداق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی رضا کے طالب ہوں گے۔ جیسے رابعہ بصری رح کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک مرتبہ جذب کے عالم میں ایک مشعل اور پانی کا لوٹا لیے گھر سے نکلیں۔ لوگوں کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ میں اس آگ سے جنت کو جلانے نکلی ہوں اور اس پانی سے میں جہنم کی آگ کو بجھا دینا چاہتی ہوں تاکہ لوگ اللہ سے خالص اس کی ذات کے لیے محبت کریں نہ کہ جنت کے لالچ اور جہنم کے خوف کی وجہ سے اسے چاہیں۔ بہرحال جنت میں وہ لوگ بھی ہوں گے جنہیں اللہ کی رضا کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے ہوگا۔ جبکہ ان دو اقسام کے علاوہ تیسری قسم کی نعمتیں وہ ہوں گی جو انسانی تصور سے بالاتر ہیں اور آیت زیر مطالعہ کے الفاظ ”وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ“ میں انہی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے۔ سورة السجدۃ میں جنت کی ان نعمتوں کا ذکر اس طرح ہوا ہے : { فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّــآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍج } آیت 17 ”پس کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ ان اہل جنت کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے“۔ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی ہے : قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالاَ عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ، فَاقْرَئُ وْا اِنْ شِئْتُمْ : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ 1”اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے جنت میں وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا گمان ہی گزرا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ”پس کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ ان اہل جنت کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کررکھا گیا ہے۔“

519