سورہ کہف: آیت 17 - إذ يتلقى المتلقيان عن اليمين... - اردو

آیت 17 کی تفسیر, سورہ کہف

إِذْ يَتَلَقَّى ٱلْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ ٱلْيَمِينِ وَعَنِ ٱلشِّمَالِ قَعِيدٌ

اردو ترجمہ

(اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith yatalaqqa almutalaqqiyani AAani alyameeni waAAani alshshimali qaAAeedun

آیت 17 کی تفسیر

اذ یتلقی المتلقین عن الیمین وعن الشمال قعید (50 : 17) ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید (50 : 18) ” دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں۔ ہر چیز ثبت کر رہے ہیں ۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو “ ۔ یعنی جو نگران ہے وہ حاضر باش ہے۔ یعنی عتید رقیب کی صفت ہے۔ یہ مفہوم نہیں ہے جس طرح ذہن میں آتا ہے کہ دو نگرانوں میں سے ایک کا نام رقیب ہے اور دوسرے کا عتید ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح ریکارڈ کرتے ہیں ؟ اس سلسلے میں انسان کو اپنے تخیلات پیش نہ کرنا چاہئے ۔ یہ غیبی امور ہیں اور ان کو اسی طرح قبول کرنا چاہئے جس طرح قرآن میں مذکور ہیں۔ مفہوم پر ہمارا ایمان ہے اور کیفیت کا ہمیں پتہ نہیں ہے۔ اگر کیفیت کا پتہ لگ بھی جائے تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پھر بعض کیفیات ہمارے تجربات کے دائرے ہی میں نہیں ہوتیں اور ہم ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

آج کے دور جدید میں ریکارڈنگ کے وہ طریقے ہم نے دیکھ لیے ہیں جن کا تصور بھی ہمارے آباء و اجداد نہ کرسکتے تھے۔ ان طریقوں سے انسان کی ہر حرکت اور ہر لفظ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ آڈیو ، وڈیو ، ٹیپ ، سینما کی ریل ، اور ٹیلی ویژن کے ٹیپ (اور اب کمپیوٹر اور اس کا نیٹ ورک) یہ تو وسعت آگئی ہے انسانی دائرہ ریکارڈ میں۔ جہاں اللہ اور اس کے عملے کا تعلق ہے تو ان کے پاس ایسے ذرائع اور ایسے طریقے ہوسکتے ہیں جن کا ہم ابھی تک تصور ہی نہیں کرسکتے۔ بس اللہ نے جو اطلاع کردی ہے اس پر یقین کرو۔

ہمیں چاہئے کہ ہم اس حقیقت کے دائرے کے اندر زندہ رہیں جس کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ اور اس شعور کو تازہ کریں کہ ہم جو بات بھی کرتے ہیں جس فعل کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ ہمارے دائیں بائیں اللہ کے کارندے بیٹھے ہوئے ہیں اور لکھ رہے ہیں تا کہ یہ ریکارڈ قیامت میں ہمارے خلاف پیش ہو یا ہمارے حق میں پیش ہو۔ اور یہ حساب ایسا ہے کہ اس سے کوئی بات نہیں چھوٹتی۔

اور ہمیں چاہئے کہ اس حقیقت کو ذہن میں تازہ رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ بس یہی ہمارے لئے کافی ہے اس کی کیفیت ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو۔ جس شکل و صورت میں بھی ہو یہ ریکارڈ تیار ہو رہا ہے۔ اور ہم کسی طرح اس سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔ اللہ نے پیشگی اطلاع ہمیں دے دی ہے تا کہ ہم اس کا خیال رکھیں۔ رہی یہ بات کہ اس کی کیفیت کیا ہے تو یہ ایک عبث جدو جہد ہوگی۔ جن لوگوں نے اس قرآن اور اس کے حقائق اور حضرت محمد ﷺ کی ہدایات سے فائدہ اٹھایا ، ان کا انداز اور طریقہ یہی تھا کہ شعور کو پختہ کرو اور عمل کرو فقط۔

امام احمد نے روایت کی ، ابو معاویہ سے ، انہوں نے محمد ابن عمر ابن علقمہ لیثی سے انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے ان کے دادا سے اور انہوں نے حضرت بلال ابن حارث مزنی سے ، کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ایک آدمی ایک لفظ بولتا ہے جو اللہ کی رضا مندی کا لفظ ہوتا ہے۔ اسے یہ یقین نہیں ہوتا کہ اس لفظ پر اللہ اس سے اپنی رضا مندی لکھ دیتا ہے تاقیامت۔ اور ایک دوسرا شخص ایک لفظ بولتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہوتا ہے اور اس کو یقین نہیں ہوتا کہ یہ لفظ کہاں تک پہنچ گیا ۔ اللہ قیامت تک اس شخص سے ناراضگی لکھ دیتا ہے “۔ کہتے ہیں کہ علقمہ کہا کرتے تھے کہ کتنی ایسی باتیں ہیں جن کے کہنے سے میں بلال ابن حارث کی حدیث کی وجہ سے رک گیا۔ (ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ) ۔

امام احمد سے روایت ہے کہ وہ سکرات الموت میں فریاد کر رہے تھے انہوں نے سنا کہ یہ فریاد بھی لکھی جا رہی ہے تو خاموش ہوگئے اور ان کی روح پرواز کرگئی۔ یوں یہ حضرات قرآنی ہدایات کو لیتے تھے۔ اور یوں تھی ان کی زندگی۔

آیت 17{ اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۔ } ”جبکہ لیتے جاتے ہیں دو لینے والے جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہوتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ خود بھی ہر جگہ ‘ ہر آن موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ہر انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے بھی مقرر کر رکھے ہیں جو اس کے ہر فعل اور عمل کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ سورة الانفطار ‘ آیت 11 میں ان فرشتوں کو ’ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

آیت 17 - سورہ کہف: (إذ يتلقى المتلقيان عن اليمين وعن الشمال قعيد...) - اردو