ماکان ۔۔ من ولد (91 : 53) ” اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے “۔ وہ اس سے بہت بلند ہے۔ اس کا یہ کام نہیں ہے اور نہ اس کو اس کی ضرورت ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ بیٹا تو ان لوگوں کی ضرورت ہے جو فنا ہونے والے ہیں۔ وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کسی کو اپنا بیٹا بناتے ہیں ‘ پھر ایک ضعیف والد کو آخری عمر میں مدد کے لئے بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ باقی اور لازوال ہے ‘ وہ قادر مطلق ہے ‘ کسی کا محتاج نہیں ہے اور تمام کائنات اس کے کلمہ کن سے بنتی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے ہوجاتا ‘ محض اس کا ارادہ اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ‘ لہٰذا اسے نہ اولاد اور نہ شریک کی ضرورت ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بات اس پر ختم ہوتی ہے کہ اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ‘ لہٰذا صرف اسی خدائے واحد کی عبادت کرو۔
آیت 35 مَا کَانَ لِلّٰہِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍلا سُبْحٰنَہٗط اِذَا قَضآی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کے سلسلے میں باپ کا حصہ اللہ تعالیٰ کے ایک حرف ”کُن“ کے ذریعے سے پورا ہوا ‘ جبکہ باقی سارا عمل عام فطری اور طبعی طریقے سے تکمیل پذیر ہوا۔ اسی لیے آپ علیہ السلام کو کلمۃٌ منہُ آل عمران : 45 یعنی اللہ کا خاص کلمہ قرار دیا گیا ہے۔