اس صفحہ میں سورہ Maryam کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ مريم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
فکلی و اشربی و قری عینا (91 : 62) ” تو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ “ یہ خوشگوار طعام و شراب اسعتمال کرو اور بچے کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈا کرو اور اگر کوئی سوال کرے تو اشاروں سے یہ کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں ، میں نے روزے کی نذر مانی ہے ، عبادت اور ذکر الٰہی کے لئے کٹ گئی ہوں ، آج میں کسی سے بات نہ کروں گی کسی کو اس کے سوال کا جواب نہ دوں گی۔
ہمارا خیال ہے کھجور کے اس درخت کو ہلانے سے قبل وہ بےحد خوفزدہ ہوگئی ہوگی ، نہایت ہی پریشانی کا وقت اس پر گزرا ہوگا ، لیکن جب درخت کے ہلاتے ہی اس پر تازہ کھجوریں ٹپک پڑیں تو وہ سمجھ گئی ہوگی کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔ اسے اللہ نے نہیں چھوڑا اور یہ کہ حجت الہیہ اس کے پاس ہے۔ یہ بچہ جو ولادت ہوتے ہی باتیں کرتا ہے ، یہ حجت الہیہ ہے اس لئے یہ باتیں اس معجزے کی تفسیر کردیں گی ، جو اس بچے کی ولادت کے سلسلے میں ظہور پذیر ہوا۔
اب اگلا نہایت ہی موثر منظر دیکھیے :
جب یہ آتی ہے تو پوری قوم کے چہرے سیاہ نظر آتے ہیں ، یہ لوگ اس کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی شریف ، پاکدامن اور ہیکل کو بخشی ہوئی متبرک بیٹی ، عبادت گزار اور اچھی شہرت والی راہبہ ، ایک بچے کو اٹھائے چلی آرہی ہے۔ وہ اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے تھے۔
قالوایمریم لقد جئت شیئاً فریا (82) ” یاخت ھرون مکان ابوک امرا سوء وما کانت املک بغیاً (82) (91 : 82-82) لوگ کہنے لگے ” اے مریم ، یہ تو تو نے بڑا باپ کر ڈالا۔ اے ہارون کی بہن ، نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیرا ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی۔ “ ان کی زبانوں کی کاٹ تیز ہے کہ تو نے تو بہت ہی مگر وہ کام کر ڈالا۔ طعنے دینے لگے اور تو تو ہارون کی بہن ہے ، جو نبی ہیں ، جو اس ہیکل کے متولی رہے ہیں اور اس کے بعد ان کی اولاد اس ہیکل کی وارث رہی ہے۔ تمہاری نسبت اس طرف ہے کہ تو اس ہیکل کی راہبہ ہے اور یہاں عبادت کے لئے وقف ہے۔ کیا اس نسبت ، اس مقام ، اس حیثیت اور اس مکروہ فعل کے درمیان کوئی نسبت ہے۔ تمہارا باپ بھی ایسا نہ تھا ، تمہاری ماں بدکار نہ تھی۔ یہ جو کام تو نے کیا ہے یہ تو بدکار لوگوں کی بہن بیٹیاں کرتی ہیں۔ عصمت فروش طبقات کے ہاں ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں۔
مریم وہی کرتی ہیں جس کا اس معجزانہ بچے نے ان کو بوقت پیدائش مشورہ دے دیا تھا۔
فاشارت الیہ (91 : 92) ” مریم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ “ اس عجیب صورتحال کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ تعجب اور غیظ و غضب اور شرمندگی میں یہ لوگ مریم کے در پے ہوئے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ ان کی بیٹی ان کے سامنے برملا ایک بچہ اٹھائے چلی آرہی ہے۔ وہ ان لوگوں کے غیض و غضب کو اہمیت نہیں دیتی ، خاموش ہوجاتی ہے اور بچے کی طرف اشارہ کردیتی ہے کہ پوچھو اس سے سارے واقعہ کا راز ، اور وہ جل بھن کر کہتے ہیں :
قالوا کیف نکلم من کان فی المھد صبیاً (91 : 92) ” ہم اس سے کیا بات کریں جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے۔ “
اب ایک دوسرا معجزہ رونما ہوتا ہے :
یوں حضرت عیسیٰ یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ، وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں ، جس طرح بعض عیسانی فرقے دعویٰ کرتے ہیں۔ نہ وہ بذات خود الہ ہیں جس طرح بعض دور سے فرقے عقیدہ رکھتے ہیں ۔ نہ یہ بات ہے کہ وہ تینوں کا ایک ہیں اور تین الہ واحد ہیں جیسا کہ ایک دوسرا فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ نے مجھے نبی بنایا ہے۔ نہ بیٹا بنایا ہے اور نہ شریک۔ مجھ میں برکت ڈلای ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ پوری زندگی میں نماز ادا کروں اور زکوۃ رپ عمل کروں۔ والدہ کے ساتھ حسن سلوک کروں اور فیملی کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھوں۔ خود میری زنگدی محدود ہے۔ موت کے لئے ایک دن مقرر ہے۔ مروں گا ، پھر اٹھایا جائوں گا۔ اللہ نے میرے لئے سلامتی ، امن ، اطمینان کا پورا پورا سامان کردیا ہے ، ولادت کے وقت بھی ، موت کے وقت بھی اور بعث بعد موت کے وقت بھی۔
یہ آیت حضرت عیسیٰ کی موت اور بعث بعد موت پر نص صریح ہے۔ اس میں کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی اور نہ اس میں بحث کی کوئی گنجائش ہے۔
قرآن مجید یہ منظر پیش کر کے اس پر کسی اور بات کا اضافہ نہیں کرتا۔ یہ تفصیلات نہیں دی جاتیں کہ اس معجزے کے بعد قوم کا ردعمل کیا ہوا۔ اس کے بعد مریم اور ان کے اس ذی شان بچے کا کیا بنا۔ جس نبوت کی طرف انہوں نے اپنے کلام میں اشارہ کیا تھا وہ انہیں کب ملی کیونکہ انہوں نے کہا تھا۔
اتنی الکتب وجعلنن نبیاً (91 : 03) ” مجھے اس نے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔ “ کیونکہ اس جگہ قرآن کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا خارق عادت معجزہ پیش کردیا جائے اور جب بات اس حیران کن اور معجزانہ کلام تک پہنچتی ہے تو پردہ گرتا ہے تاکہ اس کے بعد وہ اصل بات نہایت ہی مثبت ، فیصلہ کن انداز میں کی جائے کیونکہ یہ بہتر موقعہ ہے کہ اس مقام پر نہایت ہی سنجیدہ لہجے میں اصل بات کہہ دی جائے۔
یہ ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اصل حقیقت ‘ نہ ان لوگوں کی بات درست ہے جو ان کو الہٰ بناتے ہیں۔ نہ ان لوگوں کی بات درست ہے جو ان کی ولادت کے بارے میں ان کی والدہ محترمہ کو متہم کرتے ہیں۔ ان کی ولادت ‘ ان کی نشوونما اور مرتبہ و مقام کی یہی حقیقت ہے۔ یہی قول حق ہیجس میں لوگ شک کرتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں۔ وہ زبانی طور پر اس کی تصدیق کرتے ہیں اور حالات قصہ بھی یہی بتاتے ہیں۔
ماکان ۔۔ من ولد (91 : 53) ” اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے “۔ وہ اس سے بہت بلند ہے۔ اس کا یہ کام نہیں ہے اور نہ اس کو اس کی ضرورت ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ بیٹا تو ان لوگوں کی ضرورت ہے جو فنا ہونے والے ہیں۔ وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کسی کو اپنا بیٹا بناتے ہیں ‘ پھر ایک ضعیف والد کو آخری عمر میں مدد کے لئے بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ باقی اور لازوال ہے ‘ وہ قادر مطلق ہے ‘ کسی کا محتاج نہیں ہے اور تمام کائنات اس کے کلمہ کن سے بنتی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے ہوجاتا ‘ محض اس کا ارادہ اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ‘ لہٰذا اسے نہ اولاد اور نہ شریک کی ضرورت ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بات اس پر ختم ہوتی ہے کہ اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ‘ لہٰذا صرف اسی خدائے واحد کی عبادت کرو۔
وان اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صراط مستقیم (91 : 63) ” اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ‘ بس تم اسی کی بندگی کرو ‘ یہی سیدھی راہ ہے “۔ لہٰذا عیسیٰ کی شہادت اور ان کے قصے کی اس شہادت کے بعد اب اوہام اور اساطیر اور قصے ‘ کہانیوں کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ یہ تبصرہ مشیت اور قرار داد کی صورت میں کیا گیا ہے۔
اس تقریر اور قرار داد کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مختلف پارٹیوں کے اختلافات پر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ اس حقیقت کے آنے کے بعد اب ان اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
فاختلف الاحزاب من بینھم (91 : 73) ” مگر پھر مختلف گروہ باہم اختلاف کرنے لگے “۔ قیصر روم آفنطین نے پادریوں کیا یک مجلس منعقد کی تھی جس میں دو ہزار ایک سو ستر (0712) پادری شریک ہوئے تھے ۔ یہ مجلس ان کی تین مجالس میں سے ایک تھی۔ اس میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں ان کے درمیان شدید اختلاف ہوگیا۔ ہر فرقے نے اپنا موقف بیان کیا۔ بعض نے کہا کہ وہ خدا ہے جو زمین پر اترا ‘ جس کو چاہا زندہ کیا ‘ جس کو چاہا مارا اور پھر وہ آسمانوں پر چلا گیا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ وہ ابن اللہ ہے ‘ بعض نے کہا کہ وہ اقاینم خلاثہ میں سے ایک ہیں ‘ باپ بیٹا اور روح القدس ۔ بعض نے کہا کہ وہ تینوں میں سے ایک ہیں ‘ یعنی اللہ بھی الہٰ ہے وہ بھی الہٰ ہیں اور والدہ بھی الہٰ ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ اللہ کیب ندے ‘ اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ ان بڑے اقوال کے علاوہ اور فرقوں نے بھی کئی اقوال پیش کئے۔ کسی عقیدے پر تین صداسی افراد سے زیادہ کا انفاق نہ ہوا ۔ یہ تعداد ایک قول پر جمع ہوگئی۔ قیصر روم اس کی طرف مائل ہوگیا اور اس قول کے ماننے والوں کی امداد کی اور دوسروں کو ختم کردیا ‘ خصوصاً اہل توحید کو نیست ونابود کردیا۔
حضرت عیسیٰ کے بارے میں غلط عقائد کا تعین چونکہ مذہبی پیشوائوں کی مجالس نے کیا تھا ‘ اس لیے یہاں سیاق کلام ان لوگوں کو ڈراتا ہے جنہوں نے توحید کے علاوہ دوسرے عقائد اختیار کئے۔ ان کو ڈرایا جاتا ہے ‘ اس دن سے ‘ جس میں ان مجالس کے مقابلے میں زیادہ لوگ جمع ہوں گے اور یہ لوگ دیکھیں گے کہ کافروں کا انجام کس قدر عبرت ناک ہوگا۔
ان لوگوں کے لئے اس دن بہت بڑی ہلاکت ہوگی ‘ بہت بڑا خوفناک منظر ہوگا ‘ وہ عظیم اور خوفناک منظر جن وانس سب دیکھ رہ ہوں گے ‘ ملائکہ بھی حاضر ہوں گے۔ اس اللہ کے سامنے سب لوگ کھڑے ہوں جس کے ساتھ ان احزاب نے شرک کیا۔
یہاں اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں کہ ان لوگوں کی حالت دیدنی ہوگی کہ یہ لوگ یہاں اس دنیا میں دلائل ہدایت سے منہ موڑ رہے تھے ‘ لیکن وہاں تو ان کے کان بھی اچھی طرح سن رہے ہوں گے اور آنکھیں بھی اچھی طرح دیکھ رہی ہوں گی۔
اسمع بھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فی ضلل مبین (91 : 83) ” جب وہ ہمارے سامنے اضر ہوں گے اس روز تو ان کے کان بھی خوب سن رہے ہوں گے ‘ اور ان کی آنکھیں بھی خوب دیکھ رہی ہوں گی مگر آج یہ ظالم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں “۔ آج ان کی حالت یہ ہے کہ نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں جبکہ آج سننا اور دیکھنا ہدایت کا سبب بن سکتا ہے۔ لیکن جس دن سننا اور دیکھنا شرمندگی کا باعث ہوگا اس دن یہ خوب سن اور دیکھ رہے ہوں گے۔ اس دن یہ ایسی چیزیں دیکھیں گے جو دیکھنے کے قابل نہ ہوں گی اور ایسی چیزی سنیں گے جسے سننا نہ چاہیں گے۔ یہ ہوگا مشد عظیم کا دن۔