سورہ ہود: آیت 6 - ۞ وما من دابة في... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ ہود

۞ وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِى كِتَٰبٍ مُّبِينٍ

اردو ترجمہ

زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama min dabbatin fee alardi illa AAala Allahi rizquha wayaAAlamu mustaqarraha wamustawdaAAaha kullun fee kitabin mubeenin

آیت 6 کی تفسیر

اللہ کے علم محیط کی یہ ایک دوسری شکل ہے۔ نہایت ہولناک ، ذرا زمین پر چلنے والے حیوانات اور رینگنے والے کیڑے مکوڑوں پر غور کریں ، ہر وہ چیز جو زمین پر حرکت کرتی ہے وہ دابہ ہے

زمین پر حرکت کرنے والے لاتعداد اور بیشمار دواب (جانداروں) میں سے جو کچھ بھی ہے ، زمین کے اطراف و اکناف میں سے جہاں بھی ہے ، اوپر ہے یا اندر ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے۔ صرف علم بھی نہیں بلکہ اللہ ان کو رزق بھی فراہم کرتا ہے اور اللہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ کہاں قرار و سکون حاصل کرتے ہیں اور کہاں سونپے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ سب دواب اللہ کے علم محیط کے ضبط اور کنٹرول میں ہیں۔

یہ اللہ کے علم الہی کی نہایت ہی واضح مثال ہے۔ یہ علم ہر وقت مخلوقات کے ساتھ وابستہ رہتا ہے۔ جب انسان اس وسیع علم کے بارے میں سوچتا ہے اور اسے اپنے محدود تصور میں لانا چاہتا ہے تو وہ کانپ اٹھتا ہے اور اس کے تصور ہی سے عاجز آجاتا ہے۔

اب صرف علم کی بات نہیں ہے۔ دواب ارض کی اس ناقابل تصور تعداد کے ہر فرد کے لیے اللہ نے رزق کی کفالت بھی اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ اس زمین میں ہر مخلوق کے لیے وسائل رزق پیدا کیے ہیں اور ہر چیز کو یہ قوت دی ہے کہ وہ بقدر ضرورت رزق حاصل کرے۔ بعض کا رزق بہت سادہ ہے۔ بعض اپنے لیے رزق پیدا کرتے ہیں بعض مصنوعات اور مرکبات اپنے لیے تیار کرتے ہیں اور اب دور جدید میں تو ذرائع رزق بہت ہی پھیلے ہوئے اور متنوع ہیں۔ بعض مخلوق ایسی ہے کہ وہ زندہ مخلوق کے خون پر پلتی ہے مثلا مچھر اور پسو وغیرہ۔

اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح پیدا کیا اور جس طرح اس کے اوپر منوع مخلوقات کو وجود بخشا ، اسی طرح ان کے وسائل رزق بھی مہیا کیے۔ اور ہر ایک مخلوق کو اس کی تکنیک تخلیق کے مطابق استعداد اور وسائل بھی فراہم کیے۔ خصوصاً دواب ارض میں سے انسان ہماری توجہ اور مطالعہ کا زیادہ مستحق ہے جو خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ جسے تحلیل و تجزیہ اور ترکیب اور صنعت کی استعداد بھی دی گئی ہے۔ وہ ترقی اور پیداوار میں بھی آگے جاسکتا ہے۔ وہ اس کرہ ارض کے چہرے کو بھی بدل سکتا ہے۔ زندگی کے رنگ ڈھنگ بدلتا رہتا ہے۔ وہ اپنے لیے متنوع وسائل رزق مہیا کرتا ہے لیکن وہ کسی چیز کی تخلیق نہیں کرسکتا۔ اللہ نے اس زمین کے اندر جو وسائل ودیعت کردیے صرف انہی میں ردو بدل کرتا ہے اور یہ ردو بدل اور تحلیل و ترکیب بھی وہ ان قوانین فطرت کے مطابق کرتا ہے جو اللہ نے اس کائنات کے اندر وضع کیے ہیں اس طرح یہ زمین اپنے زندہ دواب کے لیے ہر قسم کی ضروریات فراہم کرتی ہے۔

اللہ کے ذمے رزق ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سعی کے بغیر کسی کس کوئی رزق مل سکتا ہے یا اگر کوئی بیٹھ جائے تو بھی اسے ضرور ملے گا یا سسی اور منفی رویے سے وہ ضائع نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے غلط طور پر سمجھا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر اسباب اور وسائل اللہ نے کیوں مقرر فرمائے۔ اور یہ کیوں لازم کیا کہ اسباب کو اختیار کیا جائے اور اسباب وسائل کو قوانین قدرت کا حصہ پھر کیوں بنایا اور پھر اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتیں کیوں دیں اور ان وسائل و اسباب کے کام میں لانے کے سوا دنیا کی تعمیر و ترقی کیسے ممکن ہوگئی حالانکہ یہ سب کچھ اللہ کے علم میں تھا اور اللہ نے اس غرض کے لیے انسان کو اس کرہ ارض پر خلیفہ بنایا تاکہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔

ہر مخلوق کے لیے رزق مقرر ہے ، یہ حق ہے۔ لیکن یہ رزق اس کائنات کے اندر ودیعت شدہ ہے اور اللہ کی سنت کے مطابق ہر مخلوق کے لیے مقدر اور متعین ہے۔ اور سنت الہی یہی ہے کہ ہر شخص اپنے مقد رکے لیے جدوجہد کرے گا۔ لہذا سعی و جدوجہد کو کوئی شخص ترک نہ کرے جبکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ آسمانوں سے سونے اور چاندی کی بارش نہیں ہوا کرتی بلکہ پانی کی بارش ہوتی ہے اور ہر قسم کا رزق زمین کے اندر پوشیدہ ہے۔ اور تمام مخلوقات کے لیے یہ کافی ہے۔ بشرطیکہ یہ مخلوق خدا سنن الہیہ کے مطابق اس کی تلاش کرے اور سنن الہیہ کسی کی رو رعایت نہین کرتیں۔

دنیا میں معاملہ کسب اور عمل پر ہے۔ کسب و عمل یا طیب ہوگا یا خبیث اور گندہ ہوگا۔ دونوں کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ دونوں کی نوعیت میں فرق ہے اور نتائج جدا جدا ہیں۔ حلال ، حلال ہے اور حرام ، حرام ہے۔

یہاں دواب کے لیے فقط رزق کا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ اس سے قبل مومنین کے لیے رزق حسن کہا گیا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں کے لیے سیاق میں بہترین الفاظ کا انتخاب کرنا قرآن مجید کا ایک خاص اسلوب ہے۔ الفاظ کا انتخاب موقعہ و محل اور ماحول کے مطابق ہوتا ہے۔

یہ دو آیات اس رب کی تعریف اور شان کے بیان کا آغاز ہیں جس کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ لوگ صرف اس کی بندگی اور غلامی کریں۔ کیونکہ وہی عالم ہے ، محیط ہے ، رزاق ہے ، کوئی شخص اس کی ریاست میں بھوکا نہیں رہتا اور یہ تعریف باری تعالیٰ اور یہ حمد ربی ضروری ہے تاکہ بندے اور مخلوق اور خالق کے درمیان حقیقی تعلق پیدا ہو اور لوگ صحیح طرح علی وجہ البصیرت رب اور خالق کی اطاعت اور بندگی کریں۔

۔۔۔۔

آیت 6 وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ الاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر تقسیم رزق کا جو نظام وضع کیا ہے اس میں اس نے ہر جاندار کے لیے اس کی ضروریات زندگی فراہم کردی ہیں۔ بچے کی پیدائش بعد میں ہوتی ہے مگر اس کے لیے ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن جہاں کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ اللہ کے اس نظام اور اس کے قوانین کو پس پشت ڈال کر کوئی ایسا نظام یا ایسے قوانین وضع کرے جن کے تحت ایک فرد کے حصے کا رزق کسی دوسرے کی جھولی میں چلا جائے ‘ تو رزق یا دولت کی تقسیم کا خدائی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ اس لوٹ کھسوٹ کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کہیں دولت کے بےجا انبار لگیں گے اور کہیں بیشمار انسان فاقوں پر مجبور ہوجائیں گے۔ لہٰذا جہاں کہیں بھی رزق کی تقسیم میں کوئی کمی بیشی نظر آئے تو سمجھ لو کہ اس کا ذمہ دار خودانسان ہے۔ وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَامُستَقَر اور مستودَع دونوں الفاظ کی تشریح سورة الانعام کی آیت 98 میں تفصیل کے ساتھ ہوچکی ہے۔ وہاں ان الفاظ کے بارے میں تین مختلف اقوال بھی زیر بحث آ چکے ہیں۔کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ وہی روشن اور واضح کتاب جو علم الٰہی کی کتاب ہے۔

ہر مخلوق کا روزی رساں ہر ایک چھوٹی بڑی، خشکی تری کی مخلوق کا روزی رساں ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی ان کے چلنے پھرنے آنے جانے، رہنے سہنے، مرنے جینے اور ماں کے رحم میں قرار پکڑنے اور باپ کی پیٹھ کی جگہ کو جانتا ہے۔ امام بن ابی حاتم نے اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام کے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں فاللہ اعلم۔ یہ تمام باتیں اللہ کے پاس کی واضح کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جسے فرمان ہے (وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ 38؀) 6۔ الانعام :38) یعنی زمین پر چلنے والے جانور اور اپنے پروں پر اڑنے والے پرند سب کے سب تم جیسی ہی امتیں ہیں، ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کئے جائیں گے۔ اور فرمان ہے (وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ 59؀) 6۔ الانعام :59) یعنی غیب کی کنجیاں اسی اللہ کے پاس ہیں۔ انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خشکی تری کی تمام چیزوں کا اسے علم ہے جو پتہ جھڑتا ہے اس کے علم میں ہے کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں اور کوئی تر و خشک چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب میں نہ ہو

آیت 6 - سورہ ہود: (۞ وما من دابة في الأرض إلا على الله رزقها ويعلم مستقرها ومستودعها ۚ كل في كتاب مبين...) - اردو