سورہ ہود (11): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Hud کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ هود کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ ہود کے بارے میں معلومات

Surah Hud
سُورَةُ هُودٍ
صفحہ 222 (آیات 6 سے 12 تک)

۞ وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِى كِتَٰبٍ مُّبِينٍ وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُۥ عَلَى ٱلْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِنۢ بَعْدِ ٱلْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ إِنْ هَٰذَآ إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ ٱلْعَذَابَ إِلَىٰٓ أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُۥٓ ۗ أَلَا يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ وَلَئِنْ أَذَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَٰهَا مِنْهُ إِنَّهُۥ لَيَـُٔوسٌ كَفُورٌ وَلَئِنْ أَذَقْنَٰهُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ ٱلسَّيِّـَٔاتُ عَنِّىٓ ۚ إِنَّهُۥ لَفَرِحٌ فَخُورٌ إِلَّا ٱلَّذِينَ صَبَرُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوحَىٰٓ إِلَيْكَ وَضَآئِقٌۢ بِهِۦ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا۟ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَآءَ مَعَهُۥ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَآ أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ وَكِيلٌ
222

سورہ ہود کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ ہود کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama min dabbatin fee alardi illa AAala Allahi rizquha wayaAAlamu mustaqarraha wamustawdaAAaha kullun fee kitabin mubeenin

اللہ کے علم محیط کی یہ ایک دوسری شکل ہے۔ نہایت ہولناک ، ذرا زمین پر چلنے والے حیوانات اور رینگنے والے کیڑے مکوڑوں پر غور کریں ، ہر وہ چیز جو زمین پر حرکت کرتی ہے وہ دابہ ہے

زمین پر حرکت کرنے والے لاتعداد اور بیشمار دواب (جانداروں) میں سے جو کچھ بھی ہے ، زمین کے اطراف و اکناف میں سے جہاں بھی ہے ، اوپر ہے یا اندر ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے۔ صرف علم بھی نہیں بلکہ اللہ ان کو رزق بھی فراہم کرتا ہے اور اللہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ کہاں قرار و سکون حاصل کرتے ہیں اور کہاں سونپے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ سب دواب اللہ کے علم محیط کے ضبط اور کنٹرول میں ہیں۔

یہ اللہ کے علم الہی کی نہایت ہی واضح مثال ہے۔ یہ علم ہر وقت مخلوقات کے ساتھ وابستہ رہتا ہے۔ جب انسان اس وسیع علم کے بارے میں سوچتا ہے اور اسے اپنے محدود تصور میں لانا چاہتا ہے تو وہ کانپ اٹھتا ہے اور اس کے تصور ہی سے عاجز آجاتا ہے۔

اب صرف علم کی بات نہیں ہے۔ دواب ارض کی اس ناقابل تصور تعداد کے ہر فرد کے لیے اللہ نے رزق کی کفالت بھی اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ اس زمین میں ہر مخلوق کے لیے وسائل رزق پیدا کیے ہیں اور ہر چیز کو یہ قوت دی ہے کہ وہ بقدر ضرورت رزق حاصل کرے۔ بعض کا رزق بہت سادہ ہے۔ بعض اپنے لیے رزق پیدا کرتے ہیں بعض مصنوعات اور مرکبات اپنے لیے تیار کرتے ہیں اور اب دور جدید میں تو ذرائع رزق بہت ہی پھیلے ہوئے اور متنوع ہیں۔ بعض مخلوق ایسی ہے کہ وہ زندہ مخلوق کے خون پر پلتی ہے مثلا مچھر اور پسو وغیرہ۔

اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح پیدا کیا اور جس طرح اس کے اوپر منوع مخلوقات کو وجود بخشا ، اسی طرح ان کے وسائل رزق بھی مہیا کیے۔ اور ہر ایک مخلوق کو اس کی تکنیک تخلیق کے مطابق استعداد اور وسائل بھی فراہم کیے۔ خصوصاً دواب ارض میں سے انسان ہماری توجہ اور مطالعہ کا زیادہ مستحق ہے جو خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ جسے تحلیل و تجزیہ اور ترکیب اور صنعت کی استعداد بھی دی گئی ہے۔ وہ ترقی اور پیداوار میں بھی آگے جاسکتا ہے۔ وہ اس کرہ ارض کے چہرے کو بھی بدل سکتا ہے۔ زندگی کے رنگ ڈھنگ بدلتا رہتا ہے۔ وہ اپنے لیے متنوع وسائل رزق مہیا کرتا ہے لیکن وہ کسی چیز کی تخلیق نہیں کرسکتا۔ اللہ نے اس زمین کے اندر جو وسائل ودیعت کردیے صرف انہی میں ردو بدل کرتا ہے اور یہ ردو بدل اور تحلیل و ترکیب بھی وہ ان قوانین فطرت کے مطابق کرتا ہے جو اللہ نے اس کائنات کے اندر وضع کیے ہیں اس طرح یہ زمین اپنے زندہ دواب کے لیے ہر قسم کی ضروریات فراہم کرتی ہے۔

اللہ کے ذمے رزق ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سعی کے بغیر کسی کس کوئی رزق مل سکتا ہے یا اگر کوئی بیٹھ جائے تو بھی اسے ضرور ملے گا یا سسی اور منفی رویے سے وہ ضائع نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے غلط طور پر سمجھا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر اسباب اور وسائل اللہ نے کیوں مقرر فرمائے۔ اور یہ کیوں لازم کیا کہ اسباب کو اختیار کیا جائے اور اسباب وسائل کو قوانین قدرت کا حصہ پھر کیوں بنایا اور پھر اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتیں کیوں دیں اور ان وسائل و اسباب کے کام میں لانے کے سوا دنیا کی تعمیر و ترقی کیسے ممکن ہوگئی حالانکہ یہ سب کچھ اللہ کے علم میں تھا اور اللہ نے اس غرض کے لیے انسان کو اس کرہ ارض پر خلیفہ بنایا تاکہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔

ہر مخلوق کے لیے رزق مقرر ہے ، یہ حق ہے۔ لیکن یہ رزق اس کائنات کے اندر ودیعت شدہ ہے اور اللہ کی سنت کے مطابق ہر مخلوق کے لیے مقدر اور متعین ہے۔ اور سنت الہی یہی ہے کہ ہر شخص اپنے مقد رکے لیے جدوجہد کرے گا۔ لہذا سعی و جدوجہد کو کوئی شخص ترک نہ کرے جبکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ آسمانوں سے سونے اور چاندی کی بارش نہیں ہوا کرتی بلکہ پانی کی بارش ہوتی ہے اور ہر قسم کا رزق زمین کے اندر پوشیدہ ہے۔ اور تمام مخلوقات کے لیے یہ کافی ہے۔ بشرطیکہ یہ مخلوق خدا سنن الہیہ کے مطابق اس کی تلاش کرے اور سنن الہیہ کسی کی رو رعایت نہین کرتیں۔

دنیا میں معاملہ کسب اور عمل پر ہے۔ کسب و عمل یا طیب ہوگا یا خبیث اور گندہ ہوگا۔ دونوں کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ دونوں کی نوعیت میں فرق ہے اور نتائج جدا جدا ہیں۔ حلال ، حلال ہے اور حرام ، حرام ہے۔

یہاں دواب کے لیے فقط رزق کا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ اس سے قبل مومنین کے لیے رزق حسن کہا گیا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں کے لیے سیاق میں بہترین الفاظ کا انتخاب کرنا قرآن مجید کا ایک خاص اسلوب ہے۔ الفاظ کا انتخاب موقعہ و محل اور ماحول کے مطابق ہوتا ہے۔

یہ دو آیات اس رب کی تعریف اور شان کے بیان کا آغاز ہیں جس کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ لوگ صرف اس کی بندگی اور غلامی کریں۔ کیونکہ وہی عالم ہے ، محیط ہے ، رزاق ہے ، کوئی شخص اس کی ریاست میں بھوکا نہیں رہتا اور یہ تعریف باری تعالیٰ اور یہ حمد ربی ضروری ہے تاکہ بندے اور مخلوق اور خالق کے درمیان حقیقی تعلق پیدا ہو اور لوگ صحیح طرح علی وجہ البصیرت رب اور خالق کی اطاعت اور بندگی کریں۔

۔۔۔۔

اردو ترجمہ

اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے اب اگر اے محمدؐ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو گری ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa allathee khalaqa alssamawati waalarda fee sittati ayyamin wakana AAarshuhu AAala almai liyabluwakum ayyukum ahsanu AAamalan walain qulta innakum mabAAoothoona min baAAdi almawti layaqoolanna allatheena kafaroo in hatha illa sihrun mubeenun

اب اس سے آگے رب کریم کی شان کا ایک دوسرا رخ پیش کیا جاتا ہے۔ رب کریم کی قدرت کے بعض و آثار اور مظاہر پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کی حکمت اور کارکردگیوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ دیکھو ، اللہ نے زمین اور آسمانوں کو کس قدر حکیمانہ انداز دیا ہے۔ یہاں اس کائنات کے ان پہلوؤں کو سامنے لایا جاتا ہے جو عمل ، حساب و کتاب ، اور بعث بعد الموت کے عقائد کے ساتھ متناسب ہوں بلکہ یہ تصور دیتے ہوں :

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭ وَلَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُوْلَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْــرٌ مُّبِيْن : اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ جب کہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اب اگر اے نبی ، تم کہتے ہو کہ لوگو ! مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے ، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے۔

اللہ نے زمین و آسمان کو چھو دنوں میں پیدا کیا ، اس موضوع پر ہم سورت یونس میں بات کر آئے ہیں۔ وہاں یہ بات سیاق وسباق میں آئی تھی۔ وہ یہ تھا کہ اس کائنات کے قوانین فطرت جن کے مطابق زمین و آسمان چلتے ہیں اور اس نظام کے درمیان جن کے مطابق لوگوں کی زندگی چلتی ہے ، ربط اور مطابقت ہے۔

لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (تاکہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے) یہاں جو نئی بات ہے وہ یہ ہے ، خلق آسمان و زمین کے بیان کے بعد ایک جملہ معترضہ ہے۔

وکان عشہ علی الماء (جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا) اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے عمل میں وہ جس طرح کہ موجودہ شکل میں ہیں اس تک پہنچنے سے پہلے یہاں پانی تھا اور اللہ کا عرش پانی پر تھا۔

یہ پانی کیسے تھا ، یہ پانی کہاں تھا اور اس کی حالت کیا تھی ، اور اس کے بعد عرش الہی کس طرح تھا ، اس آیت میں ان امور کی کوئی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔ جن مفسرین کو اپنے مبلغ علم کی حدود کا علم ہے۔ وہ اس سے زیادہ بہرحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ غیبی امور ہیں اور ان کے بارے میں اللہ نے ہمیں فقط یہی معلومات دی ہیں جو اس آیت میں ہیں اور محدود ہیں۔

ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ ہم قرآنی نصوص کی تائید میں سائنسی نظریات پیش کریں۔ خواہ کوئی نص کسی سائنسی نظریے کے ساتھ منطبق کیوں نہ ہو اس لیے کہ سائنسی نظریات بار بار بدلتے ہیں بلکہ الٹتے رہتے ہیں علماء طبیعیات جب کوئی نظریہ پیش کرتے اور سائنسی تجربات کرکے اسے ثابت کرتے ہیں تو وہ اس جدید نظریے کو سابقہ نظریات کے مقابلے میں تکوینی مظاہر سے زیادہ قریب پاتے ہیں جبکہ نص قرآنی بذات خود صادق اور حق ہے۔ چاہے سائنس اس حق اور حقیقت تک پہنچ سکی ہو یا نہیں۔ پھر سائنسی حقیقت اور سائنسی نظریات کے درمیان فرق بھی ہے۔ سائنسی حقیقت وہ ہوتی ہے جو تجربے میں آجائے۔ اگرچہ تجربات بھی ہمیشہ احتمالی رہتے ہیں ، قطعی نہیں ہوتے۔ رہے سائنسی نظریات تو وہ مفروضوں پر مبنی ہوتے ہیں اور یہ مفروضے بعض کائنات مظاہر یا چند مظاہر کے مجموعے کی بنا پر قائم کیے جاتے ہیں اور ان میں ہر وقت تبدیلی ہوسکتی ہے۔ اس لیے نہ ہم ان نظریات سے قرآن کی تائید کرسکتے ہیں اور نہ ان نظریات پر قرآن سے استدلال کرسکتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کا طریقہ کار اور ہے اور سائنس کا اور۔ اس طرح قرآن اور سائنس کے موضوعات کار بھی مختلف ہیں۔

ہمارے دور میں قرآن کریم میں بعض سائنسی نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ طرز فکر نصوص قرآن پر ہمارے ایمان کے منافی ہے۔ قرآن کریم حکیم اور خبیر کی طرف سے ہے ، یہ غلطی اس لیے کی جاتی ہے کہ ہم سائنس کو اپنے دائرہ کار کے اندر محدود نہیں رکھتے۔ اور اسے اپنے دائرے سے وسعت دیتے ہیں۔ یہ در اصل ہماری اخلاقی اور ذہنی شکست خوردگی ہے۔ جبکہ ایسا کرنے والے لوگ اپنے اس فعل کو خدمت قرآن سمجھتے ہیں۔ اور اس طرح اپنے ایمان کو ثابت کرتے ہیں۔ وہ ایمان جسے سائنس کے کسی اصول سے ثابت کیا جاتا ہے ، میں یہ کہوں گا کہ ایسے ایمان پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ محل نظر ہے۔ قرآن کریم اصل الاصول ہے اور سائنسی نظریات اس کے موافق ہوں یا مخالف ، قرآن کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ رہے وہ سائنسی حقائق جو تجربات سے ثابت ہیں تو ان کے دائرہ کار اور قرآن کے دائرہ کار میں فرق ہے۔ دونوں موضوعات ہی مختلف ہیں۔ قرآن کریم نے سائنسی حقائق کے دریافت کے کام کو عقل انسانی کے لیے چھوڑ دیا ہے اور اسے مکمل آزادی دی ہے کہ وہ اس میدان میں کام کرے اور تجربے کرکے جن نتائج تک پہنچا جاسکتا ہو ، پہنچا جائے۔ قرآن کریم نے اپنے ذمے صرف یہ ڈیوٹی لی ہے کہ عقل انسانی کی تربیت صحیح سلامت اور سمتقیم انداز میں کرے۔ اور اسے وہم و خرافات اور دیومالائی سوچ سے باہر نکالے۔ اس طرح قرآن نے اپنے ذمہ یہ کام لیا ہے کہ انسانی زندگی کے درست چلن کے لیے ایک نظام تجویز کرے جس کے دائرے کے اندر عقل انسانی بھی درست راہ پر آگے بڑھے اور آزاد ہو کر امن و سلامتی کے ساتھ رہے اور اپنے محدود اور مخصوص دائرے میں کام کرے تاکہ اصول کی روشنی میں جزوی حقائق دریافت کرے۔ قرآن کریم نے سائنسی حقائق کا تذکرہ شاذ و نادر ہی کیا ہے مثلاً یہ کہ تمام جاندار پانی سے زندہ ہیں اور پانی ان کی زندگی کا اہم عنصر ہے۔ مثلاً تمام زندہ جانور اور نباتات جوڑے جوڑے پیدا ہوئے ہیں۔ اور جوڑوں کے ملاپ سے زندگی انسانی ، حیوانی اور نباتاتی اشکال میں نشوونما پاتی ہے۔ یہ وہ بعض حقائق ہیں جن کا قرآن نے تذکرہ کیا ہے (تفصیلات کے لیے دیکھئے پارہ دوئم اور پارہ ہفتم)

اس جملہ معترضہ کے بعد ہم دوبارہ قرآنی آیت کی طرف آتے ہیں :

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ جب کہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

آسمان اور زمین کو چھ دنوں کے اندر پیدا کیا۔ اس کے بعد کئی فقرے اور جملے محذوف ہیں۔ ان پر بعد کی عبارت دلالت کرتی ہے یعنی اس عرصے میں اسے پیدا کرکے انسان کی رہائش کے لیے اسے صالح اور کار آمد بنایا گیا۔ زمین میں سب چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کیا اور آسمانوں میں وہ انتظام کیا تاکہ تم یہاں زندہ رہ سکو اور اللہ کی ذات اس پوری کائنات پر حاوی ہے۔

ِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (تاکہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پوری کائنات کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اس کی کنجیاں اور کنٹرول ہے اور یہ سب انتظام انسان کی آزمائش کے لیے ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ آزمائش ایک اہم معاملہ ہے ، اور یہ محض کھیل تماشا نہیں ہے بلکہ ایک بامقصد اور سنجیدہ اسکیم ہے۔ اور انسان کی تخلیق ایک با مقصد منصوبے کے تحت ہوئی ہے۔

جس طرح اللہ نے زمین و آسمان کو اس طرح تیار کیا ہے کہ وہ جنس انسان کے لیے ممد و معاون ہوں ، اسی طرح جنس انسان کو بھی ایک مخصوص اور جیب صلاحیت اور قوت دی ہے۔ انسان کی تخلیق بھی اسی قانون فطرت کے مطابق ہوئی ہے ، جس کے مطابق اس کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ لیکن انسان کے اس تکوینی پہلو کے علاوہ اسے ایک صلاحیت اختیار و ارادے کی بھی دی ہے۔ اس اختیاری صلاحیت کی وجہ سے وہ کبھی راہ ہدایت اختیار کرتا ہے اور اللہ اس کے ساتھ معاونت کرتا ہے اور اسے ہدایت مل جاتی ہے اور کبھی وہ راہ ضلالت اختیار کرتا ہے اور اللہ بھی اسے ڈھیل دیتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہے تاکہ وہ عمل کریں اور یہ اس کی جانب سے ایک آزمائش ہے کہ کون اچھی راہ لیتا ہے اور کون بری۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو آزماتا اور ڈھیل دیتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ اللہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ تو پہلے سے جانتا ہے۔ آزمائش اور عمل کے ذریعے در اصل لوگوں کے خفیہ اعمال لوگوں پر ظاہر ہوجاتے ہیں اور پھر وہ ان اعمال پر جزا پاتے ہیں۔ اور اس طرح اللہ نے یہ اسکیم تیار فرمائی۔

اس لیے بعث بعد الموت اور جزاء و سزا کے عمل کا سر انجام پانے سے انکار اس فضا میں عجیب ہی لگتا ہے۔ کیونکہ قانون مکافات عمل ایک تکوینی مقانون ہے۔ اور یہ اس کائنات کے اصول میں سے ایک مستقل اور بنیادی اصول ہے۔ اور جو لوگ اس اصول کی تکذیب کرتے ہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ ان کا رویہ معقول رویہ نہیں ہے۔ اور ایسے لوگ اس کائنات کے عظیم اصولوں کے ادراک سے محروم ہیں۔ اپنی اس ناقص سوچ ہی کی وجہ سے وہ تعجب کرتے ہیں کہ انسان پھر اٹھے گا ، یہ ایک عجیب بات ہوگی :

وَلَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُوْلَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ۔ اب اگر اے نبی ، تم کہتے ہو کہ لوگو ! مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے ، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے۔

بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ بعث بعد الموت کو عجیب سمجھنے والوں کا یہ قول عجیب و غریب ہے اور مذکورہ بالا واقعات کی روشنی میں اس سے زیادہ جھوٹ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

۔۔۔

وہ جس طرح بعث بعد الموت کی تکذیب کرتے ہیں اور اس کائنات کے اٹل اصولوں کی روشنی میں نہیں سمجھتے ، اسی طرح دنیاوی عذاب الہی اور تکوینی ہلاکت آفرینیوں کو بھی سمجھ نہیں پا رہے وہ یہ پوچھتے ہیں کہ ان پر پھر عذاب الہی نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ حالانکہ اس میں تاخیر بھی بوجہ حکمت ہے۔ اللہ ہر کسی کو مہلت دیتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور اگر ہم ایک خاص مدت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اُسے روک رکھا ہے؟ سنو! جس روز اُس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walain akhkharna AAanhumu alAAathaba ila ommatin maAAdoodatin layaqoolunna ma yahbisuhu ala yawma yateehim laysa masroofan AAanhum wahaqa bihim ma kanoo bihi yastahzioona

قرون اولیٰ کی اقوام پر ایسے ایسے عذاب نازل ہوئے ، جن کی وجہ سے ان اقوام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا لیکن تباہ اور فنا کردینے والے یہ عذاب اس وقت آئے جب رسول اپنی قوم کے سامنے معجزات پیش کرچکے اور انہوں نے معجزات کے باوجود تکذیب جاری رکھی۔ یہ ہمہ گیر تباہی اس لیے آتی رہی کہ اس وقت کی رسالتیں وقتی رسالتیں تھیں ، ایک محدود پیریڈ کے لیے تھیں اور بسا اوقات وہ ایک نسل کے لیے تھیں اور ان معجزات کا مشاہدہ بھی وہی لوگ کرسکتے تھے جو موجود تھے۔ یہ معجزات مسلسل اور جاری اور باقی نہ ہوتے تھے تاکہ بعد میں آنے والی نسلیں بھی انہیں دیکھ سکیں جیسا کہ پہلی نسل نے دیکھا تھا۔

رسالت محمدی کی نوعیت سابقہ رسالتوں سے ذرا مختلف ہے۔ آپ خاتم الرسل ہیں۔ تمام نسلوں کے لیے رسول ہیں اور آپ کو جو معجزہ دیا گیا وہ مادی معجزہ نہیں ہے۔ یہ ایسا معجزہ ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ آنے والی نسلیں بھی اسے دیکھ سکتی ہیں اور اس پر تدبر کرسکتی ہیں اور نسلاً بعد نسل اس پر ایمان لا سکتی ہیں۔ اس لیے اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ آپ کی امت پر ایسا عذاب نازل نہ ہو جس کے ذریعے اسے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے بلکہ یہ عذاب افراد پر نازل ہو اور یہی صورت اللہ نے ان اقوام کے لیے اختیار کی جن کو کتاب دی گئی تھی۔ کس کتابی قوم کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا گیا

لیکن مشرکین مکہ کی حالت یہ تھی کہ وہ نہ تو اس کائنات کے نظام تخلیق اور اس کے لیے اللہ کے تجویز کردہ قانون قدرت کو سمجھتے تھے اور یہ بات سمجھتے تھے کہ اس کائنات کے اندر اللہ نے انسان کو آزادی اور اختیار کے ساتھ کام کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں اور اسے نیک و بد اختیار کرنے کی آزادی ہے اور زمین کی تخلیق اس طرح ہے کہ وہ انسان کی آزادی و ارادہ کے لیے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اپنے اس جہل کی وجہ سے وہ بعث بعد الموت کا انکار کرتے تھے اور اپنی اس جہالت ہی کی وجہ سے وہ پوچھتے تھے کہ اللہ نے ان کی تکذیب اور انکار کے باوجود ابھی تک انہیں ہلاک کیوں نہیں کیا۔ وہ نہ جانتے تھے کہ موجودہ رسالت اور سابقہ رسالتوں کے لیے اللہ نے کیا اصول طے کر رکھے ہیں چناچہ وہ پوچھتے تھے کہ کئی سال گزر گئے اور عذاب نہیں آ رہا ہے۔ یہ لوگ نہ تو اللہ کی حکمت سے واقف تھے اور نہ ہی اللہ کی رحمت سے۔ ان کو معلوم نہ تھا کہ جب یہ عذاب آئے گا تو اسے پھر کوئی بھی پھیر نہ سکے گا بلکہ وہ پوری طرح انہیں گھیر لے گا اور یہ ان کے استہزاء اور بدعملی کی سزا ہوگی ، اور وہ نہایت ہی خود سری کی صورت میں سوالات کر رہے تھے۔

اَلَا يَوْمَ يَاْتِيْهِمْ لَيْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ۔ سنو ! جس روز اس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی سنجیدہ فرد اور صاحب ایمان شخص عذاب الہی کے نزول کے مطالبہ میں جلدی نہیں کرتا۔ اگر عذاب الہی نہیں آتا تو اس میں بھی کوئی حکمت ہوگی اور اللہ کی رحمت اس میں مانع ہوگی تاکہ جو لوگ ایمان کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ایمان لے آئیں۔

مثلاً قریش پر اللہ نے عذاب نازل کرنے میں جلدی نہیں کی۔ ان کو مہلت دی جاتی رہی۔ اس عرصے میں بیشمار لوگ ایمان لائے۔ ایمان لا کر پھر انہوں نے اسلام کے لیے کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ اور کفار کے ہاں بھی کئی ایسے بچے پیدا ہوئے جنہوں نے بعد کے ادوار میں اسلام کی خدمات سر انجام دیں۔ یہ اور ایسی ہی دیگر معلوم اور نامعلوم حکمتیں ہوسکتی ہیں ، جو جلد باز لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتیں۔

اردو ترجمہ

اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walain athaqna alinsana minna rahmatan thumma nazaAAnaha minhu innahu layaoosun kafoorun

تفسیر آیات 9 تا 11:۔ یہ لوگ مطالبہ نزول عذاب میں بےصبری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، انسانی مزاج کے اس پہلو پر یہاں مزید روشنی ڈالی جا رہی ہے کہ انسان کسی حالت پر بھی ثابت قدم اور صحیح رائے قائم کرنے میں صحیح الفکر نہیں ہوتا۔ اس کی نفسیات یہ ہیں :

اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی ، ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو وہ کہتا ہے میرے سارے دلدر پار ہوگئے ، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔

انسان فطرتاً جلد باز اور پر تقصیرات ہے اور ان آیات (آیات 9 تا 11) میں اس کی کیا ہی اچھی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ اس قدر کوتاہ نظر ہے کہ صرف حاضر حالات ہی کو دیکھ سکتا ہے اور اپنے اوپر وہی حالات طاری کردیتا ہے جو اس کے ماحول پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ نہ ماضی پر غور کرنے کی تکلیف کرتا ہے اور نہ مستقبل کی فکر کرتا ہے۔ کبھی وہ اس قدر مایوس ہوجاتا ہے کہ اسے کسی بھلائی کی اور اچھے حالات کی امید نہیں رہتی۔ اور اگر اچھے دن گزرتے ہیں تو وہ تمام گزشتہ نعمتوں کا انکار کردیتا ہے۔ حالانکہ یہ تو اللہ کی جانب سے ایک انعام و اکرام تھا۔ اس کا کوئی استحقاق نہ تھا اور مشکلات کے بعد اگر اس کے اچھے دن آجائیں تو وہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے ، غرور کرتا ہے۔ نہ وہ مشکلات بردشت کرکے اللہ کے رحم و کرم کا امیدوار ہوتا ہے اور نہ اپنی خوشی میں اعتدال اختیار کرتا ہے اور خوشیوں اور نعمتوں کے زوال کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے۔

اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ۔ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ یعنی انہوں نے انعامات و اکرامات پر بھی صبر کیا اور مشکلات پر بھی صبر کیا۔ مشکلات میں تو بیشتر لوگ صبر کرتے ہیں اپنی خود داری اور سفید پوشی کی وجہ سے اور اس لیے کہ ان کی کمزوری اور مشکلات کا لوگوں کو پتہ نہ لگ جائے۔ لیکن کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خوشحالی اور مالداری میں اپنے آپ کو سنبھال سکتے ہیں اور غرور اور سرکشی سے اپنے آپو کو بچا سکتے ہیں۔ تاہم جو لوگ اچھی روش بحال رکھتے ہیں ، مشکلات میں بھی اور خوشحالی میں بھی اچھے کام کرتے ہیں اور نعمتوں کا شکر کا دا کرتے ہیں یعنی وعملوا الصلحات کے پیکر ہوتے ہیں ان کے متعلق ارشاد ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ۔ وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ اس لیے کہ انہوں نے مشکلات میں صبر کیا اور خوشحالی میں انہوں نے سنجیدگی اور اعتدال سے کام لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک سنجیدہ اور مخلص اور سچا ایمان ہی انسان کو نہایت ہی مشکل حالات میں کافرانہ مایوسی سے بچاتا ہے۔ اسی طرح سچا ایمان باللہ ہی انسان کو اس کی خوشحالی اور فراوانی میں کبر و غرور سے بچاتا ہے۔ غرض قلب انسانی کو یہ سچا ایمان ہی اچھے اور برے دونوں حالات میں متوازن اور مستقیم رکھتا ہے۔ اور قلب مومن اچھی طرح بندھا ہوا ہوتا ہے۔ مشکلات اور مصائب ڈانواں ڈول نہیں ہوتا اور خوشحالی اور مالداری میں پھولتا نہیں اور یوں اہل ایمان کی دونوں حالات اچھے رہتے ہیں اور اہم مقام صرف مومنین کو ملتا ہے جس طرح حضور نے فرمایا۔

اردو ترجمہ

اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دلدر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walain athaqnahu naAAmaa baAAda darraa massathu layaqoolanna thahaba alssayyiatu AAannee innahu lafarihun fakhoorun

اردو ترجمہ

اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa allatheena sabaroo waAAamiloo alssalihati olaika lahum maghfiratun waajrun kabeerun

اردو ترجمہ

تو اے پیغمبرؐ! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اُن چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کر نے سے) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں اور اِس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے "اس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا" یا یہ کہ "اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا" تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FalaAAallaka tarikun baAAda ma yooha ilayka wadaiqun bihi sadruka an yaqooloo lawla onzila AAalayhi kanzun aw jaa maAAahu malakun innama anta natheerun waAllahu AAala kulli shayin wakeelun

اللہ کی مخلوقات میں سے جو لوگ سنن الہیہ سے واقف نہیں ہوتے ، اللہ کی حکمت تخلیق سے وہ بےبہرہ ہوتے ہیں۔ وہ کم فہم ، غافل ، مایوس ، متکبر اور جھوٹی باتوں پر فخر کرنے والے ہوتے ہیں جن کو معلوم نہیں ہے کہ رسولوں کے بھیجنے کی حکمت کیا ہوتی ہے اور پھر یہ کہ رسول انسانوں میں سے کیوں بھیجے گئے ہیں اس قسم کے لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ خود رسول فرشتہ کیوں نہیں ہے یا اس کے ساتھ فرشتہ مامور کیوں نہیں ہے ؟ یہ لوگ رسول اور رسالت کے مقام سے اس قدر بیخبر ہوتے ہیں کہ رسول کے لیے مالدار ہونا ضروری خیال کرتے ہیں۔ یہ لوگ جھوٹے عقائد میں گم رہتے ہیں اور یہ لوگ تکذیب کے لیے اس قسم کے بھونڈے جواز تلاش کرتے ہیں۔ لہذا آپ متاثر نہ ہوں۔

۔۔

لعل کا مفہوم یہاں استفہامی ہے۔ اگرچہ خالص استفہامی نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نفس انسانی سے شاید متوقع یہی ہے کہ ایسے حالات میں وہ تنگ دل ہوجائے اور اس کام ہی کو چھوڑ دے۔ کیونکہ لوگ جہالت اور عناد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اور اس قسم کی بوگس اور لا یعنی تجاویز پیش کر رہے ہیں ، جن کو رسالت کے مزاج اور اس کی عمل نوعیت اور منصب کے ساتھ کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس صورت حالات کے بارے میں ایک متبادل اور ناقابل عمل صورت پیش کرکے سوال کرتا ہے کہ حالات گو برے ہیں لیکن آپ ان میں کیا اپنی دعوت اور ما انزل اللہ کا کچھ چھوڑ سکتے ہیں ، شاید کہ وہ اس جاہلیت اور بغض وعناد کا مظاہر نہ کریں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ آپ ان باتوں کو تو چھوڑ نہیں سکتے۔

انما انت نذیر (آپ تو خبر دار کرنے والے ہیں) آپ کے فرائض تو یہی ہیں کہ آپ پورا پورا پیغام پہنچا کر لوگوں کو ڈرائیں۔ اور ڈرانا اس لیے ضروری ہے کہ وہ لوگ ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں کہ انہیں ڈارنا ضروری ہے لہذا آپ اپنے فرائض سر انجام دیتے چلے جائیں۔

وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ۔ آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے۔ اللہ ہی ان سب کا ذمہ دار ہے اور وہ اپنی سنت کے مطابق جس طرح چاہے گا ، انہیں پھیر دے گا۔ اور اس کے بعد جو کچھ وہ کمائیں گے اس کی جزاء و سزا دے گا۔ آپ ان کے ذمہ دار یا حوالہ دار نہیں ہیں۔ نہ آپ ان کے کفر کے ذمہ دار ہیں اور ایمان کے۔ آپ تو فقط نذیر ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں اسلامی تحریک کس قدر مشکل حالات سے گزر رہی تھی اور اس دور میں آپ کے دل پر کس قدر بوجھ تھا۔ خصوصاً جبکہ تحریک کے حامی اور مددگار اور خاندانی معاون فوت ہوگئے تھے۔ حضور ﷺ کے دل پر پریشانی کا غلبہ تھا۔ اور مسلمانوں کی قلیل تعداد مشکلات میں گھری ہوئی تھی اور ہر طرف مایوسی کے باد چھائے ہوئے تھے۔

اس آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ کس قدر مشکل حالات تھے اور ان حالات میں حضور اکرم ﷺ کو اللہ کی جانب سے کس قدر تسلی اور اطمینان دلایا جا رہا تھا اور آپ کے اعصاب کو کس قدر سکون اور تازگی عطا ہو رہی تھی۔

222