اور پھر یہ کتاب۔
تنزیل من حکیم حمید (41 : 42) “ یہ حمید و حکیم کی نازل کردہ ہے ”۔ اس کی تعمیر ہی میں حکمت پنہان ہے۔ اس کے طریق نزول اور اس کی ہدایات سے حکمت عیاں ہے۔ لہٰذا جس رب تعالیٰ نے اسے نازل کیا ہے ، وہ حمد کثیر کا مستحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں بار بار حمد و ثنا کے لئے ابھارا گیا ہے۔
اب قرآن کو کتب سابقہ کے ساتھ مربوط کیا جاتا ہے ۔ رسول اللہ اور تمام انبیائے سابقہ کے درمیان ایسا تعلق قائم کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ہی محفل ہے ، ایک خاندان ہے ، ان کی بات بھی ایک ہے ، ان کی روح اور قلب بھی ایک ہیں۔ طریقہ دعوت بھی ایک ہے۔ یوں ہر ایک مسلمان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے درخت کا پتہ ہے جس کے اندر بیشمار پتے ہیں اور جس کی جڑیں گہری ہیں اور یہ کہ وہ ایک ایسی محفل کا ممبر ہے جو آدم (علیہ السلام) سے شروع ہوتی ہے :
آیت 42{ لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ } ”باطل اس پر حملہ آور ہو ہی نہیں سکتا ‘ نہ اس کے سامنے سے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔“ اس دورئہ ترجمہ قرآن کے دوران بار بار میں مثالیں دیتا رہا ہوں کہ قرآن کس طرح اپنی حفاظت کرتا ہے اور کس طرح ان لوگوں کے عزائم کو ناکام بناتا ہے جو اس کی آیات کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں یا کسی آیت کی تعبیر اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔ { تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } ”اس کا اتارا جانا ہے ایک حکیم اور حمید ہستی کی طرف سے۔“