اس صفحہ میں سورہ Fussilat کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ فصلت کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 39{ وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً } ”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم زمین کو دیکھتے ہو کہ وہ دبی پڑی ہے“ یعنی زمین کی وہ کیفیت کہ جب وہ بنجر اور ویران ہوتی ہے اور اس پر روئیدگی وغیرہ کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ { فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ } ”پھر جب ہم اس پر پانی برسادیتے ہیں تو اس میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ ابھر آتی ہے۔“ بارش کے برستے ہی زمین سے طرح طرح کے نباتات اگنے لگتے ہیں جیسے کہ مردہ زمین میں جان پڑگئی ہو۔ { اِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰیط اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} ”یقینا وہ اللہ جس نے اس کو زندہ کیا ہے وہی ُ مردوں کو بھی زندہ کرے گا۔ یقینا وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“
آیت 40{ اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا } ”جو لوگ ہماری آیات کے بارے میں کج روی اختیار کرتے ہیں وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔“ { اَفَمَنْ یُّلْقٰی فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْٓ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ } ”تو کیا وہ شخص جو آگ میں جھونک دیا جائے گا وہ بہتر ہوگا یا وہ کہ جو قیامت کے دن امن کی حالت میں آئے گا !“ { اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْلا اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ} ”تم کیے جائو جو بھی کرنا چاہتے ہو ‘ وہ خوب دیکھ رہا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔“ قبل ازیں ہم آیت 5 میں مشرکین کی طرف سے حضور ﷺ کے لیے اس کھلے چیلنج کے بارے میں پڑھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا : فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَکہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں کرلیں ‘ ہم بھی آپ کی ہر کوشش کا توڑ کریں گے اور آپ کی اس دعوت کو چلنے نہیں دیں گے۔ زیر مطالعہ جملے میں دراصل اسی چیلنج کا جواب ہے۔
آیت 41{ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَآئَ ہُمْ } ”یقینا وہ لوگ جنہوں نے اس یاد دہانی کا انکار کیا جبکہ یہ ان کے پاس آگئی۔“ اس سے آگے اس مفہوم کے الفاظ محذوف ہیں کہ ”اب ان لوگوں کی شامت آنے والی ہے“۔ نوٹ کیجیے کہ اس سورت میں یہاں تیسری مرتبہ قرآن کا ذکر آیا ہے۔ اس سے پہلے آیت 3 اور آیت 26 میں بھی قرآن کا ذکر آچکا ہے۔ یہاں قرآن کو ”الذکر“ یعنی یاد دہانی قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب تو اس گواہی کو اجاگر کرکے تمہارے سامنے لا رہی ہے جو پہلے سے تمہاری فطرت کے اندر مخفی ہے۔ اللہ کی معرفت اور اس کی محبت تو تمہاری ارواح کے اندر پہلے سے موجود تھی لیکن تمہاری عدم توجہی کی وجہ سے اس معرفت پر غفلت اور ذہول کے پردے پڑگئے تھے ‘ جس کے نتیجے میں تم اپنی فطرت کی اصل پہچان کو بھول کر اللہ ہی کو بھول گئے تھے۔ سورة الحشر کی آیت 19 میں اہل ایمان کو اسی حوالے سے تاکید کی گئی ہے : { وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْط } کہ اے اہل ایمان ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو نتیجتاً اللہ نے انہیں ایسا کردیا کہ وہ خود اپنے آپ ہی کو بھول گئے۔ چناچہ یہاں قرآن کو ”الذکر“ کہہ کر گویا اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ کتاب انسانی فطرت میں مضمرمعرفت خداوندی کے ابدی سبق کی یاد دہانی کے لیے آئی ہے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس یاد دہانی کا انکار کردیا ہے اب ان کی شامت آنے والی ہے۔ { وَاِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ} ”انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بلاشبہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔“
آیت 42{ لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ } ”باطل اس پر حملہ آور ہو ہی نہیں سکتا ‘ نہ اس کے سامنے سے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔“ اس دورئہ ترجمہ قرآن کے دوران بار بار میں مثالیں دیتا رہا ہوں کہ قرآن کس طرح اپنی حفاظت کرتا ہے اور کس طرح ان لوگوں کے عزائم کو ناکام بناتا ہے جو اس کی آیات کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں یا کسی آیت کی تعبیر اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔ { تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } ”اس کا اتارا جانا ہے ایک حکیم اور حمید ہستی کی طرف سے۔“
آیت 43{ مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ } ”اے نبی ﷺ ! نہیں کہا جاتا آپ سے مگر وہی کچھ جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا تھا۔“ { اِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِیْمٍ } ”یقینا آپ کا رب مغفرت والا بھی ہے اور دردناک سزا دینے والا بھی۔“
آیت 44{ وَلَوْ جَعَلْنٰـہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا } ”اور اگر ہم نے اسے عجمی قرآن بنایا ہوتا“ نوٹ کیجیے یہ پانچویں مرتبہ قرآن کا ذکر آیا ہے اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اگر ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کے بجائے کسی عجمی زبان میں نازل کیا ہوتا : { لَّقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ } ”تو یہ کہتے کہ اس کی آیات واضح کیوں نہیں کی گئیں !“ { ئَ اَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّط } ”کیا کتاب عجمی اور مخاطب عربی ؟“ ایسی صورت میں اس پر یہ اعتراض وارد ہوسکتا تھا کہ جس کتاب کی اولین مخاطب ایک عربی قوم ہے وہ خود کسی اور زبان میں ہے ! { قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَآئٌ} ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے کہ یہ ہدایت اور شفا ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔“ { وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ} ”اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے“ { وَّہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی } ”اور یہ قرآن ان کے حق میں اندھا پن ہے۔“ یعنی یہ لوگ قرآن کی حقیقت کو نہیں دیکھ پا رہے۔ { اُولٰٓئِکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍم بَعِیْدٍ } ”یہ وہ لوگ ہیں جو پکارے جاتے ہیں بہت دور کی جگہ سے۔“ انہیں قرآن کی باتیں عجیب اور نا مانوس لگتی ہیں۔ قرآن کی تعلیمات کے بارے میں انہیں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں کوئی بہت دور سے پکار رہا ہو۔
آیت 45{ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْہِ } ”اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام ٰ کو بھی کتاب دی تھی ‘ تو اس میں بھی اختلاف کیا گیا۔“ { وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ } ”اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے مابین فیصلہ کردیا جاتا۔“ اللہ تعالیٰ کی تقویم میں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے ‘ اسی طرح ان کے فیصلے کا بھی اللہ تعالیٰ نے ایک وقت طے کررکھا ہے۔ اگر یہ وقت پہلے سے طے نہ ہوتا تو ان کا فیصلہ اب تک چکا دیا جاتا۔ { وَاِنَّہُمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ } ”اور یقینا وہ اس کے بارے میں خلجان انگیز شک میں مبتلا ہیں۔“ یہاں مِنْہُ سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی پہلے انہوں نے خواہ مخواہ اختلافات کھڑے کیے۔ لیکن جب ہم نے ان اختلافات کی وضاحت کے لیے یہ کتاب بھیج دی تو اب وہ اس کے بارے میں ایسے شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے ہیں جس نے انہیں سخت خلجان اور الجھن میں ڈال دیا ہے اور وہ اس میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آیت 46{ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْہَا } ”جو کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اپنے ہی لیے کرتا ہے ‘ اور جو کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر آئے گا۔“ { وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۔ } ”اور آپ کا رب کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے اپنے بندوں کے حق میں۔“