سورہ فصیلات: آیت 39 - ومن آياته أنك ترى الأرض... - اردو

آیت 39 کی تفسیر, سورہ فصیلات

وَمِنْ ءَايَٰتِهِۦٓ أَنَّكَ تَرَى ٱلْأَرْضَ خَٰشِعَةً فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِىٓ أَحْيَاهَا لَمُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰٓ ۚ إِنَّهُۥ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ

اردو ترجمہ

اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہے، پھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا، یکایک وہ پھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے یقیناً جو خدا اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ مُردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے یقیناً وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamin ayatihi annaka tara alarda khashiAAatan faitha anzalna AAalayha almaa ihtazzat warabat inna allathee ahyaha lamuhyee almawta innahu AAala kulli shayin qadeerun

آیت 39 کی تفسیر

ہر مقام پر قرآن کا انداز تعبیر قابل ملاحظہ ہے۔ زمین کا ” خشوع “ کی حالت میں ہونا سے مراد یہ ہے کہ بارش سے پہلے وہ سوئی ہوئی اور مردہ حالت میں تھی۔ جب بارش برسی تو وہ پھبک اٹھی ، سر سبز و شاداب ہوگئی ، گویا اس نے شکر ادا کیا اور سجدے میں گر گئی کہ اسے زندگی مل گئی۔ جس سیاق میں یہ مثال آرہی ہے وہاں عبادت خشوع و خضوع اور حمد و ثنا اور تسبیح کا مضمون چل رہا ہے۔ چناچہ زمین کی بھی ایسی کیفیت دکھائی گئی ، گویا وہ بھی زندہ ہے اور اللہ کے حوالے سے وہ بھی شعور رکھتی ہے۔ مناسب ہے کہ میں اپنی ہی کتاب التصویر الفنی فی القرآن سے ایک صفحہ یہاں نقل کر دوں :

” قرآن نے بارش ہونے سے قبل زمین کی حالت کو بعض جگہ خاشعہ ( سوئی ہوئی ، مردہ اور سہمی ہوئی ) اور بعض جگہ ھامدہ (سوکھی ، بجھی ہوئی ، مردہ) کہا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض طرز تعبیر کا تنوع ہے ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ دونوں لفظ کس سیاق میں کس طرح استعمال ہوئے ہیں ، یہ الفاظ قرآن نے دو مختلف سیاق وسباق میں استعمال کئے ہیں :

لفظ ھامدہ سورة حج میں آیا ہے۔

یایھا الناس ۔۔۔۔۔ زوج بھیج (22 : 5) ” لوگو ، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے ، پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر گوشت کی بوٹی سے ، جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بےشکل بھی تا کہ تم پر حقیقت واضح کریں ۔ ہم جس کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں ، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں تا کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کو پھیر دیا جاتا ہے تا کہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے ، پھر جہاں ہم نے اس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتا اگلنی شروع کردی “۔

اور لفظ خاشعہ اس سیاق وسباق میں آیا ہے :

ومن ایتہ الیل والنھار ۔۔۔۔۔ ایاہ تعبدون (41 : 37) فان استکبروا ۔۔۔۔۔ لا یسئمون (41 : 38) ومن ایتہ ۔۔۔۔۔۔ کل شیء قدیر (41 : 39) ” اور اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے ، اگر فی الواقعہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو ، لیکن اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات پر اڑے رہیں تو پرواہ نہیں ، جو فرشتے ترے رب کے مقرب ہیں وہ شب و روز اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہے ! پھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا ، یکایک وہ پھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے “۔

ان دونوں سیاق وسباق پر ایک سر سری نظر ڈالنے ہی سے ھامدہ اور خاشعہ کا ربط ظاہر ہوجاتا ہے۔ پہلے سیاق وسباق میں فضا اٹھانے ، زندہ کرنے اور نکالنے کی ہے۔ تو اس کے ساتھ زمین کی حالت مردہ (ھامدہ) زیادہ مناسب ہے۔ مردنی کے بعد وہ حرکت میں آتی ہے ، پھولتی ہے ، اور ہر قسم کے کوش منظر نباتات کے جوڑے پیدا کرتی ہے (میں کہوں گا کہ لفظ زوج بھی یہاں نہایت معنی خیز ہے ) دوسرے سیاق وسباق میں مضمون عبادت ، خضوع وخشوع کا ہے ، لہٰذا اس کے ساتھ زمین کی تصویر خامشہ اور سہمی ہوئی زیادہ مناسب ہے۔ اور جب بارش ہوتی ہے تو وہ پھول اٹھتی ہے۔

یہاں اس دوسرے سیاق میں زمین کے پھبک اٹھنے اور پھول جانے کے بعد نباتات کے اگنے کا ذکر نہیں جبکہ پہلے سیاق میں ذکر ہے ، کیونکہ یہاں عبادت کا موضوع ہے اور عبادت کے ساتھ نباتات کے اگنے کی کوئی مناسبت نہیں ہے کیونکہ اھتزت وربت (41 : 39) کے لفظ کے بھی دونوں جگہ دو الگ مقاصد ہیں ، یہاں دوسرے سیاق میں مطلب یہ ہے کہ زمین حرکت میں آئی جس طرح اس منظر میں تمام متحرک چیزیں عبادت کے لئے حرکت میں آتی ہے۔ لہٰذا زمین کو بھی خشوع اور مردنی کی حالت میں نہ چھوڑا جائے۔ اس لیے یہاں وہ حرکت میں آئی کہ وہ دوسرے عبادت گزاروں کے ساتھ عبادت میں شریک ہو ، اور منظر کے تمام اجزاء اس میں شریک ہوجائیں۔ یوں انداز بیان کی نہایت ہی باریک جزئیات کے تناسق کو بھی پیش نظر رکھتا ہے جبکہ پہلے سیاق میں اھتذت وربت (41 : 39) پیدائشی عمل کی حرکت کے لئے ہے “۔

اب ہم پھر سیاق کلام کی طرف آتے ہیں ، اسی زمین کے احیاء کے استدلال سے یہ نتیجہ کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مردوں کو نکال لائے گا۔

ان الذی احیاھا لمحی الموتی انہ علی کل شیء قدیر (41 : 39) ” یقیناً جو خدا اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ مردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے۔ یقیناً وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے “۔ اس قسم کے مناظر سے قران میں بار بار یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ اسی طرح مردوں کو اٹھا لے گا اور اس سے اللہ کی بےپناہ قدرت پر بھی استدلال قرآن کریم میں بارہا کیا جاتا ہے۔ زمین کے اندر نباتاتی اور دوسری زندگیوں کے مناظر کو انسان بڑے قریب سے مشاہدہ کرتا ہے۔ عقل سے بھی پہلے یہ بو قلمونیاں دل کو متاثر کرتی ہیں۔ جب موت سے زندگی نمودار ہوتی ہے تو انسان اس قدرت کے کرشمے کو بڑی حیرت سے دیکھتا ہے اور انسان کے شعور میں اس کے اثرات بیٹھتے ہیں اور قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ عقل کی بجائے فطری شعور سے مخاطب ہوتا ہے۔

آیت 39{ وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً } ”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم زمین کو دیکھتے ہو کہ وہ دبی پڑی ہے“ یعنی زمین کی وہ کیفیت کہ جب وہ بنجر اور ویران ہوتی ہے اور اس پر روئیدگی وغیرہ کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ { فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ } ”پھر جب ہم اس پر پانی برسادیتے ہیں تو اس میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ ابھر آتی ہے۔“ بارش کے برستے ہی زمین سے طرح طرح کے نباتات اگنے لگتے ہیں جیسے کہ مردہ زمین میں جان پڑگئی ہو۔ { اِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰیط اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} ”یقینا وہ اللہ جس نے اس کو زندہ کیا ہے وہی ُ مردوں کو بھی زندہ کرے گا۔ یقینا وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“

آیت 39 - سورہ فصیلات: (ومن آياته أنك ترى الأرض خاشعة فإذا أنزلنا عليها الماء اهتزت وربت ۚ إن الذي أحياها لمحيي الموتى ۚ إنه...) - اردو