سورہ فصیلات: آیت 13 - فإن أعرضوا فقل أنذرتكم صاعقة... - اردو

آیت 13 کی تفسیر, سورہ فصیلات

فَإِنْ أَعْرَضُوا۟ فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَٰعِقَةً مِّثْلَ صَٰعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ

اردو ترجمہ

اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اِن سے کہہ دو کہ میں تم کو اُسی طرح کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fain aAAradoo fuqul anthartukum saAAiqatan mithla saAAiqati AAadin wathamooda

آیت 13 کی تفسیر

آیت نمبر 13 تا 18

یہ فی حقیقت ایک خوفناک ڈراوا ہے۔

فان اعرضو۔۔۔۔ وثمود (41: 13) ” اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تم کو اسی طرح کے اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عاد ثمود پر نازل ہوا تھا “۔ یہ ڈراوا مشرکین کے جرائم اور نہایت ہی مکروہ بدکاریوں کے لیے نہایت مناسب تھا جس طرح کے غرور میں مشرکین مکہ مبتلا تھے ، جس کا ذکر سورت کے آغاز میں ہوا ، نیز وہ اس پوری کائنات کی روش اطاعت سے بھی پھرے ہوئے تھے ، جس کا ذکر اس ڈراوے سے متصلا پہلے ہوا۔

اس ڈراوے کے قصے کے بارے میں ابن اسحاق نے روایت کی ہے یزید ابن زیادہ سے انہوں نے محمد ابن کعب قرظی سے ، انہوں نے کہا مجھے یہ بتایا گیا کہ عتبہ ابن ربیعہ نے ، جو قریش کا ایک سردار تھا ، ایک دن جبکہ وہ قریش کی محفل میں بیٹھا ہوا تھا ، اور رسول اللہ ﷺ مسجد الحرام میں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگا سرداران قریش ، کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ میں محمد سے بات کروں اور ان کے سامنے کچھ تجاویز پیش کروں ، شاید وہ ان میں سے بعض کو قبول کرلے۔ وہ جو چاہے ہم اس کو دے دیں اور وہ ہمیں معاف کردے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت حمزہ اسلام لے آئے تھے۔ اور سرداران قریش نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ حضرت محمد ﷺ کے ساتھیوں میں تو اضافہ ہورہا ہے۔ وہ تو زیادہ ہورہے ہیں بلکہ لوگ کثرت سے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اہل مجلس نے کہا ابوالولید یہ تو اچھی بات ہے۔ آپ اٹھیں اور اس سے بات کریں۔ عتبہ اٹھا اور حضور ﷺ کے پاس گیا ، یہ رسول اللہ ؐ کے بیٹھا اور کہا ، بھتیجے ! تو ہم میں خاندانی مقام و مرتبہ کے اعتبار اور جاہ نسب کے لحاظ سے ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ تو نے اپنی قوم کو ایک بہت بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ قوم کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا ہے ۔ تو نے ان کے نظریاتے اور عقائد کی تضحیک بھی کی۔ ان کے دین اور الہوں پت نکتہ چینی کی۔ پھر تو نے ان آباواجداد کی تکفیر کی جو چلے گئے ہیں۔ لہٰذا اب میری کچھ تجاویز سنو ، ان پر غور کرو۔ اگر تم ان میں سے بعض تجاویز کو قبول کروتو آپ ﷺ نے فرمایا ابوالولید آپ کہیں میں سنتا ہوں۔ تو اس نے کہا :” بھتیجے تم نے جو تحریک چلا رکھی ہے اگر اس سے تمہاری غرض مال و دولت جمع کرنا ہے تو ہم تمہارے لیے مال و دولت کی بڑی مقدار جمع کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ گے ، اگر تم اقتدار چاہتے ہو تو ہم تمہیں ایسے اختیارات کے ساتھ سردار بناتے ہیں کہ تمہاری مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہ ہوسکے گا۔ اور اگر سرداری سے بھی آگے تم بادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم بادشاہ بنادیتے ہیں۔ اور اگر یہ صورت ہے کہ جو تم پر آتا ہے وہ کوئی بیماری ہے جسے تم اپنے آپ سے دور نہیں کرسکتے ہو تو ہم تمہارے لیے بڑے بڑے طبیب لاتے ہیں اور اس میں بہت کچھ خرچ کرنے لے لیے تیار ہیں یہاں تک کہ تم تندرست ہوجاؤ۔ کیونکہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے پیچھے لگنے والا اس پر غالب ہوجاتا ہے اور اسے اس کا علاج کرانا پڑتا ہے۔ یہ تھی عتبہ کی تقریر جو اس نے کی۔ جب عتبہ فارغ ہوا اور رسول اللہ ﷺ اس کی باتیں غور سے سن رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : آپ کی بات ختم ہوگئی تو اس نے کہا ” ہاں “۔ حضور ﷺ نے فرمایا سنئے میری بات ، تو اس نے بھی کہا بات کیجئے ، حضور ﷺ نے فرمایا :

حٰم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یسمعون (41: 1 تا 4) ” ح م ، یہ خدائے رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے ، ایک ایسی کتاب جس کی آیات کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں ، عربی زبان کا قرآن ، ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ بشارت دینے والا اور ڈرادینے والا ہے۔ مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے روگردانی کی اور وہ سب کر نہیں دیتے “ حضور اکرم ﷺ یہ سورت اس کے سامنے پڑھتے رہے۔ عتبہ نے سنا تو وہ خاموش رہا اور اپنے ہاتھ اپنی پیٹھ کے پیچھے لگا کر ان پر ٹیک لی اور سنتا رہا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سجدے کے مقام تک آئے ، تو حضور ﷺ نے سجدہ فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا : ابوالولید تم نے سن لیا۔ اب تم جانو اور تمہارا کام۔ عتبہ اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی طرف گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا ، ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ابوالولید کا چہرہ وہ نہیں ہے جس کے ساتھ وہ گیا تھا۔ جب وہ ان کے پاس بیٹھا ، تو انہوں نے پوچھا ابوالولید کیا خبر لائے ہو۔ تو اس نے کہا خبریہ ہے کہ خدا کی قسم میں نے ایک ایسا کلام سنا ہے ، اپنی زندگی میں ، میں نے ایسا کلام ہرگز نہیں سنا۔ خدا کی قسم یہ جادو نہیں ہے ، یہ شعر نہیں ہے ، یہ کہانت نہیں ہے۔ اے برادران قریش میری بات مانو اور یہ معاملہ میرے حوالے کردو ، اس شخص کو چھوڑ دو وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے ، اسے کرنے دو ، اسے اپنے حال پر چھوڑ دو ، خدا کی قسم وہ جو کچھ کہتا ہے ، آئندہ اس کی بڑی اہمیت ہوگی۔ اگر دوسری عرب اقوام نے اسے کچل دیا تو وہ تمہاری مصیبت کو ختم کردیں گے تمہارے بغیر ہی۔ اور اگر یہ شخص عربوں پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی ہوگی۔ اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور تم اس کے ذریعہ خوشحال ترین لوگ ہوجاؤ گے تو انہوں نے کہا ” خدا کی قسم ، ابوالولیدتم پر اس نے اپنی باتوں سے جادو کردیا ۔ اس پر اس نے کہا کہ میری رائے تو یہی ہے ، تم جو چاہو ، کرو “۔

علامہ بغوی نے اپنی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے (محمدابن فضل سے ، انہوں نے اجلح سے) یہ اجلح ابن عبداللہ الکندی الکوتی ہیں۔ (اس آدمی کے بارے میں ابن کثیر نے کہا یہ کسی قدر ضعیف ہے) اس نے زیال ابن حرملہ سے انہوں نے حضرت جابر ابن عبداللہ ؓ سے کہ جب حضور ﷺ اس آیت تک آئے۔

فان اعرضوا۔۔۔۔ وثمود (41: 13) توعتبہ نے آپ ﷺ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور صلہ رحمی کا واسطہ دیا۔ اور یہ عتبہ اپنے گھر چلا گیا اور پھر قریش کی محفل میں نہ آیا اور اپنے آپ کو ان سے دور رہنے کے لیے گھر میں بند کرلیا۔

اس ڈراوے کے اثرات کی ایک صورت آپ نے دیکھی کہ حصور ﷺ کی زبان سے ایک غیر مسلم نے اسے سنا اور وہ کانپ اٹھا۔ اس حدیث پر غور ابھی ختم نہیں ہوا ، ذرا رکئے ، رسول اللہ کی تصویر دیکھئے ، اس عظیم انسان کے آداب گفتگو دیکھئے۔ آپ کے اطمینان قلبی کو دیکھئے ، آپ نے بڑے اطمینان سے عتبہ کے منہ سے نہایت گری ہوئی باتیں سنیں جن کی آپ کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہے۔ لیکن آپ کا دل اپنے عظیم مقصد کو چھوڑ کر نیچے نہیں آتا ۔ یہ چھوٹی چھوٹی پیش کشیں آپ کو گندی تجاویز محسوس ہوتی ہیں جن سے آپ کا نفس نفرت کرتا ہے لیکن حضور ﷺ ہی حلم کے ساتھ ان کو سنتے ہیں۔ شریفانہ انداز میں سنتے ہیں۔ آپ مطمئن ، ٹھہرے ہوئے ، سنجیدہ اور محبت کرنے والے کی طرف سنتے ہیں۔ آپ صبر سے عقبہ کو یہ گری ہوئی تجاویز پیش کرنے دیتے ہیں۔ جب وہ بات ختم کرتا ہے تو پھر بھی جلدی نہیں کرتے نہایت ہی اطمینان کے ساتھ پوچھتے ہیں اور کے ساتھ۔” ابوالولید تم فارغ ہوگئے “ ؟ وہ کہتا ہے ہاں ۔ تو آپ فرماتے ہیں اچھا اب میری بات سنو۔ اور آپ اس وقت تک نہیں شروع کرتے جب تک وہ کہہ نہیں دیتا کہ سنایئے۔ جب حضور نہایت اطمینان ، اعتماد اور بھرپور انداز میں شروع کرتے ہیں۔

حضور اکرم ﷺ کی یہ ایسی تصویر ہے جسے دیکھتے ہی دل میں ہیبت واحترام کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اعتماد و محبت پیدا ہوتی ہے۔ اور اطمینان ہوجاتا ہے کہ آپ ایک عظیم شخصیت ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آپ کے سامعین پر آپ چھا جاتے تھے ، جو بھی آپ کی طرف آتا وہ مسحور ہوکر لوٹتا یا مبہوت ہوجاتا۔ اللہ نے سچ کہا کہ اللہ جانتا ہے کہ وہ منصب رسالت کس کے سپرد کرتا ہے۔۔۔۔ اب ہم اس واقعہ کو چھوڑ کرنص قرآنی کی طرف آتے ہیں۔

فان اعرضوا۔۔۔۔ وثمود (41: 13) اگر یہ منہ موڑیں تو ان سے کہہ دیں کہ میں تم کو اسی کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا کہ عاد وثمود پر نازل ہوا تھا “۔ یہ ایک سفر ہے گزری ہوائی اقوام کے کھنڈرات کی سیر کے لیے۔ جبکہ اس سے قبل قرآن نے ہمیں آسمانوں کی وسعتوں کی سیر کرائی۔ یہ ایک ایسی سیر ہے جو خوف کے مارے دلوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے کہ کیسی کیسی اقوام کو اللہ نے تباہ کیا جو اس جہاں میں اپنے خیال کے مطابق بڑے بنے ہوئے تھے۔

اذجآءتھم۔۔۔۔ الا اللہ (41: 14) ” جب خدا کے رسول انکے پاس آگے اور پیچھے ، ہر طرف سے آئے اور انہیں سمجھایا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو “۔ یہ وہی ایک کلمہ ہے جسے انبیاء ورسل نے پیش کیا اور جس پر تمام ادیان حقہ کی عمارت تعمیر ہوئی۔

قالوالوشآء۔۔۔۔۔ کٰفرون (41: 14) ” تو انہوں نے کہا ، ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیجتا لہٰذا ہم اس بات کو نہیں مانتے ، جس کے لیے تم بھیجے گئے ہو “۔ یہ بھی وہی اعتراض ہے جس کا سامنا تمام انبیاء ورسل نے کیا۔ حالانکہ انسانوں سے خطاب کرنے والے رسول کو انسان ہی تو ہونا چاہئے ، جو ان کو جانتا ہو ، اور جسے وہ جانتے ہوں ، جس کے اندر لیڈر شپ کے حقیقی اوصاف وہ پائے جاتے ہوں۔ وہ انہی مشکلات میں رہتا ہو ، جس میں وہ رہتے ہوں ، لیکن عاد اور ثمود نے اپنے رسولوں کی دعوت کا انکار کردیا۔ اور اس لیے کردیا کہ وہ بشر کیوں ہیں۔ ان کی تجویز کے مطابق ملائکہ کیوں نہیں۔

یہاں تک تو عاد وثمود دونوں کی بات ایک تھی کہ دونوں پر عذاب ایک سخت کڑک دار آواز یا دھماکے سے آیا تھا۔ اب یہاں سے آگے ان کی ہلاکت کی تفصیلات الگ تھیں۔ اس لیے الگ الگ بیان کیا گیا۔

فاماعاد۔۔۔۔۔ مناقوۃ (41: 15) ” عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے :” کون ہے ہم سے زیادہ زور آور “۔ حق تو یہ ہے کہ انسان اللہ کے سامنے جھکے اور زمین میں استکبار نہ کرے۔ پھر انسان ذار اللہ کی عظیم خلقت کے مقابلے میں اپنے آپ کو دیکھے ۔ ، لہٰذا اس کرۂ ارض پر اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنا کسی استحقاق کے بغیر ہی ہوتا ہے۔ پھر استکبار کے بعد اظہار غروز بہت بڑا جرم ہے کہ ہمچو مادیگرے نیست۔

آیت 13 { فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ } ”تو اے نبی ﷺ ! اگر یہ لوگ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ میں نے تو تمہیں خبردار کردیا ہے ایک ایسی خوفناک کڑک سے جیسی کہ قوم عاد اور قوم ثمود کی کڑک تھی۔“ میں نے تو تم لوگوں کو آگاہ کردیا ہے کہ جیسے قوم عاد اور قوم ثمود پر عذاب آیا تھا ‘ تمہاری تکذیب کے باعث ویسا ہی کوئی عذاب تم پر بھی ٹوٹ سکتا ہے۔

انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کا سبب۔حکم ہوتا ہے کہ جو آپ کو جھٹلا رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ کفر کر رہے ہیں آپ ان سے فرما دیجئے کہ میری تعلیم سے رو گردانی تمہیں کسی نیک نتیجے پر نہیں پہنچائے گی۔ یاد رکھو کہ جس طرح انبیاء کی مخالف امتیں تم سے پہلے زیرو زبر کردی گئیں کہیں تمہاری شامت اعمال بھی تمہیں انہی میں سے نہ کر دے۔ قوم عاد اور قوم ثمود کے اور ان جیسے اوروں کے حالات تمہارے سامنے ہیں۔ ان کے پاس پے درپے رسول آئے اس گاؤں میں اس گاؤں میں اس بستی میں اس بستی میں اللہ کے پیغمبر اللہ کی منادی کرتے پھرتے لیکن ان کی آنکھوں پر وہ چربی چڑھی ہوئی تھی اور دماغ میں وہ گند ٹھسا ہوا تھا کہ کسی ایک کو بھی نہ مانا۔ اپنے سامنے اللہ والوں کی بہتری اور دشمنان رسول ﷺ کی بدحالی دیکھتے تھے لیکن پھر بھی تکذیب سے باز نہ آئے۔ حجت بازی اور کج بحثی سے نہ ہٹے اور کہنے لگے اگر اللہ کو رسول بھیجنا ہوتا تو کسی اپنے فرشتے کو بھیجتا تم انسان ہو کر رسول کریم بن بیٹھے ؟ ہم تو اسے ہرگز باور نہ کریں گے ؟ قوم عاد نے زمین میں فساد پھیلا دیا ان کی سرکشی ان کا غرور حد کو پہنچ گیا۔ ان کی لا ابالیاں اور بےپرواہیاں یہاں تک پہنچ گئیں کہ پکار اٹھے ہم سے زیادہ زور آور کوئی نہیں۔ ہم طاقتور مضبوط اور ٹھوس ہیں اللہ کے عذاب ہمارا کیا بگاڑ لیں گے ؟ اس قدر پھولے کہ اللہ کو بھول گئے۔ یہ بھی خیال نہ رہا کہ ہمارا پیدا کرنے والا تو اتنا قوی ہے کہ اس کی زور آوری کا اندازہ بھی ہم نہیں کرسکتے۔ جیسے فرمان ہے (وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47؀) 51۔ الذاریات :47) ہم نے اپنے ہاتھوں آسمان کو پیدا کیا اور ہم بہت ہی طاقتور اور زور آور ہیں، پس ان کے اس تکبر پر اور اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے پر اور اللہ کی نافرمانی کرنے اور رب کی آیتوں کے انکار پر ان پر عذاب الٰہی آپڑا۔ تیز و تند، سرد، دہشت ناک، سرسراتی ہوئی سخت آندھی آئی۔ تاکہ ان کا غرور ٹوٹ جائے اور ہوا سے وہ تباہ کردیئے جائیں۔ صراصر کہتے ہیں وہ ہوا جس میں آواز پائی جائے۔ مشرق کی طرف ایک نہر ہے جو بہت زور سے آواز کے ساتھ بہتی رہتی ہے اس لئے اسے بھی عرب صرصر کہتے ہیں۔ نحسات سے مراد پے درپے، ایک دم، مسلسل، سات راتیں اور آٹھ دن تک یہی ہوائیں رہیں۔ وہ مصیبت جو ان پر مصیبت والے دن آئی وہ پھر آٹھ دن تک نہ ہٹی نہ ٹلی۔ جب تک ان میں سے ایک ایک کو فنا کے گھاٹ نہ اتار دیا اور ان کا بیج ختم نہ کردیا۔ ساتھ ہی آخرت کے عذابوں کا لقمہ بنے جن سے زیادہ ذلت و توہین کی کوئی سزا نہیں۔ نہ دنیا میں کوئی ان کی امداد کو پہنچا نہ آخرت میں کوئی مدد کیلئے اٹھے گا۔ بےیارو مددگار رہ گئے، ثمودیوں کی بھی ہم نے رہنمائی کی۔ ہدایت کی ان پر وضاحت کردی انہیں بھلائی کی دعوت دی۔ اللہ کے نبی حضرت صالح نے ان پر حق ظاہر کردیا لیکن انہوں نے مخالفت اور تکذیب کی۔ اور نبی اللہ ﷺ کی سچائی پر جس اونٹنی کو اللہ نے علامت بنایا تھا اس کی کوچیں کاٹ دیں۔ پس ان پر بھی عذاب اللہ برس پڑا۔ ایک زبردست کلیجے پھاڑ دینے والی چنگاڑ اور دل پاش پاش کردینے والے زلزلے نے ذلت و توہین کے ساتھ ان کے کرتوتوں کا بدلہ لیا۔ ان میں جتنے وہ لوگ تھے جنہیں اللہ کی ذات پر ایمان تھا نبیوں کی تصدیق کرتے تھے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے تھے انہیں ہم نے بچا لیا انہیں ذرا سا بھی ضرر نہ پہنچا اور اپنے نبی ﷺ کے ساتھ ذلت و توہین سے اور عذاب اللہ سے نجات پالی۔

آیت 13 - سورہ فصیلات: (فإن أعرضوا فقل أنذرتكم صاعقة مثل صاعقة عاد وثمود...) - اردو