اس صفحہ میں سورہ Fussilat کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ فصلت کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 12 { فَقَضٰہُنَّ سَبْعَ سَمٰواتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ } ”پھر اس نے ان کو سات آسمانوں کی شکل دے دی ‘ دو دنوں میں۔“ قرآن حکیم میں سات مقامات پر یہ ذکر ملتا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق چھ دنوں میں ہوئی ‘ لیکن یہ قرآن کا واحد مقام ہے جہاں نہ صرف ان چھ دنوں کی مزید تفصیل break up دی گئی ہے بلکہ اس تخلیقی عمل کی ترتیب sequence کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ یعنی پہلے زمین بنی اور سات آسمان اس کے بعد وجود میں آئے۔ لیکن ابھی تک ہم نہ تو مذکورہ چھ دنوں کے مفہوم کو سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی زمین و آسمان کے تخلیقی عمل کی ترتیب سے متعلق سائنٹیفک انداز میں کچھ جان سکتے ہیں۔ بہر حال ہمارا یمان ہے کہ مستقبل میں کسی وقت سائنس ضرور ان معلومات تک رسائی حاصل کرے گی اور انسان اس حقیقت کی تہہ تک ضرور پہنچ جائے گا کہ زمین و آسمان کے وجود میں آنے کی صحیح ترتیب وہی ہے جو قرآن نے بیان فرمائی ہے۔ { وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَہَا } ”اور اس نے وحی کردیا ہر آسمان پر اس کا حکم“ سات آسمان بنانے کے بعد ہر آسمان پر اس سے متعلق تفصیلی احکامات بھیج دیے گئے۔ { وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا } ”اور ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے ّمزین کردیا اور اس کی خوب حفاظت کی۔“ چراغوں سے مراد ستارے ہیں۔ ستارے زمین سے قریب ترین آسمان کے لیے باعث زینت بھی ہیں اور شیاطین جن کی سرگرمیوں کے خلاف حفاظتی چوکیوں کا کام بھی دیتے ہیں۔ چناچہ جو شیاطین جن غیب کی خبریں حاصل کرنے کے لیے ممنوعہ حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان پر ان ستاروں سے میزائل داغے جاتے ہیں۔ اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سورة الحجر کی آیت 17 اور سورة الانبیاء کی آیت 32 کی تشریح۔ { ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ } ”یہ اس ہستی کا بنایا ہوا اندازہ ہے جو زبردست ہے اور ُ کل علم رکھنے والا ہے۔“
آیت 13 { فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ } ”تو اے نبی ﷺ ! اگر یہ لوگ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ میں نے تو تمہیں خبردار کردیا ہے ایک ایسی خوفناک کڑک سے جیسی کہ قوم عاد اور قوم ثمود کی کڑک تھی۔“ میں نے تو تم لوگوں کو آگاہ کردیا ہے کہ جیسے قوم عاد اور قوم ثمود پر عذاب آیا تھا ‘ تمہاری تکذیب کے باعث ویسا ہی کوئی عذاب تم پر بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
آیت 14 { اِذْ جَآئَ تْہُمُ الرُّسُلُ مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ } ”جبکہ ان کے پاس رسول علیہ السلام آئے ان کے سامنے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی“ یہاں پر قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر کر کے عرب کا وہ پورا علاقہ مراد لیا گیا ہے جہاں مختلف قوموں کی طرف پے در پے پیغمبر آئے۔ ان پیغمبروں اور ان کی اقوام کا ذکر قرآن میں بہت تکرار سے آیا ہے۔ { اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ } ”اس دعوت کے ساتھ کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔“ { قَالُوْا لَوْ شَآئَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰٓئِکَۃً } ”جواب میں ہر قوم کے لوگوں نے یہی کہا کہ اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتوں کو نازل کردیتا“ { فَاِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ } ”پس جو چیز دے کر آپ بھیجے گئے ہیں ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔“ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ کو اللہ نے کوئی خاص پیغام دے کر ہماری طرف بھیجا ہے تو آپ اس حوالے سے ہمارا جواب بھی سن لیں اور وہ یہ کہ آپ کے دعوے کے مطابق جس چیز کے ساتھ بھی آپ کو بھیجا گیا ہے ہم اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
آیت 15 { فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ } ”عاد کا معاملہ یہ تھا کہ انہوں نے زمین میں بہت تکبر کیا بالکل ناحق“ { وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً } ”اور انہوں نے کہا کہ کون ہے ہم سے بڑھ کر قوت میں ؟“ { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً } ”کیا انہوں نے غور نہیں کیا تھا کہ وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا وہ ان سے بہت بڑھ کر ہے قوت میں !“ اگر انہیں اپنے مدمقابل کوئی اور قوم اس وقت دنیا میں نظر نہیں آرہی تھی تو کیا انہیں اللہ کی طاقت بھی نظر نہیں آرہی تھی ؟ ایک وہ طاقتور ہستی تو بہر حال موجود تھی جس نے انہیں پیدا کیا تھا۔ { وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ } ”اور وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے۔“
آیت 16 { فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْٓ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ } ”تو ہم نے ان پر چھوڑ دی بہت زور کی ہوا نحوست کے دنوں میں“ سورة الحاقہ میں تند و تیز ہوا کے اس عذاب کا ذکر یوں آیا ہے : { سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍٍ } آیت 6 یعنی انتہائی تیز اور شدید ہوا کا یہ جھکڑ ّان لوگوں پر سات راتوں اور آٹھ دن تک مسلسل چلتا رہا۔ { لِّنُذِیْقَہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } ”تاکہ ہم انہیں مزہ چکھائیں رسوا کن عذاب کا اس دنیا کی زندگی میں۔“ { وَلَـعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَخْزٰی وَہُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ } ”اور آخرت کا عذاب تو کہیں زیادہ رسوا کن ہوگا اور وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔“
آیت 17 { وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ } ”اور جو قوم ثمود تھی ‘ ان کو ہم نے ہدایت کی راہ دکھائی“ ان کی طرف ہم نے اپنا رسول بھی بھیجا اور اونٹنی کی صورت میں انہیں واضح معجزہ بھی دکھا دیا۔ { فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی } ”لیکن انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں اندھے پن کو ہی پسند کیا“ ہماری واضح تعلیمات ان تک پہنچ گئی تھیں ‘ لیکن اس کے باوجود انہوں نے حقائق کی طرف سے اپنی آنکھیں بند ہی رکھیں۔ { فَاَخَذَتْہُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ } ”توا نہیں بھی آپکڑا ذلت کے عذاب کی ہولناک کڑک نے ان کے کرتوتوں کی پاداش میں۔“
آیت 18 { وَنَجَّیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ } ”اور ہم نے نجات دے دی ان کو جو ان میں سے ایمان لائے تھے اور جنہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی تھی۔“
آیت 19 { وَیَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَآئُ اللّٰہِ اِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ } ”اور جس دن اللہ کے یہ دشمن جمع کیے جائیں گے آگ کی طرف تو ان کی درجہ بندی کی جائے گی۔“ ظاہر ہے کردار و اعمال کے حوالے سے اہل جہنم سب برابر نہیں ہوں گے۔ ہر مجرم کا عذاب اس کے جرم کے مطابق ہوگا۔ چناچہ وہاں جرائم اور سزائوں کی اقسام کے مطابق اہل جہنم کو الگ الگ جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
آیت 20{ حَتّٰٓی اِذَا مَا جَآئُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ”یہاں تک کہ جب یہ وہاں پہنچیں گے تو ان کے خلاف گواہی دیں گے ان کے کان ‘ ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں اس بارے میں جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے۔“ ”شہادت“ کے بارے میں یہ بات بتکرار و اعادہ بیان کی جا چکی ہے کہ شہادت کسی کے خلاف ہوتی ہے اور کسی کے حق میں۔ چناچہ شَھِدَ کے بعد اگر عَلٰی کا صلہ ہو تو اس کے معنی کسی کے خلاف گواہی دینے کے ہوں گے جیسا کہ آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے جبکہ شَھِدَ کے ساتھ ”ل“ کا صلہ آنے کی صورت میں کسی کے حق میں گواہی کا مفہوم نکلے گا۔ مثلاً : { کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِز } المائدہ : 8 اور { کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ } النساء : 135۔ ان دونوں آیات میں لفظ اللہ کے ساتھ ”ل“ اللہ کے لیے گواہی کا مفہوم دے رہا ہے ‘ کہ تم لوگ اللہ کے لیے کھڑے ہو کر گواہی دینے والے بن جائو ! بقول اقبالؔ: ع ”دے تو بھی محمد ﷺ کی صداقت کی گواہی !“