سورہ فاطر: آیت 29 - إن الذين يتلون كتاب الله... - اردو

آیت 29 کی تفسیر, سورہ فاطر

إِنَّ ٱلَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَٰبَ ٱللَّهِ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَأَنفَقُوا۟ مِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَٰرَةً لَّن تَبُورَ

اردو ترجمہ

جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے اُنہیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yatloona kitaba Allahi waaqamoo alssalata waanfaqoo mimma razaqnahum sirran waAAalaniyatan yarjoona tijaratan lan taboora

آیت 29 کی تفسیر

اب صفحات کائنات سے روئے سخن صفحات کتاب الٰہی کی طرف پھرجاتا ہے کہ جو لوگ اس کی تلاوت کرتے ہیں ان کے پیش نظر کیا ہے اور ان کے لیے کیا کیا انعامات تیار ہیں۔

ان الذین یتلون۔۔۔۔۔ انہ غفور شکور (29 – 30) ” ۔

تلاوت کتاب سے مراد صرف جبرا یا خاموشی کے ساتھ کلمات کتاب دہرانے کے بجائے کوئی اور چیز ہے اور وہ ہے قرآن کو تدبر کے ساتھ پڑھنا۔ جس کے بعد پڑھنے والا کسی حقیقت کا ادراک کرے اور اس سے متاثر ہو۔ اس کے بعد وہ اس پر عمل کرے اور اپنی زندگی کو اس پر ڈھالے۔ یہی وجہ ہے کہ تلاوت قرآن کے بعد اقامت صلوٰۃ اور انفاق کو ذکر ہوا ، خواہ پوشیدہ ہو یا علانیہ ہو۔ اور اس کے بعد پھر ایسے لوگوں کو یہ امید ہو کہ اس سودے میں انہیں کوئی گھاٹا نہ ہوگا۔ ایسے لوگوں کو یہ معرفت حاصل ہو کہ اللہ کے ہاں جو اجر ہے وہ ان امور سے بہتر ہے جو ان کے ہاں ہیں۔ ان کو یہ یقین بھی ہو کہ وہ ایک ایسی تجارت کر رہے ہیں جس کا فائدہ محفوظ ہے اور ضمانت شدہ ہے۔ وہ اللہ وحدہ سے معاملہ کیے ہوئے ہیں اور اللہ کے ساتھ کیا ہوا بیوپار بہت ہی نفع بخش ہوتا ہے۔ یہ تجارت اخروی تجارت ہے جس میں منافع کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک ایسی تجارت ہے جس میں لین دین بالکل پورا پورا ہوتا ہے اور اس پر فضل اللہ بھی ہوتا ہے۔ وہ (غفور و شکور ہے) تقصیرات کو معاف کرتا ہے اور بہت ہی شکر کرنے والا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے شکر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ بہترین جزاء دیتا ہے لیکن لفظ شکر انسان کے لیے حوصلہ افزائی کے لیے استعمال ہوا ہے اور یہ بات انسان کو شرم دلانے کے لیے اور حیا کرنے کے لیے کہی گئی ہے کہ جب اللہ منعم حقیقی اپنے بندوں کا شکر کرتا ہے تو پھر بندوں کا تو فرض ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے شکر میں رطب اللسان رہیں۔

اس کے بعد اس کتاب کے مزاج کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے اندر حق ہی حق ہے اور اس کے وارث جنتوں کے وارث ہوں گے۔ آگے اس حق کے وارثوں کی بات آرہی ہے۔

آیت 29{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ } ”یقینا وہ لوگ جو تلاوت کرتے ہیں اللہ کی کتاب کی اور نماز قائم کرتے ہیں“ { وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً } ”اور خرچ کرتے ہیں اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا ہے خفیہ اور اعلانیہ“ { یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ } ”وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوگا۔“ اللہ کے راستے میں جان و مال خرچ کرنے کو قرآن میں تجارت سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ سورة الصف میں اس حوالے سے پہلے اہل ِایمان سے سوال کیا گیا : { یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ ”اے اہل ایمان ! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کے بارے میں بتائوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچا لے ؟“ اور پھر جواب میں یوں فرمایا گیا : { تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْط } آیت 11 ”وہ تجارت یہ ہے کہ تم ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر اور اس کے راستے میں جہاد کرو اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ۔“ کسی بھی کاروبار اور تجارت کو کامیاب کرنے کے لیے سرمایہ اور محنت دونوں چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چناچہ جس طرح دنیا میں تم اپنی تجارت کو فروغ دینے اور زیادہ منافع کمانے کے لیے بڑھ چڑھ کر سرمایہ لگاتے ہو اور پھر اس میں دن رات کی محنت سے جان بھی کھپاتے ہو ‘ اسی طرح جان و مال لگا کر اگر تم اللہ کے ساتھ تجارت کرو گے تو اس میں تمہیں کبھی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا اور منافع بھی ایسا ملے گا کہ تم آخرت کے عذاب سے چھٹکارا پا کر ہمیشہ کی کامیابی سے ہمکنار ہو جائو گے۔ آیت زیر مطالعہ میں نیک اعمال کی ترغیب کو عام فہم بنانے کے لیے تجارت کی تشبیہہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ دراصل قرآن مجید بنیادی باتوں کو سمجھانے کے لیے عموماً ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو عام لوگوں کی سمجھ میں بھی آسانی سے آجائیں۔ جیسے سورة التوبہ کی آیت 111 میں فرمایا گیا : { اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط } ”یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔“ اس آیت میں بھی ایک ”سودے“ کی بات کی گئی ہے تاکہ ہر آدمی مضمون کے اصل مدعا کو سمجھ سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرلے جو اس کے ساتھ اپنے مال و جان کا سودا کرنے والے ہیں !

کتاب اللہ کی تلاوت کے فضائل۔ مومن بندوں کی نیک صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول رہا کرتے ہیں۔ ایمان کے ساتھ پڑھتے رہتے ہیں عمل بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ نماز کے پابند زکوٰۃ خیرات کے عادی ظاہر و باطن اللہ کے بندوں کے ساتھ سلوک کرنے والے ہوتے اور وہ اپنے اعمال کے ثواب کے امیدوار اللہ سے ہوتے ہیں۔ جس کا ملنا یقینی ہے۔ جیسے کہ اس تفسیر کے شروع میں فضائل قرآن کے ذکر میں ہم نے بیان کیا ہے کہ کلام اللہ شریف اپنے ساتھی سے کہے گا کہ ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے اور تو تو سب کی سب تجارتوں کے پیچھے ہے۔ انہیں ان کے پورے ثواب ملیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ملیں گے جس کا خیال بھی نہیں۔ اللہ گناہوں کا بخشنے والا اور چھوٹے اور تھوڑے عمل کا بھی قدر دان ہے۔ حضرت مطرف ؒ تو اس آیت کو قاریوں کی آیت کہتے تھے۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے راضی ہوتا ہے تو اس پر بھلائیوں کی ثناء کرتا ہے جو اس نے کی نہ ہوں اور جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اسی طرح برائیوں کی۔ لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے۔

آیت 29 - سورہ فاطر: (إن الذين يتلون كتاب الله وأقاموا الصلاة وأنفقوا مما رزقناهم سرا وعلانية يرجون تجارة لن تبور...) - اردو