سورہ فاطر (35): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Faatir کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ فاطر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ فاطر کے بارے میں معلومات

Surah Faatir
سُورَةُ فَاطِرٍ
صفحہ 437 (آیات 19 سے 30 تک)

وَمَا يَسْتَوِى ٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْبَصِيرُ وَلَا ٱلظُّلُمَٰتُ وَلَا ٱلنُّورُ وَلَا ٱلظِّلُّ وَلَا ٱلْحَرُورُ وَمَا يَسْتَوِى ٱلْأَحْيَآءُ وَلَا ٱلْأَمْوَٰتُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَآءُ ۖ وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِيرٌ إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۚ وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَٰتِ وَبِٱلزُّبُرِ وَبِٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُنِيرِ ثُمَّ أَخَذْتُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ ثَمَرَٰتٍ مُّخْتَلِفًا أَلْوَٰنُهَا ۚ وَمِنَ ٱلْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَٰنُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ وَمِنَ ٱلنَّاسِ وَٱلدَّوَآبِّ وَٱلْأَنْعَٰمِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَٰنُهُۥ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى ٱللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ ٱلْعُلَمَٰٓؤُا۟ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَٰبَ ٱللَّهِ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَأَنفَقُوا۟ مِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَٰرَةً لَّن تَبُورَ لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِۦٓ ۚ إِنَّهُۥ غَفُورٌ شَكُورٌ
437

سورہ فاطر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ فاطر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yastawee alaAAma waalbaseeru

وما یستوی ۔۔۔۔۔۔ ولا الاموات (19 – 21) یہاں ایک طرف کفر ، اندھے پن ، تاریکی ، گرمی اور موت سب کے سب ایک مزاج رکھتے ہیں اور ان کے مفہومات کے درمیان ربط ہے۔ دوسری جانب ایمان ، نور ، بصارت ، چھاؤں اور زندگی کے مفہومات کا ایک ہی مزاج ہے اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے۔

ایمان نور ہے۔ دل میں نور ، اعضاء میں نور ، حواس میں نور ، ایسا نور جس سے اشیاء کی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔ اقدار اور واقعات روشن ہوتے ہیں اور ان کی حدود اور روابط واضح ہوتے ہیں۔ مومن اس نور سے تمام اشیاء کو دیکھتا ہے اور وہ روشنی کے اندر واقعات کو دیکھتا ہے۔ اس لیے اس کے معاملات اچھے ہوتے ہیں۔ اس کے اقدامات درست سمت میں ہوتے ہیں اور اس کے قدم ڈگمگاتے نہیں۔

ایمان ایک آنکھ ہے جو دیکھتی ہے۔ یہ آنکھ چیزوں کو ان کی حقیقت کے مطابق دیکھتی ہے۔ نہ اس میں تزلزل ہوتا ہے اور نہ اس میں انتشار ہوتا ہے اور صاحب ایمان اپنی راہ پر روشنی میں ، اعتماد کے ساتھ اور اطمینان کے ساتھ چلتا ہے۔ پھر ایمان ایک سایہ ہے جس کے نیچے انسان راحت کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کا نفس اس میں آرام کرتا ہے اور روح خوش ہوتی ہے۔ شک ، بےچینی ، حیرت اور اندھیروں کے سفر کی گرمی سے انسان پناہ میں ہوتا ہے۔

پھر ایمان ایک زندگی ہے۔ دلوں اور شعور کی زندگی۔ ارادہ کی زندگی ، رخ اور سمت کی زندگی۔ ایمان ایک حرکت اور جدوجہد کا نام ہے۔ یہ تعمیر جدوجہد ہے ، مفید اور بامقصد زندگی ہے ، جس کے اندر یہ مروگی اور مردنی نہیں ہے اور زندگی بجھی بجھی بھی نہیں ہوتی ہے۔ نہ اس میں کوئی چیز عبث ہے اور نہ بیہودگی ہے۔

کفر تاریکی ہے تاریکیاں ہیں۔ جب لوگ نور ایمان کے دائرہ سے نکل آئیں تو پھر وہ مختلف قسم کے اندھیروں میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ ایسے اندھیرے جن کے اندر کسی چیز کی صحیح حقیقت نظر نہیں آتی۔ کفر ایک قسم کی سخت دھوپ ہے۔ اس کے اندر دل حیرانی ، پریشانی ، قلق ، بےچینی ، تزلزل اور عدم اطمینان کی گرم آندھیوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور آخرت میں جہنم کی گرمی کا شکار ہوتا ہے۔ کفر ایک طرح کی موت ہے۔ ضمیر کی موت ، منبع حیات سے کٹ جانا ، صحیح راستے سے کٹ جانا ، حقیقی سرچشمے سے کٹ جانا اور حقیقی آب حیات سے محروم ہونا ، جس سے انسانی سیرت متاثر ہوتی ہے۔ غرض ان صفات میں سے ہر ایک صفت کی ایک حقیقت ہے اور دونوں کے درمیان مکمل تضاد ہے اور اللہ کے ہاں دونوں برابر نہیں ہیں۔

اب روئے سخن نبی ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے۔ آپ کو تسلی دی جاتی ہے اور آپ کو بتایا جاتا ہے کہ دعوت اسلامی کے حوالے سے آپ کے فرائض اور عمل کی حدود کیا ہیں۔ اپنے فرائض و حدود سے آگے جو معاملات ہیں وہ اللہ کے سپرد کردیں کیونکہ اللہ ہی ان کا واکدار ہے۔

اردو ترجمہ

نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala alththulumatu wala alnnooru

اردو ترجمہ

نہ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala alththillu wala alharooru

اردو ترجمہ

اور نہ زندے اور مردے مساوی ہیں اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے، مگر (اے نبیؐ) تم اُن لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yastawee alahyao wala alamwatu inna Allaha yusmiAAu man yashao wama anta bimusmiAAin man fee alquboori

ان اللہ یسمع ۔۔۔۔۔ فکیف کان نکیر (22 – 26) ”

اس کائنات کی حقیقت اور نفس انسانی کی ماہیت میں امتیازات حقیقی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ لوگوں کا مزاج مختلف ہوتا ہے اور دعوت اسلامی کے حوالے سے ان کا ردعمل بھی جدا ہوتا ہے اس طرح جس طرح بصارت اور اندھے پن کا ، سائے اور دھوپ کا ، اندھیروں اور روشنی کا اور حیات اور موت کا ، اور ان تمام معاملات کی پشت پر اللہ کی حکمت اور قدرت کام کر رہی ہوتی ہے۔

لہٰذا رسول صرف نذیر ہوتا ہے۔ اس کی انسانی طاقت محدود ہوتی ہے۔ وہ قبروں کے اندر پڑے مردوں تک دعوت نہیں پہنچا سکتا۔ نہ ایسے چلتے پھرتے مردوں کو وہ دعوت دے سکتا ہے یا سنا سکتا ہے۔ وہ اصل میں حقیقی مردوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اللہ ہی ہے جو ہر اس شخص کو سنا دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ جب چاہے ، جس طرح چاہے۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی گمراہ ہوتا ہے تو کیوں ہوتا ہے۔ اگر کوئی منہ پھیرتا ہے تو پھیرے بشرطیکہ رسول ﷺ نے دعوت دے دی ہو اور رسالت کی ڈیوٹی ادا کردی ہو۔ لہٰذا جو سنتا ہے ، سنے ، اور جو اعراض کرتا ہے ، اعراض کرے۔ اس سے قبل رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا تھا۔

اردو ترجمہ

تم تو بس ایک خبردار کرنے والے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In anta illa natheerun

فلا تذھب نفسک علیھم حسرت (35: 8) ” پس آپ ﷺ ان پر حسرت کرکے اپنے آپ کو گھلا نہ دیں “۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا تھا۔ آپ ﷺ کا منصب ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ کے دوسرے بھائی رسولوں کا تھا۔ وہ تعداد میں تو بہت زیادہ تھے کیونکہ ہر امت اور ہر قوم کے لیے رسول بھیجا جاتا رہا ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna arsalnaka bialhaqqi basheeran wanatheeran wain min ommatin illa khala feeha natheerun

وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر (35: 24) ” اور کوئی امت نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو “ اگر آپ کی قوم تکذیب کر رہی ہے تو بیشمار رسولوں کی اقوام نے اسی طرح تکذیب کی ہے اور اس تکذیب کی وجہ رسولوں کی تبلیغ کا قصور نہ تھا۔ اور نہ دلائل کی کمی تھی۔

اردو ترجمہ

اب اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو اِن سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں اُن کے پاس ان کے رسول کھلے دلائل اور صحیفے اور روشن ہدایات دینے والی کتاب لے کر آئے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain yukaththibooka faqad kaththaba allatheena min qablihim jaathum rusuluhum bialbayyinati wabialzzuburi wabialkitabi almuneeri

وان یکذبوک فقد ۔۔۔ بالکتب المنیر (35: 25) ” اب اگر یہ لوگ جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رسول کھلے دلائل اور صحیفے اور روشن ہدایات دینے والی کتاب کے کر آئے تھے “۔ بینات سے مراد مختلف قسم کے دلائل ہیں۔ معجزات بھی دلائل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے معجزات طلب کرتے تھے اور تحدی دیتے تھے۔ الزبر سے مراد متفرق صحیفے ، رسائل اور پمفلٹ ہیں ، جن میں نصیحتیں ، ہدایات اور تکالیف و فرائض ہوتے تھے۔ کتاب منیر سے مراد مطابق قول راجح حضرت موسیٰ کی کتاب تورات ہے۔ لیکن ان کی امت نے کتب الہیہ کی تکذیب کی۔

ہمیشہ اکثر اقوام نے رسولوں اور ان کی ہدایات اور کتابوں کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ لہٰذا معاملہ جدید نہیں ہے۔ یہ حضور ﷺ کے ساتھ ہونے والا سلوک کوئی منفرد سلوک نہیں ہے۔ یہ تو ایک معمول بہ طرز عمل ہے۔ لیکن ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کا انجام بھی ایک ہی رہا ہے۔

اردو ترجمہ

پھر جن لوگوں نے نہ مانا اُن کو میں نے پکڑ لیا اور دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma akhathtu allatheena kafaroo fakayfa kana nakeeri

ثم اخذت الذین کفروا (35: 26) ” پھر جن لوگوں نے ظلم کیا میں نے ان کو پکڑا “۔ اور ذرا دیکھو یہ پکڑ کیسی تھی۔

فکیف کان نکیر (35: 26) ” دیکھو لو ، میری سزا کیسی سخت تھی “۔ اللہ کی پکڑ بہت سخت تھی اور وہ یہ تھی کہ اللہ نے ان کو ہلاک کرکے رکھ دیا۔ لہٰذا جو لوگ اس راہ پر گامزن ہیں ، انہیں ذرا ڈرانا چاہئے کہ ان کا انجام ایسا ہی نہ ہوجائے۔

یہ ہے قرآنی ٹچ جس کے ساتھ یہ سبق مکمل ہوتا ہے۔ اب ہم ایک دوسری وادی کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں۔

اردو ترجمہ

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara anna Allaha anzala mina alssamai maan faakhrajna bihi thamaratin mukhtalifan alwanuha wamina aljibali judadun beedun wahumrun mukhtalifun alwanuha wagharabeebu soodun

درس نمبر 203 ایک نظر میں

یہ سبق اس کائنات کی کتاب اور اللہ کی کتاب کے ایک اقتباس پر مشتمل ہے۔ کتاب کائنات کا مطالعہ اور اس کے خوبصورت اور عجیب صحائف پر ایک نظر ہے جو مختلف اقسام اور مختلف موضوعات سے متعلق ہیں۔ جن کے پھل قسما قسم ہیں ، جس کے پہاڑ رنگا رنگ ہیں۔ جن کے انسان ، حیوان اور زمین پر چلنے والے جانور مختلف النوع اور مختلف الاشکال ہیں۔ اس خوبصورت کائنات کا یہ عجیب مطالعہ بہت ہی دلچسپ ہے اور پوری کائنات اس کا موضوع ہے۔ پھر اللہ کی کتاب منزل کا مطالعہ اور اس کے اندر جو تعلیمات ہیں اور جو سچائیاں ہیں اور جو اس سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتی ہے پھر امت مسلمہ کا سابقہ امتوں کا وارث بنایا جانا اور وارثوں کے درجے اور اہل ایمان کے لیے جو عفو و مغفرت اور انعامات تیار کیے گئے ہیں ۔ جنتوں کے مناظر اور جہنم کے مناظر اور کافروں کے حالات ، اور آخر میں یہ قرار داد کہ یہ سب کچھ اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے

درس نمبر 203 تشریح آیات

27 ۔۔۔ تا۔۔۔ 38

الم تر ان اللہ۔۔۔۔۔۔ ان اللہ عزیز غفور (27 – 28) ” “

یہ اس کائنات کی ایک جھلک ہے۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ کتاب اللہ کا سرچشمہ اور کتاب کائنات کا سرچشمہ ایک ہے۔ اس جھلکی میں پوری زمین کو دکھا دیا گیا ہے اور پوری زمین کے رنگ ڈھنگ ظاہر کیے گئے ہیں۔ پھلوں کے رنگ و اقسام ، پہاڑوں کے رنگ اور ان کی انواع ، لوگوں کے رنگ اور شکلیں ، حیوانات اور مویشیوں کی اقسام و انواع ، چند الفاظ کے اندر پوری زمین کے خدوخال ضبط کر دئیے گئے ہیں جس میں زندہ اور غیر زندہ سب چیزوں کو لپیٹ لیا گیا ہے ۔ چند الفاظ کے اندر خداوند قدوس کی اس نمائش کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے جو بہت ہی دلکش ہے اور یہ دلکشیاں پوری زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔

آغاز میں ہم دیکھتے ہیں کہ بارشیں ہو رہی ہیں۔ اور ان بارشوں کے نتیجے میں اس زمین پر رنگا رنگ پھل پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں چونکہ مختلف رنگوں کی نمائش مقصود ہے اس لیے پھلوں کے ذکر کے بجائے ان کے رنگ دکھائے جاتے ہیں۔

فاخرجنا بہ ثمرت مختلفا الوانھا (35: 27) ” اور پھر اس کے ذریعے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں “۔ پھلوں کے رنگ بھی درحقیقت ایک عظیم نمائش گاہ ہے اور اس میں رنگوں کی جو اسکیم ہے ، اس کا کوئی حصہ ، دنیا کے تمام نقاش مل کر بھی تیار نہیں کرسکتے۔ ایک قسم کے پھلوں کا رنگ دوسری اقسام سے مختلف ہے۔ بلکہ ایک قسم کے پھلوں میں بھی مختلف رنگ ہیں اور ایک قسم کا رنگ دوسروں سے مختلف ہے۔ اور ہر دانے کا رنگ بھی دوسروں سے مختلف ہے۔

اور پھلوں کے رنگ کے بعد پھر پہاڑوں کے رنگ ، اور پھلوں کے رنگوں اور پہاڑوں کے رنگوں کے درمیان بظاہر کوئی ربط نظر نہیں آتا لیکن اگر حقیقی مطالعہ اور تحقیق کی جائے تو ایک قدرتی ربط موجود ہے۔ پہاڑوں کے رنگوں اور پھلوں کے رنگوں کے درمیان ایک قسم کا ربط موجود ہے۔ بلکہ پتھروں اور پہاڑوں کے رنگ بھی بعض اوقات پھلوں کے رنگوں جیسے ہوتے ہیں۔

ومن الجبال جدد۔۔۔۔۔ وغرابیب سود (35: 27) ” پہاڑوں میں سفید ، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں “۔ جدد کے معنی راستے اور شاخیں ہیں یعنی دھاریاں۔ آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ ” جدد بیض “ کا رنگ بھی مختلف ہے اسی طرح ” جدد حمر “ کا رنگ بھی مختلف ہے۔ یعنی ہر قسم یعنی سفید و سرخ کا رنگ بھی مختلف ہے اور بعض دھاریاں شدید درجے کی سیاہ ہیں۔

یہاں اس بات کی طرف توجہ دی جاتی ہے کہ ایک رنگ کے پتھر مثلاً سرخ وسفید پھر آپس میں مختلف ہیں۔ پہاڑوں اور پتھروں کے یہ مختلف رنگ ، پھلوں کے مختلف رنگوں کے بعد ذکر ہوئے۔ اس سے انسان کے دل میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور ذوق جمال تیز ہوجاتا ہے۔ یوں یہاں جمال اور خوبصورتی کو بھی تجریدی آرٹ کی شکل میں پیش کیا گیا جو بیک وقت پتھروں میں بھی ذوق نظر کے لیے دامن کش ہے اور پھلوں میں بھی ذوق نظر کو کھینچتا ہے جبکہ پھلوں میں اور پتھروں میں بظاہر کوئی نسبت نہیں ہے۔ لیکن تجریدی ذوق جمال ہر جگہ خوبصورتی کو دیکھ لیتا ہے اور قرآن کی یہ خصوصیت قابل التفات ہے۔

پھر لوگوں کے رنگ ؟ یہ انسانوں کے عام رنگوں تک محدود نہیں ، بلکہ ایک رنگ کے مختلف لوگوں کے رنگ اور ہر ایک کی بناوٹ کے درمیان فرق ہے بلکہ دو لوام بھائی بھی رنگ میں مختلف ہوتے ہیں۔ انسانوں سے آگے پھر پرندوں ، چرندوں اور درندوں کے رنگ ، دابہ ہر حیوان کو کہا جاتا ہے جو زمین پر چلتا ہے۔ انعام اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکریوں کے لیے آتا ہے۔ دواب کے لفظ کے بعد انعام کا خصوصی ذکر اس لیے کیا کہ انسان ان سے زیادہ مانوس ہے۔ ان کے رنگوں کی اسکیم بھی پھلوں اور پتھروں کی طرح حیران کن ہے۔

اس کائنات کے رنگوں کا یہ البم عجیب و غریب ہے۔ قرآن کریم اس کی ورق گردانی کرتا ہے اور انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ چشم بینا کے ساتھ رنگوں کی اس کائناتی اسکیم پر غور کرے۔ صرف اہل علم اور اہل ذوق ہی اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ صرف اہل علم ہی حکمت اور قدرت خداوندی کو پاکر اللہ کی عظمت کا خیال کرکے اس سے ڈرسکتے ہیں۔

انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا (35: 28) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں “۔ کتاب کائنات کے جو اوراق قرآن مجید نے الٹے ہیں وہ اس کے بہت کم اوراق ہیں اور علماء دراصل اس کائنات پر غور کرتے رہتے ہیں ۔ اس لیے علماء ہی دراصل اللہ کی حقیقی معرفت رکھتے ہیں۔ وہ اللہ کی صفتوں کے آثار سے زیادہ واقف ہوتے ہیں اور اللہ کی معرفت کا ادراک اس کی قدرت کے آثار سے ملاحظہ کرتے ہیں۔ اللہ کی تخلیق کے عجائبات کو دیکھ کر اس کی عظمت کا شعور رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ سے صحیح معنوں میں ڈرتے ہیں۔ وہ اس کی حقیقی بندگی اس کے خوف کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اللہ کے بارے میں ان علمائے کائنات کا شعور مہمل اور پیچیدہ شعور نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے بارے میں ان کو گہری معرفت حاصل ہوتی ہے۔

قرآن کے یہ صفحات اللہ کی کتاب کا نمونہ ہیں جبکہ رنگ اور دوسرے کائناتی عجائبات اس کائنات کا نمونہ ہیں اور ان کی حقیقت دراصل علمائے کائنات ہی مانتے ہیں ۔ وہ لوگ جو حقیقی علم کتاب رکھتے ہیں اور جو حقیقی تکوینی علم بھی رکھتے ہیں۔ جو اللہ کی معرفت براہ راست رکھتے ہیں۔ ایسا علم جو ان کے دل کا شعور ہو اور جس کے ذریعہ ان کا دل متحرک ہو۔ جس کے ذریعہ وہ اس کائنات کے خوبصورت رنگوں کو اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں ، اور ان سے خوشی حاصل کرسکتے ہیں اور اللہ کی قدرت کاملہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

اس کائنات کی تشکیل و تخلیق میں حسن و جمال کا عنصر اصل مقصود ہے اور اس حسن کا کمال یہ ہے کہ ہر چیز اپنے فرائض منصبی اپنے طبیعی جمال اور حسن کے واسطے سے ادا کرتی ہے۔ یہ پھول اپنے حسن و جمال اور اپنی نہایت ہی اچھی خوشبو کی وجہ سے شہد کی مکھیوں اور پروانوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ مکھیوں اور پروانوں کی ڈیوٹی پھولوں کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ مادہ اور نر پھولوں کے درمیان ملاپ کرائیں تاکہ پودوں کے ساتھ پھل لگیں۔ یوں یہ پھول اپنی خوبصورتی اور حسن و جمال کے ذریعے یہ کام کرواتے ہیں۔ مادہ اور نر کے درمیان حسن و جمال ایک دوسرے کے لیے باعث کشش ہوتا ہے اور اس طرح دو صنفیں اپنا اپنا فریضہ منصبی اور طبیعی ادا کرتے ہیں۔ یوں تمام اشیاء فریضہ طبیعی حسن و جمال کے ذریعے سر انجام دیتی ہیں۔ پس جمال اس کائنات کی اسکیم میں مقصود بالذات ہے اور یہی وجہ ہے کہ کتاب کائنات کے حسن و جمال کے اظہار کیلئے کتاب الٰہی جابجا انسانی نظر کیلئے دامن کش ہے۔

ان اللہ عزیز غفور (35: 28) ” بیشک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے “۔ وہ زبردست ہے جس نے یہ اشیاء پیدا کیں اور وہ جزاء و سزا بھی دے سکتا ہے۔ وہ غفور ہے اور جو لوگ اس کی اطاعت اور خوف و خشیت میں تقصیر کرتے ہیں وہ ان کو معاف کرتا ہے۔ نیز جو لوگ اللہ کی صنعت کے عجائبات میں غور نہیں کرتے وہ ان کو بھی معاف کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina alnnasi waalddawabbi waalanAAami mukhtalifun alwanuhu kathalika innama yakhsha Allaha min AAibadihi alAAulamao inna Allaha AAazeezun ghafoorun

اردو ترجمہ

جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے اُنہیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yatloona kitaba Allahi waaqamoo alssalata waanfaqoo mimma razaqnahum sirran waAAalaniyatan yarjoona tijaratan lan taboora

اب صفحات کائنات سے روئے سخن صفحات کتاب الٰہی کی طرف پھرجاتا ہے کہ جو لوگ اس کی تلاوت کرتے ہیں ان کے پیش نظر کیا ہے اور ان کے لیے کیا کیا انعامات تیار ہیں۔

ان الذین یتلون۔۔۔۔۔ انہ غفور شکور (29 – 30) ” ۔

تلاوت کتاب سے مراد صرف جبرا یا خاموشی کے ساتھ کلمات کتاب دہرانے کے بجائے کوئی اور چیز ہے اور وہ ہے قرآن کو تدبر کے ساتھ پڑھنا۔ جس کے بعد پڑھنے والا کسی حقیقت کا ادراک کرے اور اس سے متاثر ہو۔ اس کے بعد وہ اس پر عمل کرے اور اپنی زندگی کو اس پر ڈھالے۔ یہی وجہ ہے کہ تلاوت قرآن کے بعد اقامت صلوٰۃ اور انفاق کو ذکر ہوا ، خواہ پوشیدہ ہو یا علانیہ ہو۔ اور اس کے بعد پھر ایسے لوگوں کو یہ امید ہو کہ اس سودے میں انہیں کوئی گھاٹا نہ ہوگا۔ ایسے لوگوں کو یہ معرفت حاصل ہو کہ اللہ کے ہاں جو اجر ہے وہ ان امور سے بہتر ہے جو ان کے ہاں ہیں۔ ان کو یہ یقین بھی ہو کہ وہ ایک ایسی تجارت کر رہے ہیں جس کا فائدہ محفوظ ہے اور ضمانت شدہ ہے۔ وہ اللہ وحدہ سے معاملہ کیے ہوئے ہیں اور اللہ کے ساتھ کیا ہوا بیوپار بہت ہی نفع بخش ہوتا ہے۔ یہ تجارت اخروی تجارت ہے جس میں منافع کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک ایسی تجارت ہے جس میں لین دین بالکل پورا پورا ہوتا ہے اور اس پر فضل اللہ بھی ہوتا ہے۔ وہ (غفور و شکور ہے) تقصیرات کو معاف کرتا ہے اور بہت ہی شکر کرنے والا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے شکر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ بہترین جزاء دیتا ہے لیکن لفظ شکر انسان کے لیے حوصلہ افزائی کے لیے استعمال ہوا ہے اور یہ بات انسان کو شرم دلانے کے لیے اور حیا کرنے کے لیے کہی گئی ہے کہ جب اللہ منعم حقیقی اپنے بندوں کا شکر کرتا ہے تو پھر بندوں کا تو فرض ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے شکر میں رطب اللسان رہیں۔

اس کے بعد اس کتاب کے مزاج کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے اندر حق ہی حق ہے اور اس کے وارث جنتوں کے وارث ہوں گے۔ آگے اس حق کے وارثوں کی بات آرہی ہے۔

اردو ترجمہ

(اس تجارت میں انہوں نے اپنا سب کچھ اِس لیے کھپایا ہے) تاکہ اللہ اُن کے اجر پورے کے پورے اُن کو دے اور مزید اپنے فضل سے ان کو عطا فرمائے بے شک اللہ بخشنے والا اور قدردان ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liyuwaffiyahum ojoorahum wayazeedahum min fadlihi innahu ghafoorun shakoorun
437