آیت نمبر 15
اور دوبارہ اعلان کیا جاتا ہے کہ دیکھو میں تو اپنی راہ پر چل رہا ہوں ، میں بندگی صرف اللہ کی کرتا ہوں ، نظام زندگی صرف اللہ کا اپناتا ہوں ، تم بھی جس راہ کو پسند کرو اور جس کی بندگی چاہو ، اختیار کرو لیکن لیکن تم اس عظیم دیوالیہ پن سے دوچار ہوگے۔ اتنا بڑا خسارہ ہوگا تمہیں جس سے بڑا اور کوئی خسارہ نہ ہوگا۔ تم اپنی جان کو جہنم تک پہنچادوگے۔ تمہیں اہل و عیال کا خسران ہوگا چاہے مومن ہو یا کافر۔ اگر اہل مومن ہوں تو وہ جنتوں کو چلے جائیں گے اور یہ جہنم میں ان سے بہرحال کم ہوں گے۔ اگر کافر ہوں تو جس طرح خود کو گنوایا اسی طرح ان کو بھی گنوایا۔ دونوں جہنم میں ہوں گے۔
ذٰلک ھو الخسران المبین (39: 15) ” یہی کھلا دیوالیہ ہے “۔ اور اس خسارے کا ایک منظر یہ ہے :
آیت 15 { فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ } ”تو تم جس کو چاہو پوجو اس کے سوا !“ { قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } ”آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اصل میں خسارے میں رہنے والے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو خسارے میں ڈالا قیامت کے دن۔“ یہاں پر تو وہ حرام خوری کے ذریعے خود بھی مزے میں ہیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی عیش و عشرت کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔ لیکن اس روش کو اپنا کر وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوئی بھلائی یا خیر خواہی نہیں کر رہے بلکہ حقیقت میں وہ خود کو اور ان کو جہنم کا ایندھن بنانے کے اسباب پیدا کر رہے ہیں۔ سورة التحریم ‘ آیت 6 میں اہل ایمان کو اس حوالے سے خصوصی طور پر حکم دیا گیا ہے : { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا…} ”اے اہل ایمان ! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے…“ لیکن اس کے برعکس جو شخص خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ کا مستحق بنا لے اس سے بڑھ کر اور کون گھاٹے میں ہوگا ! { اَلَا ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ } ”آگاہ ہو جائو یہی تو کھلا خسارا ہے۔“