سورہ زمر (39): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Az-Zumar کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الزمر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ زمر کے بارے میں معلومات

Surah Az-Zumar
سُورَةُ الزُّمَرِ
صفحہ 460 (آیات 11 سے 21 تک)

قُلْ إِنِّىٓ أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ ٱللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ ٱلدِّينَ وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ ٱلْمُسْلِمِينَ قُلْ إِنِّىٓ أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّى عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ قُلِ ٱللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُۥ دِينِى فَٱعْبُدُوا۟ مَا شِئْتُم مِّن دُونِهِۦ ۗ قُلْ إِنَّ ٱلْخَٰسِرِينَ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْخُسْرَانُ ٱلْمُبِينُ لَهُم مِّن فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ ٱلنَّارِ وَمِن تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ۚ ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ ٱللَّهُ بِهِۦ عِبَادَهُۥ ۚ يَٰعِبَادِ فَٱتَّقُونِ وَٱلَّذِينَ ٱجْتَنَبُوا۟ ٱلطَّٰغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ لَهُمُ ٱلْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ ٱلَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ ٱلْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُۥٓ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ هَدَىٰهُمُ ٱللَّهُ ۖ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمْ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ ٱلْعَذَابِ أَفَأَنتَ تُنقِذُ مَن فِى ٱلنَّارِ لَٰكِنِ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْا۟ رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِّن فَوْقِهَا غُرَفٌ مَّبْنِيَّةٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ ۖ وَعْدَ ٱللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ ٱللَّهُ ٱلْمِيعَادَ أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَسَلَكَهُۥ يَنَٰبِيعَ فِى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِۦ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَٰنُهُۥ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَىٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُۥ حُطَٰمًا ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ
460

سورہ زمر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ زمر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) اِن سے کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس کی بندگی کروں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innee omirtu an aAAbuda Allaha mukhlisan lahu alddeena

درس نمبر 217 ایک نظر میں

اس سبق پر آخرت کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اور آخرت کے عذاب کے مختلف رنگ اور سائے ہیں۔ نیز آخرت کے ثواب کی امیدیں بھی ہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ خالص توحید کے عقیدے کا اعلان کردیں۔ اور یہ بھی اعلان کردیں کہ اگر میں اس سے انحراف کروں تو مجھے عذاب الہٰی کا ڈر ہے اور یہ کہ میں اپنے منصوبے اور منہاج پر قائم ہوں اور تم جانو اور تمہارا منہاج وطریقہ۔ البتہ اسلامی منہاج کا انجام یہ ہوگا اور کفریہ منہاج کا انجام یہ ہوگا۔

درس نمبر 217 تشریح آیات

آیت نمبر 11 تا 13

ترجمہ : یہ نبی ﷺ کی طرف سے اعلان ہے کہ آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ اللہ وحدہ کی بندگی کریں اور دین اس کے لیے خالص کردیں۔ اور اس طرح آپ پہلے مسلمان بن جائیں اور یہ بھی اعلان کردیں کہ اگر میں اپنے رب کی معصیت کا ارتکاب کرلوں تو میرے لیے بھی عذاب الہٰی کا خطرہ ہے۔ اسلام نے جو عقیدۂ توحید پیش کیا ہے اس کو خالص کرنے کے لیے اس اعلان کی بڑی اہمیت ہے۔ اس عقیدے کے حوالے سے نبی ﷺ بھی اللہ کے ایک بندے ہی ہیں اور آپ ﷺ مقام بندگی سے آگے نہیں جاسکتے ۔ اور تمام انسان بھی بندگی کے مقام پر مساوی طور پر کھڑے ہیں اور صرف ذات باری ہی ہے جو ان بندوں کے اوپر نگہبان ہے۔ یہ ہے مراد اس آیت سے۔

اس طرح مقام الوہیت اور مقام بندگی اپنی اپنی جگہ پر الگ ہوجاتے ہیں اور بالکل متمیز ہوجاتے ہیں۔ ان میں نہ کوئی اختلاط

ہوتا ہے اور نہ کوئی اشتباہ ہوتا ہے اور وحدانیت کی صفت اللہ وحدہ کے لیے مختص ہوجاتی ہے اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں رہتا ۔ اور حضرت محمد ﷺ بحیثیت بندہ دوسرے بندوں کے ساتھ ہم صفت کھڑے ہیں اور آپ بھی اللہ کی معصیت کے ارتکاب سے ڈرتے ہیں لہٰذا بتوں اور فرشتوں کی سفارش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ اللہ کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ ایک بار پھر اللہ کی بندگی کا اعلان فرماتے ہیں اور اصرار کے ساتھ بندگی کا اعلان فرماتے ہیں اور مشرکین سے کہہ دیا جاتا ہے کہ تم جانو اور تمہارا دردناک انجام۔

اردو ترجمہ

اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلم بنوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waomirtu lian akoona awwala almuslimeena

اردو ترجمہ

کہو، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innee akhafu in AAasaytu rabbee AAathaba yawmin AAatheemin

اردو ترجمہ

کہہ دو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُسی کی بندگی کروں گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Quli Allaha aAAbudu mukhlisan lahu deenee

اردو ترجمہ

تم اُس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو کہو، اصل دیوالیے تو وہی ہیں جنہوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا خوب سن رکھو، یہی کھلا دیوالہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FaoAAbudoo ma shitum min doonihi qul inna alkhasireena allatheena khasiroo anfusahum waahleehim yawma alqiyamati ala thalika huwa alkhusranu almubeenu

آیت نمبر 15

اور دوبارہ اعلان کیا جاتا ہے کہ دیکھو میں تو اپنی راہ پر چل رہا ہوں ، میں بندگی صرف اللہ کی کرتا ہوں ، نظام زندگی صرف اللہ کا اپناتا ہوں ، تم بھی جس راہ کو پسند کرو اور جس کی بندگی چاہو ، اختیار کرو لیکن لیکن تم اس عظیم دیوالیہ پن سے دوچار ہوگے۔ اتنا بڑا خسارہ ہوگا تمہیں جس سے بڑا اور کوئی خسارہ نہ ہوگا۔ تم اپنی جان کو جہنم تک پہنچادوگے۔ تمہیں اہل و عیال کا خسران ہوگا چاہے مومن ہو یا کافر۔ اگر اہل مومن ہوں تو وہ جنتوں کو چلے جائیں گے اور یہ جہنم میں ان سے بہرحال کم ہوں گے۔ اگر کافر ہوں تو جس طرح خود کو گنوایا اسی طرح ان کو بھی گنوایا۔ دونوں جہنم میں ہوں گے۔

ذٰلک ھو الخسران المبین (39: 15) ” یہی کھلا دیوالیہ ہے “۔ اور اس خسارے کا ایک منظر یہ ہے :

اردو ترجمہ

اُن پر آگ کی چھتریاں اوپر سے بھی چھائی ہوں گی اور نیچے سے بھی یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، پس اے میرے بندو، میرے غضب سے بچو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahum min fawqihim thulalun mina alnnari wamin tahtihim thulalun thalika yukhawwifu Allahu bihi AAibadahu ya AAibadi faittaqooni

آیت نمبر 16

فی الواقع یہ ایک خوفناک منظر ہے۔ یہ آگ کا منظر ہے۔ ان کے اوپر بھی آگ کی چھڑیاں ہوں گی اور نیچے بھی اور وہ ان چھتریوں میں لپٹے ہوں گے اور آگ کے یہ شعلے جنہیں چھتریاں کہا گیا ہے ان پر حاوی ہوں گے۔ یہ خوفناک منظر اللہ اپنے بندوں کے سامنے اس وقت پیش کرتا ہے جبکہ ابھی وہ دنیا میں ہیں اور اگر وہ اس سے بچنا چاہیں تو بچ سکتے ہیں۔

ذٰلک یخوف اللہ به عبادہ (39: 16) ” یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے “۔ ان کو زور زور سے پکارتا ہے کہ بچو بچو ! آگے بہت بڑا خطرہ ہے۔

یٰعباد فاتقون (39: 16) ” اے میرے بندو ' میرے غضب سے بچو “۔ اور دوسری جانب ' بالمقابل پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں وہ لوگ جو نجات پاچکے ہیں ' جو دنیا میں اس برے انجام سے ڈرگئے تھے :

اردو ترجمہ

بخلاف اس کے جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا اُن کے لیے خوشخبری ہے پس (اے نبیؐ) بشارت دے دو میرے اُن بندوں کو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena ijtanaboo alttaghoota an yaAAbudooha waanaboo ila Allahi lahumu albushra fabashshir AAibadi

آیت نمبر 17 تا 18

طاغوت کا صیغہ طغیان سے ہے۔ جس طرح ملکوت ' عظموت اور رحموت کے صغے بنے ہیں اس کے مفہوم میں ضخامت اور مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس کا مروج مفہوم یہ ہے کہ جو سرکشی کرے اور حد سے تجاوز کرجائے ' وہ طاغوت ہے۔ اور جو لوگ طاغوت کی بندگی اور طاعت سے اجتناب کرتے ہیں وہ لوگ کون ہیں ؟ وہ کسی شکل میں بھی طاغوت کی بندگی نہ کریں۔ اور یہ وہی لوگ ہوں گے جو ہر چھوٹے بڑے کام میں اللہ کی بندگی کرنے والے ہوں ، اس کی طرف لوٹنے والے ہوں اس کی طرف رجوع کرنے والے ہوں اور بندگی کے صحیح مقام پر کھڑے ہوں۔

ایسے ہی لوگوں کے لیے بشارت عالم بالا سے ہے اور رسول اللہ ؐ ان کو اس کی خوشخبری دے رہے ہیں۔

لھم البشرٰی فبشرعباد (39: 17) ” ان کے لیے خوشخبری ہے۔ (پس اے نبی ﷺ بشارت دے دو میرے ان بندوں کو “۔ ان کے لیے عالم بالا سے بشارت آئی اور رسول اللہ ؐ نے سنا دی تو اس سے بڑی تعمت اور کیا ہوسکتی ہے ؟ اللہ کے ایسے کی صفت یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ اللہ کی جو بات سنتے ہیں اسے غور سے سنتے ہیں۔ پھر اس بات کی وہ اطاعت کرتے ہیں کیونکہ وہ بہت ہی احسن ہوتی ہے اور دوسری باتوں کو وہ ترک کردیتے ہیں۔ لہٰذا وہ صرف اچھی بات ہی لیتے ہیں ۔ اس کے ذریعہ اپنے اذہان وقلوب کو صاف کرتے ہیں۔ اور ہمشہ یوں ہوتا ہے کہ پاک اور طب نفوس پاک اور احسن باتوں کے لیے ہمشہ کھلے ہوتے ہیں۔ وہ فوراً قبول کرتے ہیں اور ناپاک اور خبیث دل طیب چیزوں کے لیے بند ہوتے ہیں۔ اور گندی باتیں ہی قبول کرتے ہیں۔

اولٰئک الذین ھدٰھم اللہ (39: 18) ” یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے “۔ کیونکہ اللہ نے دیکھ لیا کہ ان کے دلوں میں خیر موجود ہے۔ لہٰذا اللہ نے ان کو خیر کی طرف ہدایت دی اور انہوں نے اچھی باتوں کو سنا اور قبول کرلیا۔ اور ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے۔

وأولٰئک ھم اولوا الباب (39: 18) ” اور یہی لوگ دانشمند ہیں “۔ عقل سلیم ہی انسانوں کو پاکیزگی کی طرف مائل کرتی ہے ۔ نجات کی طرف مائل کرتی ہے۔ لہٰذا جو شخص پاکیزگی اور نجات کی طرف میلان نہیں رکھتاوہ گویا مسلوب العقل ہے اور اس نے اللہ کی دی ہوئی نعمت سے انکار کردیا ہے۔ قبل اس کے پاکیزہ لوگوں کے انعام و انجام کو پیش کیا جائے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ طاغوت کے یہ بندے دراصل عملاً اگ تک پہنچ گئے ہیں اور ان میں سے ایک بھی اگ سے نجات نہیں پاسکتا۔

اردو ترجمہ

جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yastamiAAoona alqawla fayattabiAAoona ahsanahu olaika allatheena hadahumu Allahu waolaika hum oloo alalbabi

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) اُس شخص کو کون بچا سکتا ہے جس پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہو؟ کیا تم اُسے بچا سکتے ہو جو آگ میں گر چکا ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaman haqqa AAalayhi kalimatu alAAathabi afaanta tunqithu man fee alnnari

آیت نمبر 19

خطاب رسول خدا سے ہے۔ اور اگر رسول اللہ ؐ ان کو آگ سے نہیں بچا سکتے تو آپ کے سوا اور پھر کون ہے جو ان لوگوں کو آگ سے بچاسکے۔ ان جہنمیوں کے منظر کے بالمقابل ان لوگوں کا منظر ہے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور ان باتوں سے ڈرتے ہیں جن سے اللہ نے ان کو ڈرایا ہے۔ گویا یہ جہنمی عملاً جہنم میں ہیں اور جنتی عملاً جنت میں ہیں۔

اردو ترجمہ

البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈر کر رہے اُن کے لیے بلند عمارتیں ہیں منزل پر منزل بنی ہوئی، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lakini allatheena ittaqaw rabbahum lahum ghurafun min fawqiha ghurafun mabniyyatun tajree min tahtiha alanharu waAAda Allahi la yukhlifu Allahu almeeAAada

آیت نمبر 20

اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے منزل بنی ہوئی بلند عمارتوں یعنی بالاخانوں کا یہ منظر اہل جہنم کے اس منظر کے بالمقابل ہے جن سے اوپر بھی چھتریاں ہوں گی آگ کی اور نیچے بھی ہوں گی۔ یہ تقابل قرآن کے انداز کلام کا ایک حصہ ہے۔ اور یہ ان تمام مناظر میں پایا جاتا ہے جو قرآن مجید میں تقابلی مناظر کے طور پت پیش کئے گئے ہیں۔

یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ کا وعدہ ہمشہ واقع ہوکر رہتا ہے۔ جن مسلمانوں نے سب سے پہلے اس قرآن کوسنا۔ انہوں نے ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ ان کے لیے کوئی وعدہ یا وعید دورنہ تھا ۔ ان کے قلوب اور ان کے احساسات تو ان کی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ یہ وعدے اور وعید تو ان کے لیے مشاہدہ تھے۔ یہ وعدے اور وعید سن کر وہ کانپ اٹھتے تھے اور ان کے نفوس اس طرح اپنا رخ قرآن کے ساتھ بدل دہتے تھے۔ جس طرح بادنما ہوا کے ساتھ رخ کو بدل دیتا ہے۔ اور وہ اپنی زندگی کو اخروی مناظر کے مطابق بدل دیئے تھے اور وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مناظر قیامت میں زندہ رہ رہے تھے۔ یہی رویہ ہونا چاہئے ایک مسلمان کا قرآن کے حوالے سے کہ وہ قرآن کو سمجھے اور اپنی عملی زندگی کے رخ کو قرآن کے رخ پر ڈالتا رہے۔

اردو ترجمہ

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں، پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں، پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئیں، پھر آخرکار اللہ اُن کو بھس بنا دیتا ہے در حقیقت اِس میں ایک سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara anna Allaha anzala mina alssamai maan fasalakahu yanabeeAAa fee alardi thumma yukhriju bihi zarAAan mukhtalifan alwanuhu thumma yaheeju fatarahu musfarran thumma yajAAaluhu hutaman inna fee thalika lathikra liolee alalbabi

درس نمبر 218 ایک نظر میں

یہ سبق عالم نباتات کی ایک جھلک دکھاتا ہے کہ کس طرح اللہ پانی آسمانوں سے اتارتا ہے اور پھر زمین سرسبز ہو کر فصلیں اگتی ہیں اور یہ فصلیں اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہ مثال قرآن میں زمین کی بےثباتی اور حیات دنیا کے اختصار کے لیے دی جاتی ہے۔ اور اہل فکر ونظر کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس پر غور و فکر کریں۔ پھر آسمانوں سے پانی کے نزول کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ کتاب بھی ایک قسم کا باران رحمت ہے جو آسمانوں سے نازل ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے خشک دل سرسبز ہوجاتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ اس موقعہ پر ایک نہایت ہی اشاراتی تصویر بھی پیش کی جاتی ہے کہ کھلے دل اس کتاب سے کس طرح استفادہ کرتے ہیں۔ وہ اس سے ڈرتے ہیں ، ان پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ، رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور نرم ہوکر ان کے اندر قبولیت پیدا ہوتی ہے اور پھر ہدایت قبول کرکے وہ خوب مطمئن ہوجاتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کی تصویر جو ذکر الہٰی کی طرف لبیک کہتے ہیں اور ان کی تصویر جنکے دل پتھر ہوگئے ہیں۔ آخر میں توحید کی حقیقت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور ایک مثال دی جاتی ہے کہ الٰہ واحد کی بندگی کرنے والوں اور متعدد الہوں کی بندگی کرنے والوں کی حالت کیا ہوتی ہے۔ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ دونوں کا ایک حال نہیں

ہوسکتا ، مثلاً ایک غلام جسکے مختلف اور باہم لڑنے جھگڑنے والے مالک ہوں اور دوسرا غلام جو صرف ایک ہی سنجیدہ مالک کا غلام ہو۔

درس نمبر 218 تشریح آیات

آیت نمبر 21

یہ منظر جس کی طرف یہاں قرآن کریم ہماری توجہ مبذول کراتا ہے ، ایک ایسا منظر ہے جو اس کرۂ ارض پر ہر جگہ دہرایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس منظر میں جو عبائبات ہیں ان کی تعجب خیزی بوجہ بار وہرائے جانے کے ، ختم ہوجاتی ہے اور انسان ان سے مانوس ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم انہی مناظر کو دوبارہ گہرے غوروفکر کے لیے پیش کرتا ہے کہ انسان اس منظر کی ترقی پر مرحلہ وار غور کرے۔ دیکھو ، آسمانوں سے پانی نازل ہورہا ہے۔ یہ پانی کیا ہے اور کس طرح یہ آرہا ہے۔ یہ چونکہ نازل ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے ہم اس پر سے یوں ہی گزر جاتے ہیں۔ یہ پانی اور اس کی تخلیق بذات خود ایک معجزہ ہے۔ اگرچہ ہمیں اس قدر معلوم ہوگیا ہے کہ یہ ایک متعین انداز میں ہائیڈروجن کے دو ذروں کا آکسیجن کے ایک ذرے کے ملاپ کا نام ہے۔ لیکن ہمارا یہی علم ہے کہ اللہ نے کائنات کے اندر ہائیڈروجن اور آکسیجن کو پیدا کیا اور پھر ایسے حالات پیدا کیے۔ کہ یہ ذرے آپس میں مل گئے اور اس اتحاد کے نتیجے میں پانی وجود میں آگیا۔ اور اس کے بعد اس زمین پر حیات کا پیدا کیا جانا ممکن بنا دیا گیا اور اللہ کا دست قدرت ان تمام امور کے پیچھے ہے۔ اور یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی صنعت کاریاں ہیں۔ پھر اسمانوں سے اس پانی کا نازل کرنا ، اس مخصوص انداز میں ایک دوسرا معجزہ ہے کہ اس زمین اور اس کائنات کو اس انداز میں بنایا کہ پانیوں کا برسنا ممکن ہوگیا۔ پھر اس کے بعد جو مرحلہ آتا ہے وہ یہ کہ

فسلکه ینابیع فی الارض (39: 21) ” پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا “۔ اس میں وہ دریا بھی شامل ہیں جو زمین پر بہتے ہیں۔ اس میں وہ ذخیرے بھی شامل ہیں جو سطح زمین کے نیچے ادھر ادھر چلتے ہیں۔ اور سورتوں اور چشموں کی شکل میں نکلتے ہیں۔ یا اس سطح زمین کے اندر کنویں نکال کر جاری کیے جاتے ہیں اس طرح کہ اللہ اس پانی کو سطح کے قریب رکھتا ہے اور یہ پانی دور تک نہیں جاتے کہ کبھی واپس ہی نہ ہوسکیں۔

ثم یخرج به زرعا مختلفا الوانه (39: 21) ” پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جس کی قسمیں مختلف ہیں “۔ نباتاتی زندگی جو بارش کے نتیجے میں نمودار ہوتی ہیں اور بارش سے پیدا ہوتی ہے ایک ایسا معجزہ ہے جس کا مقابلہ انسانی جدوجہد نہیں کرسکتی ۔ ایک چھوٹی سی کونپل جو زمین سے سر نکالتی ہے ، زمین کے بھاری بوجھ کو پھاڑ کر اور سر نکال کو کھلی فضا مٰن سانس لیتی ہے اور روشنی اور ہوا سے لطف اندوز ہوتی ہے اور آزاد فضا میں آزادی سے لہلہاتی ہے اور پھر یہ فضا میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھتی ہے۔ صرف اس کو نپل کا ملاحظہ ہی انسان کے دل و دماغ کو ذکر الہٰی سے بھر دیتا ہے۔ اور اللہ خالق کائنات کے احساس کی ایک لہر انسان کے ذہین میں اٹھا دیتا ہے وہ اللہ جس نے ہر چیز کو اس کا وجود بخشا اور پھر اسے ہدایت دی پھر ایک ہی قطعہ زمین میں مختلف قسم کے پھل ، مختلف پھل نہیں بلکہ ایک چھوٹا سا پودا بلکہ ایک چھوٹا سا پھول بھی قدرت باری تعالیٰ کی ایک عظیم نمائش گاہ ہے۔ انسان صرف ایک پھول کا تجزیہ کرکے ہی اپنے عجز کا اظہار کردیتا ہے۔ اور پھر یہ سرسبز فصل اپنی سر سبزی ختم کرکے پک جاتی ہے اور اپنے دن پورے کرکے۔

ثم یھیج فترہ مصفرا (39: 21) ” پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑگئیں “۔ اور اس کائنات کے ناموس فطرت میں اس کے لیے جو انجام مقرر ہے اس تک وہ پہنچ جاتی ہے اور مراحل حیات طے کرکے پک جاتی ہے۔

ثم یجعله حطاما (39: 21) ” پھر آخر کار اللہ ان کو ان کو بھس بنا دیتا ہے “۔ اس کا وقت مقرر آپہنچتا ہے۔ وہ اپنا کردار ادا کردیتی ہے۔ اور اس کا دور ختم ہوتا ہے جو زندگی بخشنے والے اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمایا تھا۔

ان فی ذٰلک لذکرٰی لاولی الالباب (39: 21) ” درحقیقت اس میں سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے “۔ وہ عقل رکھنے والے جو غور کرتے ہیں ، سبق لیتے ہیں اور اللہ ان کو جو صلاحیتیں دی ہیں اور جو عقل وخرد دی ہے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

460