سورہ زمر: آیت 11 - قل إني أمرت أن أعبد... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورہ زمر

قُلْ إِنِّىٓ أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ ٱللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ ٱلدِّينَ

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) اِن سے کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس کی بندگی کروں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innee omirtu an aAAbuda Allaha mukhlisan lahu alddeena

آیت 11 کی تفسیر

درس نمبر 217 ایک نظر میں

اس سبق پر آخرت کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اور آخرت کے عذاب کے مختلف رنگ اور سائے ہیں۔ نیز آخرت کے ثواب کی امیدیں بھی ہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ خالص توحید کے عقیدے کا اعلان کردیں۔ اور یہ بھی اعلان کردیں کہ اگر میں اس سے انحراف کروں تو مجھے عذاب الہٰی کا ڈر ہے اور یہ کہ میں اپنے منصوبے اور منہاج پر قائم ہوں اور تم جانو اور تمہارا منہاج وطریقہ۔ البتہ اسلامی منہاج کا انجام یہ ہوگا اور کفریہ منہاج کا انجام یہ ہوگا۔

درس نمبر 217 تشریح آیات

آیت نمبر 11 تا 13

ترجمہ : یہ نبی ﷺ کی طرف سے اعلان ہے کہ آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ اللہ وحدہ کی بندگی کریں اور دین اس کے لیے خالص کردیں۔ اور اس طرح آپ پہلے مسلمان بن جائیں اور یہ بھی اعلان کردیں کہ اگر میں اپنے رب کی معصیت کا ارتکاب کرلوں تو میرے لیے بھی عذاب الہٰی کا خطرہ ہے۔ اسلام نے جو عقیدۂ توحید پیش کیا ہے اس کو خالص کرنے کے لیے اس اعلان کی بڑی اہمیت ہے۔ اس عقیدے کے حوالے سے نبی ﷺ بھی اللہ کے ایک بندے ہی ہیں اور آپ ﷺ مقام بندگی سے آگے نہیں جاسکتے ۔ اور تمام انسان بھی بندگی کے مقام پر مساوی طور پر کھڑے ہیں اور صرف ذات باری ہی ہے جو ان بندوں کے اوپر نگہبان ہے۔ یہ ہے مراد اس آیت سے۔

اس طرح مقام الوہیت اور مقام بندگی اپنی اپنی جگہ پر الگ ہوجاتے ہیں اور بالکل متمیز ہوجاتے ہیں۔ ان میں نہ کوئی اختلاط

ہوتا ہے اور نہ کوئی اشتباہ ہوتا ہے اور وحدانیت کی صفت اللہ وحدہ کے لیے مختص ہوجاتی ہے اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں رہتا ۔ اور حضرت محمد ﷺ بحیثیت بندہ دوسرے بندوں کے ساتھ ہم صفت کھڑے ہیں اور آپ بھی اللہ کی معصیت کے ارتکاب سے ڈرتے ہیں لہٰذا بتوں اور فرشتوں کی سفارش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ اللہ کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ ایک بار پھر اللہ کی بندگی کا اعلان فرماتے ہیں اور اصرار کے ساتھ بندگی کا اعلان فرماتے ہیں اور مشرکین سے کہہ دیا جاتا ہے کہ تم جانو اور تمہارا دردناک انجام۔

آیت 11 { قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے مجھے تو حکم ہوا ہے کہ میں بندگی کروں اللہ کی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔“ یہ وہی الفاظ ہیں جو اس سے پہلے آیت 2 میں بھی آ چکے ہیں۔ یہ مضمون اس سورت کا عمود ہے اور اس میں بار بار آئے گا۔ چناچہ اس مضمون کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اس حوالے سے بنیادی طور پر یہ نکتہ ذہن نشین کر لیجیے کہ ہرچیز کی طرح عبادت کا بھی ایک ظاہر ہے اور ایک اس کی اصل حقیقت ہے۔ عبادت کا ظاہر اس کی رسومات ہیں۔ ”رسم“ کسی شے کی ظاہری شکل کو کہا جاتا ہے۔ مثلاً یہ لکھائی میں جو حروف اور الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کی ظاہری اشکال کو ”رسم“ رسم الخ ط کہتے ہیں۔ جیسے قرآن کا موجودہ رسم الخط ”رسم عثمانی“ کہلاتا ہے۔ اب اگر نماز کی مثال لیں تو نماز میں کھڑے ہونا ‘ اللہ کی حمد و تسبیح کرنا ‘ رکوع و سجدہ کرنا مراسم عبادت ہیں۔ بعض دوسرے مذاہب میں اپنے معبود کے سامنے مودب کھڑے ہونا ‘ سلیوٹ کرنا اور ہاتھ جو ڑناوغیرہ ان کی عبادت کے مراسم ہیں۔ چناچہ عرف عام میں مراسم ِعبودیت عبادت کی ظاہری شکل و صورت کو ہی ”عبادت“ سمجھا جاتا ہے جبکہ عبادت کی اصل حقیقت کچھ اور ہے۔ اب عبادت کی اصل حقیقت کو یوں سمجھیں کہ یہ بھی دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک جسد ہے اور ایک اس کی روح۔ اصل عبادت کا جسد ”اطاعت“ ہے۔ لیکن عبادت کے حوالے سے اطاعت کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے لفظ ”عبادت“ کے لغوی معنی کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ عبادت کا لفظ ”عبد“ سے مشتق ہے اور عبد کے معنی غلام کے ہیں۔ عبد یا غلام اپنے آقا کی ہمہ تن اور ہمہ وقت اطاعت غلامی کا پابند ہوتا ہے۔ چناچہ قرآن میں اس سے پہلے ہم یہ لفظ دو مرتبہ غلامی اور کلی اطاعت کے معنی میں پڑھ چکے ہیں۔ سورة المومنون میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ﷺ کے بارے میں فرعون کا یہ قول نقل ہوا ہے : { وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ۔ } کہ ان کی قوم تو ہماری غلام ہے۔ اسی طرح سورة الشعراء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس مکالمے کا حوالہ آچکا ہے جس میں آپ علیہ السلام نے فرعون کو مخاطب کر کے فرمایا تھا : { وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ۔ ”اور یہ احسان جو تو مجھے جتلا رہا ہے کیا یہ اس کا بدلہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے ؟“ اب ظاہر ہے بنی اسرائیل فرعون یا قبطیوں کی پرستش یا پوجا تو نہیں کرتے تھے ‘ وہ ان کی نماز نہیں پڑھتے تھے اور انہیں سجدہ بھی نہیں کرتے تھے۔ البتہ وہ ان کے غلام تھے اور اس حیثیت میں ان کی ”اطاعت“ کے پابند تھے۔ لہٰذا متذکرہ بالا دونوں آیات میں عبد کا لفظ کلی اطاعت یا غلامی کے مفہوم میں ہی استعمال ہوا ہے۔ چناچہ اطاعت یا غلامی دراصل عبادت کا جسد ہے جبکہ اس کی روح ”محبت“ ہے۔ یعنی اگر کسی کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی اطاعت کی جائے تو وہ اس کی عبادت ہوگی ‘ جبکہ جبری اطاعت عبادت نہیں ہوسکتی۔ مثلاً 1947 ء سے پہلے برصغیر میں ہم لوگ انگریز کی اطاعت کرتے تھے ‘ لیکن ہماری اس اطاعت کو عبادت نہیں کہا جاسکتا ‘ اس لیے کہ یہ جبری اطاعت تھی۔ امام ابن تیمیہ رح اور ان کے شاگرد حافظ ابن قیم رح نے عبادت کی تعریف یوں کی ہے : العبادۃ تجمع اََصْلَین : غایۃَ الحُبِّ مع غایۃ الذُّلِّ والخُضوع یعنی اللہ کی عبادت دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے : اس کے ساتھ غایت درجے کی محبت اور اس کے سامنے غایت درجے کا تذلل اور عاجزی کا اظہار۔ دوسرے لفظوں میں اللہ کی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ انسان حد درجے کی محبت کے ساتھ خود کو اللہ کے سامنے بچھا دے اور اس کا مطیع و منقاد ہوجائے۔ چناچہ اللہ کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی کلی اطاعت کرنا اصل عبادت ہے ‘ جبکہ مراسم عبادت کی حیثیت عبادت کے ”ظاہر“ کی ہے۔ آیت زیر مطالعہ کا مضمون گویا اس سورت کا عمود ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اللہ کی اطاعت سے آزاد کسی دوسرے کی مستقل بالذات اطاعت تو شرک ہے ہی ‘ لیکن اگر کسی نے اللہ کی اطاعت کے ساتھ کسی اور کی اطاعت کو بھی شریک کرلیا تو ایسی جزوی یا مشترکہ اطاعت اللہ کو قبول نہیں۔ ایسی اطاعت اللہ کی طرف سے ایسے اطاعت گزار کے منہ پردے ماری جائے گی۔ اس حوالے سے سورة البقرۃ کی آیت 208 کا یہ حکم بہت واضح ہے : { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص } ”اے اہل ایمان ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو !“ یعنی اللہ کو ُ کلی اطاعت مطلوب ہے۔ کسی کی پچیس فی صد ‘ پچاس فی صد یا پچھتر ّ 75 فی صد اطاعت اسے قبول نہیں۔ یہ تو ہے عبادت کی اصل روح اور اطاعت کی اصل کیفیت جو اللہ کو مطلوب ہے۔ لیکن ایک ہم ہیں جو یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم پانچ یا دس فیصد اطاعت پر ہی اللہ کو نعوذ باللہ ٹرخا دیں گے اور وہ اسی معیار کی اطاعت پر ہمیں جنت اور اس کی نعمتوں سے نواز دے گا۔ دراصل ہماری اسی ٹیڑھی سوچ کی وجہ سے آج ہمارے ذہنوں سے زندگی کے تمام گوشوں میں اللہ کی کلی اطاعت اور کلی بندگی کا تصور نکل چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کے اسی تصور کو زیر مطالعہ سورتوں میں ایک خاص ترتیب سے اجاگر کیا گیا ہے۔ اس طرح کہ اس مضمون کی جڑیں اس پہلی سورت میں ملیں گی اور اس کی چوٹی چوتھی سورت یعنی سورة الشوریٰ میں جا کر نظر آئے گی۔

آیت 11 - سورہ زمر: (قل إني أمرت أن أعبد الله مخلصا له الدين...) - اردو