یہ منافقین جو مخلص اور رضاکار مومنین کا مذاق اڑاتے تھے ، کہ یہ لوگ اس کا کیوں مال لٹاتے ہیں ان کا انجام یہ ہے کہ خود حضور کے جانب سے طلب مغفرت بھی ان کے لیے مفید نہ ہوگی۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی شفقت کی وجہ سے ان خطاکاروں کے لی بھی مغفرت طلب کرتے تھے شاید کہ اللہ معاف کردے۔
لیکن ان لوگوں کے بارے میں اللہ نے صاف صاف بتا دیا کہ ان منافقین کا انجام طے شدہ ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ان لوگوں نے صیح راہ سے انحراف کرلیا ہے ، لہذا ان کا اب اچھے انجام تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کے دل اس قدر فاسد ہوچکے ہیں کہ ان کی اصلاح ممکن ہی نہیں ہے۔
لہذا حضور کو کہا جاتا ہے کہ اب اگر ستر مرتبہ بھی طلب مغفرت کریں ، کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ستر مرتبہ سے مراد کوئی متعین عدو نہیں ہے۔ اس سے مراد کثرت ہوتی ہے یعنی اب ان کی مغفرت کی کوئی امید نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ کیونکہ انسانی دل اگر فجور اور فساد کی ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو پھر اصلاح کی کوئی امید نہیں رہتی اور انسان جب گمراہی میں حد سے گزر جائے تو پھر راہ راست پر واپس آنے کی کوئی امید نہیں رہتی۔ اور اللہ تو دلوں کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے۔
آیت 80 اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْط اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ط یہ آیت سورة النساء کی آیت 145 اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج کے بعد منافقین کے حق میں سخت ترین آیت ہے۔
منافق کے لئے استغفار کرنے کی ممانعت ہے فرماتا ہے کہ یہ منافق اس قابل نہیں کہ اے نبی تو ان کے لئے اللہ سے بخشش طلب کرے ایک بار نہیں اگر تو ستر مرتبہ بھی بخشش ان کے لئے چاہے تو اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔ یہ جو ستر کا ذکر ہے اس سے مراد صرف زیادتی ہے وہ ستر سے کم ہو یا بہت زیادہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ مراد اس سے ستر کا ہی عدد ہے۔ چناچہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں تو ان کے لئے ستر بار سے بھی زیادہ استغفار کروں گا تاکہ اللہ انہیں بخش دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرمادیا کہ ان کے لئے تیرا استغفار کرنا نہ کرنے کے برابر ہے۔ عبداللہ بن ابی منافق کا بیٹا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ میرا باپ نزع کی حالت میں ہے میری خواہش ہے کہ آپ اس کے پاس تشریف لے چلیں، اس کے جنازے کی نماز بھی پڑھیں۔ آپ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا حباب۔ آپ نے فرمایا تیرا نام عبداللہ ہے، حباب تو شیطان کا نام ہے۔ اب آپ ان کے ساتھ ہوئے ان کے باپ کو اپنا کرتہ اپنے پسینے والا پہنایا اس کی جنازے کی نماز پڑھائی۔ آپ سے کہا بھی گیا کہ آپ اس کے جنازے پر نماز پڑھ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ستر مرتبہ کے استغفار سے بھی نہ بخشنے کو فرمایا ہے تو میں ستر بار پھر ستر بار پھر ستر بار پھر استغفار کروں گا۔