سورہ توبہ (9): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Tawba کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التوبة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ توبہ کے بارے میں معلومات

Surah At-Tawba
سُورَةُ التَّوۡبَةِ
صفحہ 200 (آیات 80 سے 86 تک)

ٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ ٱللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَٰسِقِينَ فَرِحَ ٱلْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَٰفَ رَسُولِ ٱللَّهِ وَكَرِهُوٓا۟ أَن يُجَٰهِدُوا۟ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَقَالُوا۟ لَا تَنفِرُوا۟ فِى ٱلْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا۟ يَفْقَهُونَ فَلْيَضْحَكُوا۟ قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا۟ كَثِيرًا جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ فَإِن رَّجَعَكَ ٱللَّهُ إِلَىٰ طَآئِفَةٍ مِّنْهُمْ فَٱسْتَـْٔذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُوا۟ مَعِىَ أَبَدًا وَلَن تُقَٰتِلُوا۟ مَعِىَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِٱلْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَٱقْعُدُوا۟ مَعَ ٱلْخَٰلِفِينَ وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِۦٓ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَمَاتُوا۟ وَهُمْ فَٰسِقُونَ وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَٰلُهُمْ وَأَوْلَٰدُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ أَن يُعَذِّبَهُم بِهَا فِى ٱلدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَٰفِرُونَ وَإِذَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ ءَامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَجَٰهِدُوا۟ مَعَ رَسُولِهِ ٱسْتَـْٔذَنَكَ أُو۟لُوا۟ ٱلطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا۟ ذَرْنَا نَكُن مَّعَ ٱلْقَٰعِدِينَ
200

سورہ توبہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ توبہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کردینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Istaghfir lahum aw la tastaghfir lahum in tastaghfir lahum sabAAeena marratan falan yaghfira Allahu lahum thalika biannahum kafaroo biAllahi warasoolihi waAllahu la yahdee alqawma alfasiqeena

یہ منافقین جو مخلص اور رضاکار مومنین کا مذاق اڑاتے تھے ، کہ یہ لوگ اس کا کیوں مال لٹاتے ہیں ان کا انجام یہ ہے کہ خود حضور کے جانب سے طلب مغفرت بھی ان کے لیے مفید نہ ہوگی۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی شفقت کی وجہ سے ان خطاکاروں کے لی بھی مغفرت طلب کرتے تھے شاید کہ اللہ معاف کردے۔

لیکن ان لوگوں کے بارے میں اللہ نے صاف صاف بتا دیا کہ ان منافقین کا انجام طے شدہ ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ان لوگوں نے صیح راہ سے انحراف کرلیا ہے ، لہذا ان کا اب اچھے انجام تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کے دل اس قدر فاسد ہوچکے ہیں کہ ان کی اصلاح ممکن ہی نہیں ہے۔

لہذا حضور کو کہا جاتا ہے کہ اب اگر ستر مرتبہ بھی طلب مغفرت کریں ، کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ستر مرتبہ سے مراد کوئی متعین عدو نہیں ہے۔ اس سے مراد کثرت ہوتی ہے یعنی اب ان کی مغفرت کی کوئی امید نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ کیونکہ انسانی دل اگر فجور اور فساد کی ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو پھر اصلاح کی کوئی امید نہیں رہتی اور انسان جب گمراہی میں حد سے گزر جائے تو پھر راہ راست پر واپس آنے کی کوئی امید نہیں رہتی۔ اور اللہ تو دلوں کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے۔

اردو ترجمہ

جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ "اس سخت گرمی میں نہ نکلو" ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fariha almukhallafoona bimaqAAadihim khilafa rasooli Allahi wakarihoo an yujahidoo biamwalihim waanfusihim fee sabeeli Allahi waqaloo la tanfiroo fee alharri qul naru jahannama ashaddu harran law kanoo yafqahoona

اب سیاق کلام ایک بار پھر ان لوگوں کی طرف پھرجاتا ہے جو رسول اللہ سے پیچھے رہ گئے تھے یعنی غزوہ تبوک کے اہم مرحلے میں۔

یہ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے ان سے یہ جرم دنیا پرستی کی وجہ سے سرزد ہوا۔ انہوں نے آرام اور راحت کو پسند کیا۔ انہوں نے انفاق فی سبیل اللہ سے پہلو تہی کی۔ کم ہمتی اور بےحمیتی اور بےایمانی اور دلی کمزور نے ان کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ یہ موقف اختیار کریں۔ ان کے لیے جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ بھی نہایت ہی حقارت امیز ہے یعنی یہ کوئی سامان ہے جو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ کو چھوڑ کر اس کے مقابلے میں امن و سکون اور عیش و راحت کو قبول کیا۔ انہوں نے رسول اللہ اور مجاہدین کو اکیلے چھوڑ کر سخت ترین گرمی کی مشقتوں کے لیے چھوڑ دیا اور اس بات کو پسند نہ کیا کہ اپنی جان و مال کے ذریعے اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس " جھلسا دینے والی گرمی میں مت نکلو " یہی اقوال ان تمام لوگوں کے منہ سے نکلتے ہیں جو عیش کوش ہوتے ہیں۔ یہ پست ہمت زنانہ چال والے لوگ ہوتے ہیں اور ان کو کسی صورت میں بھی مرد نہیں کہا جاسکتا۔

یہ لوگ ضعف ہمت کا نمونہ ہیں ۔ یہ کمزور ارادے کے لوگ ہیں۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مشکلات سے گھبراتے ہیں اور جدوجہد سے نفرت کرتے ہیں اور جہد و مشقت کے مقابلے میں ذلت آمیز راحت کو پسند کرتے ہیں۔ اور جہد و مشقت کی باعزت زندگی انہیں گوارا نہیں ہوتی۔ وہ شیر کی زندگی کی مقابلے میں گیدڑ کی زندگی کے خوگر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ آگے بڑھنے والی صٖفوں کے پیچھے تھکے ماندے پڑے رہتے ہیں۔ لیکن باہمت لوگوں کی یہ اگلی صفیں پر خطر اور کانٹوں والی راہوں کو چیرتی ہوئی اگے بڑھتی ہیں۔ اس لیے ان کی فطرت زندہ ہوتی ہے اور جانتے ہیں مشکلات کو انگیز کرنا اور آگے ہی بڑھتے چلے جانا انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ پیچھے رہنے اور گھروں میں بیٹھنے کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو دشمن کا سامنا کرنے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔

فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَكَرِهُوْٓا اَنْ يُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ ۭ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ۭ لَوْ كَانُوْا يَفْقَهُوْنَ ۔

جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ " اس سخت گرمی میں نہ نکلو " ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے ، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔

دنیا میں تو وہ گرمی سے جان بچا کر چھاؤں میں بیٹھ جائیں گے لیکن آخرت کی گرمی کا کیا علاج کریں گے۔ وہاں تو وہ دائما آگ میں رہیں گے۔ اللہ کی جانب سے یہ ایک حقیقت پسندانہ طنز ہے۔ دنیا میں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنا تو بہت قلیل مدت کی مشقت ہے بمقابلہ جہنم کی گرمی کے جہاں جو بھی جائے گا ایک طویل عرصہ تک رہے گا اور معلوم کہ کس قدر وہاں رہے گا

اردو ترجمہ

اب چاہیے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ، اس لیے کہ جو بدی یہ کماتے رہے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے (کہ انہیں اس پر رونا چاہیے)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falyadhakoo qaleelan walyabkoo katheeran jazaan bima kanoo yaksiboona

یہاں اگر کوئی ہنسے گا تو اس کی ہنسی مختصر ہوگی کیونکہ دنیا کی زندگی محدود ہے۔ اور آخرت میں پھر اسے ہمیشہ کے لیے رونا ہوگا۔ اور جیسا کرے گا ویسے بھرے گا۔ یہ نہایت ہی منصفانہ جزا ہے۔

یہ لوگ جنہوں نے جہاد کے مقابلے میں آرام کو پسند کیا اور اپنایا۔ اور مشکل حالات میں قافلہ اسلام سے پیچھے رہ گئے۔ یہ کسی بھی مشکل مہم کے لیے نااہل ثابت ہوچکے ہیں۔ یہ جہاد کے قابل ہی نہیں رہے۔ اس لیے ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی مناسب نہیں ہے۔ لہذا اب کسی بھی موقعہ پر انہیں شریک جہاد کرکے ان کو عزت نہ دی جائے کیونکہ اس اہم موقعہ پر انہوں نے خود اس اعزاز کو لات مار دی۔

اردو ترجمہ

اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا کہ، "اب تم میرے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیت میں کسی دشمن سے لڑ سکتے ہو، تم نے پہلے بیٹھ ر ہنے کو پسند کیا تھا تو اب گھر بیٹھنے والوں ہی کے ساتھ بیٹھے رہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fain rajaAAaka Allahu ila taifatin minhum faistathanooka lilkhurooji faqul lan takhrujoo maAAiya abadan walan tuqatiloo maAAiya AAaduwwan innakum radeetum bialquAAoodi awwala marratin faoqAAudoo maAAa alkhalifeena

دعوت اسلامی اور اسلامی تحریکات کو نہایت ہی مضبوط ، نہایت ہی سلیم الفطرت اور نہایت ہی راست باز لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے ، جن کے ارادے مصمم ہوں ، جو مشکلات کو انگیز کرنے والے ہوں ، دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے والے ہوں اور ایک طویل اور پر مشقت جدوجہد کے لیے تیار ہوں۔ لیکن جب اسلامی تحریکات کی صفوں میں عیش پسند ، راحت طلب ، اور کمزور یقین کے لوگ گھس آئیں تو وہ مشکل وقت میں اس کی شکست کا باعث بنتے ہیں۔ مشکل وقت وہ اضطراب اور انتشار کا سبب بنتے ہیں۔ لہذا اس قسم کے لوگ جن سے تحریک کے دوران ضعف و کمزوری کا صدور ہوجائے ان کو تحریک سے دور پھینکنا چاہیے تاکہ مشکل اوقات میں وہ کمزوری اور انتشار کا باعث بنیں اور یہ نہ ہو کہ جب خوشحالی کا دور دور ہو اور فتھ و کامرانی کا دور ہو اور تو یہ لوگ لوٹ کر مزے لوٹتے رہیں۔ صاف صاف کہہ دو اب تم میں ساتھ ہر گز نہیں چل سکتے نہ تم میری معیت میں کسی دشمن کے ساتھ لڑ سکتے ہو۔ تم نے خود پہلے بیٹھے رہنے کو پسند کیا۔

انکم رضیتم بالقعود اول مرۃ۔ تم نے جنگ تبوک کے لیے نکلنے کا شرف کھو دیا ہے۔ لشکر تبوک میں شمولیت کے اعزاز سے تم محروم ہوچکے ہو ، کیونکہ یہ شرف وہی حاصل کرسکتا تھا جو اس کے لیے اہل تھا۔ لہذا اس معاملے میں تمہارے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جاسکتی۔ اور نہ تم حسن سلوک اور معافی کے مستحق رہے ہو۔ لہذا اب تم انہی لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہو جو تمہارے ہم جنس اور ہم محفل اور ہم مشرب تھے۔ فاقعدوا مع الخالفین لہذا پیچھے رہنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو۔ یہ تھی وہ راہ جو اللہ نے اپنے نبی کے لیے تجویز کی تھی اور آج بھی نبی کے نقش قدم پر جو دعوت و تحریک برپا ہوگئی ہے۔ اس کی بھی یہی راہ و روش ہوگی۔ لہذا تحریک اسلام کے داعیوں اور کارکنوں دونوں کو یہ نکتہ یاد رکھنا چاہیے۔ ہر دور میں اور ہر جگہ۔

جس طرح حضور کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ ان لوگوں کو دوبارہ اسلامی صفوں میں شامل نہ کیا جائے ، کیونکہ انہوں نے مشکل حالات میں ساتھ چھوڑا ، اسی طرح یہ حکم بھی دیا گیا۔ آئندہ کے لیے ان کو اسلامی معاشرے میں کوئی اعزازو امتیاز نہ دیا جائے۔

اردو ترجمہ

اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نماز جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tusalli AAala ahadin minhum mata abadan wala taqum AAala qabrihi innahum kafaroo biAllahi warasoolihi wamatoo wahum fasiqoona

اس آیت کے پس منظر کے بارے میں بھی مفسرین نے متعین واقعات ذکر کیے ہیں لیکن اس آیت کا مفہوم ان واقعات سے عام ہے۔ یہاں اسلامی نظریہ حیات کی راہ میں جدوجہد کرنے والے گروہ کے بارے میں ایک اصول وضع کیا گیا ہے۔ یہ کہ اس جدوجہد کے معاملے میں جو لوگ عیش کوش ، آرام پسند ہیں اور مشکلات کو انگیز نہیں کرتے اور مشکل مہمات میں شامل نہیں ہوتے ، اسلامی قیادت کی طرف سے ایسے لوگوں کے ساتھ نہ نرمی برتی جائے اور نہ ایسے لوگوں کو اعزاز دیا جائے۔ اسلامی صفوں سے ایسے لوگوں کو دور رکھا جائے یا نہایت ہی پچھلی صفوں اور میں اور اس معاملے میں کوئی نرمی ، حسن سلوک یا رواداری نہ برتی جائے۔

یہاں اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا جنازہ نہ پڑھا جائے اور ان کی قبر پر آپ کھڑے نہ ہوں کیونکہ انہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ کفر کیا اور یہ لا عمل فاسق تھے اور منافق تھے۔ لیکن اس حکم سے جو عمومی اصول نکلتا ہے وہ زیادہ عام ہے۔ کیونکہ نماز جنازہ اور قبر پر کھڑے ہونے سے میت کو اعزاز ملتا ہے اور اسی اعزاز کے یہ لوگ مستحق نہیں ہیں۔ خصوصً جو لوگ نہایت ہی مشکل وقت میں مجاہدین کی صفوں میں کھڑے نہیں ہوتے ان کو اعزاز نہ دیا جائے تاکہ لوگوں کو اسلامی جدوجہد کی اہمیت معلوم ہو۔ اور کارکنوں کو معلوم ہو کہ اس معاملے میں اعزاز کے مستحق وہی لوگ ہوتے ہیں جو عملی جدوجہد کریں گے ، مشکلات کو انگیز کریں گے۔ مشکلات میں ثابت قدم رہیں گے۔ تب جا کر وہ اسلامی صفوں میں معزز ، مکرم اور ممتاز ہوں گے۔ اسلامی تحریک میں ایسے لوگوں کو نہ ظاہری اعزاز دیا جائے اور نہ باطنی۔

اردو ترجمہ

ان کی مالداری اور ان کی کثرت اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے اللہ نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ اِس مال و اولاد کے ذریعہ سے ان کو اسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tuAAjibka amwaluhum waawladuhum innama yureedu Allahu an yuAAaththibahum biha fee alddunya watazhaqa anfusuhum wahum kafiroona

تحریک اقامت دین کے لیے یہ ہمہ گیر ہدایت ہے کہ کسی کے مال و دولت کی وجہ سے اسے اعزاز نہ دیا جائے۔ نہ دل اور شعور میں ایسے لوگوں سے کوئی تاثر لیا جائے۔ یہ مال خود ان کے لیے وبال جان ہوں گے۔ کیونکہ اگر کوئی ان کے ظاہری مال سے متاثر ہوگا تو یہ بھی ان کے لیے اکرام ہوگا۔ دل کے اندر بھی ایسے لوگوں کی تکریم کا شعور نہ آنے پائے۔ ان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جائے۔

اردو ترجمہ

جب کبھی کوئی سورۃ اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسول کے ساتھ جہاد کرو تو تم نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحب مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیجیے کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha onzilat sooratun an aminoo biAllahi wajahidoo maAAa rasoolihi istathanaka oloo alttawli minhum waqaloo tharna nakun maAAa alqaAAideena

یہاں دو مزاجوں کا ذکر ہے۔ ایک ہے مزاج نفاق ، کمزوری اور ذلت کا اور دوسرا مزاج ہے ایمان ، قوت آزمائش کا۔ ایک مزاج کی منصوبہ بندی چالاکی ، پیچھے رہ جانے اور ذلت قبول کرنے کے خطوط پر ہوتی ہے اور دوسرے مزاج کی منصوبہ بندی استقامت ، خرچ اور عزت و شرف کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔

جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا حکم ہوتا ہے تو بعض لوگ جو استطاعت رکھتے ہیں جن کے پاس جہاد کے اخراجات کے لیے مناسب وسائل ہوتے ہیں ، وہ اپنی پوزیشن کے مطابق آگے نہیں بڑھتے۔ اس طرح اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ ذلت ، شرمندگی کی روش اختیار کرتے ہیں ، یہ لوگ عورتوں اور معذوروں کے ساتھ بیٹھے رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی عزت اور اپنے مقام کی مدافعت نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو یہ شعور ہی نہیں ہوتا ، نہ وہ یہ احساس کرتے ہیں کہ ان کی اس روش کی وجہ سے وہ کس قدر ذلیل و خوار سمجھتے جاتے ہیں۔ پس وہ یہی چاہتے ہیں کہ ہر قیمت پر زندہ رہیں۔ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ ہر قیمت پر زندہ رہنا ذلیلوں کا کام ہے۔

200