سورہ توبہ: آیت 8 - كيف وإن يظهروا عليكم لا... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورہ توبہ

كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا۟ عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا۟ فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَٰهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَٰسِقُونَ

اردو ترجمہ

مگر اِن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اُن کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kayfa wain yathharoo AAalaykum la yarquboo feekum illan wala thimmatan yurdoonakum biafwahihim wataba quloobuhum waaktharuhum fasiqoona

آیت 8 کی تفسیر

اب یہ بات بتائی جاتی ہے کہ اصولاً مشرکین کے ساتھ کے ساتھ اب معاہدے کیوں ممنوع کردیے گئے ؟ اس کے تاریخی اسباب یہاں گنوائے جاتے ہیں۔ عملی ضرورت بتائی جا رہی ہے اور فریقین کے درمیان نظریاتی اور ایمانی جدائیاں اور تضادات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

۔۔۔

مشرکین کے ساتھ اللہ اور رسول اللہ کا کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے ؟ وہ تو عہد کرتے بھی اس وقت ہیں جھب وہ تمہارے مقابلے سے عاجز ہوجائیں اور اگر وہ تم پر غالب آجائیں اور فاتح ہوجائیں تو تمہارے ساتھ وہ کام کریں جن کا تم تصور ہی نہیں کرسکتے۔ پھر وہ کسی معاہدے کا بھی خیال نہ رکھیں ، اپنی کسی ذمہ داری کا کوئی پاس نہ رکھیں ، وہ تمہارے خلاف مذموم افعال کے ارتکاب سے بھی نہ ہچکچائیں کیونکہ وہ فطرتاً کسی عہد اور کسی رشتہ داری کا کوئی پاس نہیں رکھتے اور ظلم و زیادتی میں حدیں پار کر جاتے ہیں اور تمہارے معاملے میں تو اپنے ان مذموم افعال کو بھی مذموم نہیں سمجھتے جو عموماً وہ اپنے معاشرے میں بہت ہی مذموم سمجھتے ہیں اور ان کا ارتکاب نہیں کرتے۔ ان کے دل میں تمہارے خلاف اس قدر بغض بھرا ہوا ہے کہ وہ تم پر ہر ظلم کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ قدرت پا لیں اگرچہ معاہدے قائم ہوں۔ یہ نہیں کہ وہ اپنے معاشرے میں بہت ہی مذموم سمجھتے ہیں اور ان کا ارتکاب نہیں کرتے۔ ان کے دل میں تمہارے خلاف اس قدر بغض بھرا ہوا ہے کہ وہ تم پر ہر ظلم کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ قدرت پا لیں اگرچہ معاہدے قائم ہوں۔ یہ نہیں کہ وہ محض معاہدوں کی وجہ سے تمہارے خلاف ایکشن نہیں لیتے بلکہ وہ قدرت ہی نہیں رکھتے۔ آج جبکہ تم طاقتور ہو ، وہ بظاہر تم سے نرم بات کرتے ہیں اور اظہار وفا کرتے ہیں لیکن ان کے دل تمہارے عناد کی وجہ سے کھول رہے ہیں اور وہ عہد پر قائم رہنے کا کوئی داعیہ نہیں رکھتے کیونکہ ان میں نہ وفا داری ہے اور نہ محبت ہے۔ ان کی حالت یہ ہے۔ وَاَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ اِشْتَرَوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭاِنَّهُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۔ اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی۔ پھر اللہ کے راستے میں سد راہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔ ان کے دلوں میں تمہارے خلاف حسد اور کینہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس کی یہی حقیقی وجہ ہے اور اسی وجہ سے وہ تمہارے ساتھ طے پاجانے والے معاہدات کے معاملے میں وفا کرنے والے نہیں ہیں۔ اور جس وقت بھی وہ قوت محسوس کریں وہ تم سے انتقام لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ اس معاملے میں وہ کوئی خلجان اور کوئی حجرج محسوس نہیں کرتے۔ ان وجوہات سے وہ فاسق قرار پاتے ہیں اور اللہ کی ہدایت سے خارج متصور ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اللہ کی آیات آئیں اور انہوں نے چند ٹکوں کے عوض انہیں پس پشت ڈال دیا۔ یہ دنیا جس میں وہ رہتے ہیں انہیں اس قدر عزیز ہے کہ اس کے مفادات کو آایت الہیہ پر انہوں نے ترجیح دی۔ ان کو یہ خوف دامن گیر تھا کہ اسلام کے اصلاح نظام کی وجہ سے ان کے مفادات پر زد پڑجائے گی۔ یا انہیں کچھ مزید ادائیگیاں کرنی پڑیں گی۔ اس لیے وہ دوسرے لوگوں کو بھی اسلام کی طرف آنے سے روکتے تھے اور خود بھی اس طرف نہ آتے تھے۔ اسی طرح یہ لوگ آئمہ کفر بن گئے تھے۔ اس لیے ان کے اس کرتوت کو اللہ نے اصل برائی یا برائیوں کی جڑ قرار دیا۔ انھم ساء ما کانوا یعملون " بہت برے کرتوت ہیں جو یہ کرتے ہیں " ان لوگوں کے دلوں میں پایا جانے والا بغض اور حقد تمہاری ذات تک محدود نہیں ہے اور ان کا یہ مکروہ منصوبہ صرف تم تک محدود نہیں ہے۔ یہ حسد انہوں نے تمام مومنین کے لیے چھپا رکھا ہے۔ ہر مسلم کے ساتھ وہ یہی مکروہ سلوک کے ساتھ وہ یہی مکروہ سلوک کرتے ہیں در اصل ان کا یہ سلوک تمہاری صفت کے ساتھ ہے یعنی صفت ایمان و اسلام کے ساتھ ، اور صفت ایمان اور اسلام۔ اسلامی تاریخ میں جن لوگوں کے اندر پائی گئی ہے ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا گیا اور اس بات کا اظہار ان ایمان لانے والے جادوگروں نے کیا تھا جو فرعون کے جذبہ انتقام اور غضب کا شکار بن گئے تھے۔ انہوں نے کہا وما تنقم منا الا ان امنا بایات ربنا لما جاء تنا۔ اور تم ہم سے یہ انتقام جو لے رہے ہو تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنے رب کی آیات کو مان لیا۔ جب وہ ہمارے سامنے آگئیں۔ اور رسول اللہ نے اپنے رب کی ہدایت کے مطابق اہل کتاب سے یہی کہا قل یا اھل الکتب ھل تنقمون منا الا ان امنا باللہ " اے اہل کتاب تم جو ہم سے انتقام لیتے ہو تو یہ صرف اس لیے ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں۔ اور اللہ نے اصحاب الاخدود کے بارے میں یہی کہا تھا ، جب ان کو جلایا گیا تھا۔ وما نقموا منہم الا ان یؤمنوا باللہ العزیز الحمید۔ اور ان لوگوں سے انتقام صرف اس لیے لیا کہ وہ اللہ عزیز وحمید پر ایمان لے آئے تھے۔ غرض مشرکین کی طرف سے انتقام کا سبب ماسوائے صفت ایمان کھے اور کوئی بات نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دشمنان اسلام نے صرف ایمان کی وجہ سے ہر مومن سے دشمنی رکھی اور اس بارے میں کسی عہد و پیمان اور رشتہ داری کا کوئی خیال نہ رکھا۔

آیت 8 کَیْفَ وَاِنْ یَّظْہَرُوْا عَلَیْکُمْ لاَ یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ الاًّ وَّلاَ ذِمَّۃً ط ایسے لوگوں سے آخر کوئی معاہدہ کیوں کر قائم رہ سکتا ہے جن کا کردار یہ ہو کہ اگر وہ تم پر غلبہ حاصل کرلیں تو پھر نہ قرابت داری کا لحاظ کریں اور نہ معاہدے کے تقدس کا پاس۔ یُرْضُوْنَکُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ راضی کرنا چاہتے ہیں تم لوگوں کو اپنے منہ کی باتوں سے اب وہ صلح کی تجدید کی خاطر آئے ہیں تو اس کے لیے بظاہر خوشامد اور چاپلوسی کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح آپ لوگوں کو راضی کرلیں۔وَتَاْبٰی قُلُوْبُہُمْ ج وَاَکْثَرُہُمْ فٰسِقُوْنَ جو باتیں وہ زبان سے کر رہے ہیں وہ ان کے دل کی آواز نہیں ہے۔ دل سے وہ ابھی بھی نیک نیتی کے ساتھ صلح پر آمادہ نہیں ہیں۔

کافروں کی دشمنی اللہ تعالیٰ کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول وقرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا۔ یہ تو وقت کے منتظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں۔ ان سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں۔ آل کے معنی قرابت داری کے ہیں۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور حضرت حسان کے شعر میں بھی یہی معنی کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا۔ یہی لفظ ال ایل بن کر جبریل میکائیل اور اسرافیل میں آیا ہے یعنی اس کا معنی اللہ ہے لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔ مجاہد کہتے ہیں مراد عہد ہے قتادہ کا قول ہے مراد قسم ہے۔

آیت 8 - سورہ توبہ: (كيف وإن يظهروا عليكم لا يرقبوا فيكم إلا ولا ذمة ۚ يرضونكم بأفواههم وتأبى قلوبهم وأكثرهم فاسقون...) - اردو