اس صفحہ میں سورہ At-Tawba کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التوبة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
فتح مکہ سے قبل صورت حال ایسی تھی کہ مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کے سلسلے میں بہت سے لوگ تذبذب اور الجھن کا شکار تھے۔ بعض مسلمانوں کے بیوی بچے اور بہت سے کمزور مسلمان جو ہجرت نہیں کر پائے تھے ‘ ابھی تک مکہ میں پھنسے ہوئے تھے۔ اکثر لوگوں کو خدشہ تھا کہ اگر مکہ پر حملہ ہوا تو بہت خون خرابہ ہوگا اور مکہ میں موجود تمام مسلمان اس کی زد میں آجائیں گے۔ اگرچہ بعد میں بالفعل جنگ کی نوبت نہ آئی مگر مختلف ذہنوں میں ایسے اندیشے بہر حال موجود تھے۔ اس سلسلے میں زیادہ بےچینی منافقین نے پھیلائی ہوئی تھی۔ چناچہ ان آیات میں مسلمانوں کو مکہ پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے۔آیت 7 کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ یہاں پر اس پس منظر کو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس سے قبل مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح حدیبیہ ہوچکی تھی ‘ لیکن اس معاہدے کو خود قریش کے ایک قبیلے نے توڑ دیا۔ بعد میں جب قریش کو اپنی غلطی اور معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے سردار ابو سفیان کو تجدید صلح کی درخواست کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ مدینہ پہنچ کر ابوسفیان سفارش کے لیے حضرت علی رض اور اپنی بیٹی حضرت اُمِّ حبیبہ رض اُمّ المؤ منین سے ملے۔ اِن دونوں شخصیات کی طرف سے ان کی سرے سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ بلکہ حضرت اُمِّ حبیبہ رض کے ہاں تو ابو سفیان کو عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہ جب اپنی بیٹی کے ہاں گئے تو حضور ﷺ کا بستر بچھا ہوا تھا ‘ وہ بستر پر بیٹھنے لگے تو اُمِّ حبیبہ رض نے فرمایا کہ ابا جان ذرا ٹھہریے ! اس پر وہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بیٹی نے بستر تہ کردیا اور فرمایا کہ ہاں ابا جان اب بیٹھ جائیے۔ ابوسفیان کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی ‘ وہ قریش کے سب سے بڑے سردار اور رئیس تھے اور بستر تہ کرنے والی ان کی اپنی بیٹی تھی۔ چناچہ انہوں نے پوچھا : بیٹی ! کیا یہ بستر میرے لائق نہیں تھا یا میں اس بستر کے لائق نہیں ؟ بیٹی نے جواب دیا : ابا جان ! آپ اس بستر کے لائق نہیں۔ یہ اللہ کے نبی ﷺ کا بستر ہے اور آپ مشرک ہیں ! چناچہ ابو سفیان اب کہیں تو کیا کہیں ! وہ تو آئے تھے بیٹی سے سفارش کروانے کے لیے اور یہاں تو معاملہ ہی بالکل الٹ ہوگیا۔ چناچہ مطلب کی بات کے لیے تو زبان بھی نہ کھل سکی ہوگی۔ بہر حال ابو سفیان نے رسول اللہ ﷺ سے مل کر تجدید صلح کی درخواست کی مگر حضور ﷺ نے قبول نہیں فرمائی۔ اِن حالات میں ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے چہ مہ گوئیاں کی ہوں کہ دیکھیں جی قریش کا سردار خود چل کر آیا تھا ‘ صلح کی بھیک مانگ رہا تھا ‘ صلح بہتر ہوتی ہے ‘ حضور ﷺ کیوں صلح نہیں کر رہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ چناچہ اس پس منظر میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک ان مشرکین کے لیے اب کوئی معاہدہ کیسے قائم رہ سکتا ہے ؟ یعنی ان کے کسی عہد کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر کس طرح باقی رہ سکتی ہے ؟اِلاَّ الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ج اس معاہدے سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ یعنی جب تک مشرکین صلح کے اس معاہدے پر قائم رہے ‘ تم لوگوں نے بھی اس کی پوری پوری پابندی کی ‘ مگر اب جب کہ وہ خود ہی اسے توڑ چکے ہیں تو اب تمہارے اوپر اس سلسلے میں کوئی اخلاقی دباؤ نہیں ہے کہ لازماً اس معاہدے کی تجدید کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کو معلوم تھا کہ اب ان مشرکین میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ مقابلہ کرسکیں۔ ان حالات میں معاہدے کی تجدید کا مطلب تو یہ تھا کہ کفر اور شرک کو اپنی مذموم سرگرمیوں کے لیے پھر سے کھلی چھٹی fresh lease of existance مل جائے۔ اس لیے حضور ﷺ نے معاہدے کی تجدید قبول نہیں فرمائی۔
آیت 8 کَیْفَ وَاِنْ یَّظْہَرُوْا عَلَیْکُمْ لاَ یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ الاًّ وَّلاَ ذِمَّۃً ط ایسے لوگوں سے آخر کوئی معاہدہ کیوں کر قائم رہ سکتا ہے جن کا کردار یہ ہو کہ اگر وہ تم پر غلبہ حاصل کرلیں تو پھر نہ قرابت داری کا لحاظ کریں اور نہ معاہدے کے تقدس کا پاس۔ یُرْضُوْنَکُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ راضی کرنا چاہتے ہیں تم لوگوں کو اپنے منہ کی باتوں سے اب وہ صلح کی تجدید کی خاطر آئے ہیں تو اس کے لیے بظاہر خوشامد اور چاپلوسی کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح آپ لوگوں کو راضی کرلیں۔وَتَاْبٰی قُلُوْبُہُمْ ج وَاَکْثَرُہُمْ فٰسِقُوْنَ جو باتیں وہ زبان سے کر رہے ہیں وہ ان کے دل کی آواز نہیں ہے۔ دل سے وہ ابھی بھی نیک نیتی کے ساتھ صلح پر آمادہ نہیں ہیں۔
آیت 9 اِشْتَرَوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلاً انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی قدر نہیں کی اور ان کے بدلے میں حقیر سادنیوی فائدہ حاصل کرلیا۔ انہوں نے محمد ﷺ کو اللہ کا رسول جانتے ہوئے اور حق کو پہچانتے ہوئے صرف اس لیے رد کردیا ہے کہ ان کی چودھراہٹیں قائم رہیں ‘ لیکن انہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ انہوں نے بہت گھاٹے کا سودا کیا ہے۔فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِہٖط اِنَّہُمْ سَآءَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنََ صَدَّ یَصُدُّ صَدًّا ‘ اس فعل کے اندر رکنے اور روکنے ‘ دونوں کے معنی پائے جاتے ہیں۔
آیت 11 فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ ط اللہ نے ان کے لیے اب بھی توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ اب بھی اگر وہ اسلام قبول کرلیں اور شعار دینی کو اپنا لیں تو وہ تمہاری دینی برادری میں شامل ہوسکتے ہیں۔
آیت 12 وَاِنْ نَّکَثُوْٓا اَیْمَانَہُمْ مِّنْم بَعْدِ عَہْدِہِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَءِمَّۃَ الْکُفْرِلا اِنَّہُمْ لَآ اَیْمَانَ لَہُمْ یہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کے اندر کافر اور مشرک تو بہت تھے مگر یہاں خصوصی طور پر کفر اور شرک کے پیشواؤں سے جنگ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ یہ ائمّۃ الکفر کفر کے امام قریش تھے۔ وہ کعبہ کے متولی اور تمام قبائل کے بتوں کے مجاور تھے۔ دوسری طرف سیاسی ‘ معاشرتی اور معاشی لحاظ سے مکہ کو اُمّ القریٰ کی حیثیت حاصل تھی اور وہ ان کے زیر تسلط تھا۔ اس وقت اگرچہ جزیرہ نمائے عرب میں نہ کوئی مرکزی حکومت تھی اور نہ ہی کوئی باقاعدہ مرکزی دارالحکومت تھا ‘ مگر پھر بھی اس پورے خطے کا مرکزی شہر اور معنوی صدر مقام مکہ ہی تھا ‘ اور اس مرکزی شہر اور اُمّ القریٰ میں واقع اللہ کے گھر کو قریش نے شرک کا اڈا بنایا ہوا تھا۔ اس لیے جب تک ان کو شکست دے کر مکہ کو کفر اور شرک سے پاک نہ کردیا جاتا ‘ جزیرہ نمائے عرب کے اندر دین کے غلبے کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے یہاں فَقَاتِلُوْٓا اَءِمَّۃَ الْکُفْرِ کا واضح حکم دیا گیا ہے ‘ کہ جب تک کفر کے ان سرغنوں کا سر نہیں کچلاجائے گا اور شرک کے اس مرکزی اڈے کو ختم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک سرزمین عرب میں دین کے کلی غلبے کی راہ ہموار نہیں ہوگی۔ لَعَلَّہُمْ یَنْتَہُوْنَ یعنی ان پر سختی کی جائے گی تو شاید باز آجائیں گے ‘ نرمی سے یہ ماننے والے نہیں ہیں۔
آیت 13 اَلاَ تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّکَثُوْٓا اَیْمَانَہُمْ وَہَمُّوْا بِاِخْرَاج الرَّسُوْلِ اے مسلمانو ! مشرکین مکہ نے صلح حدیبیہ کو خود توڑا ہے ‘ جبکہ تمہاری طرف سے اس معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی ‘ اور یہ وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو مکہ سے جلاوطنی پر مجبور کیا تھا۔ تو آخر کیا وجہ ہے کہ اب جب ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ تذ بذب کا شکار ہو رہے ہیں۔وَہُمْ بَدَءُ وْکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ط یعنی مکہ کے اندر مسلمانوں کو ستانے اور تکلیفیں پہنچانے کی کار ستانیاں ہوں یا غزوۂ بدر میں جنگ چھیڑنے کا معاملہ ہو یا صلح حدیبیہ کے توڑنے کا واقعہ ‘ تمہارے ساتھ ہر زیادتی اور بےاصولی کی پہل ہمیشہ ان لوگوں ہی کی طرف سے ہوتی رہی ہے۔اَتَخْشَوْنَہُمْ ج یہ متجسسانہ سوال searching question کا انداز ہے کہ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکو ‘ اپنے دلوں کو ٹٹولو ‘ کیا واقعی تم ان سے ڈر رہے ہو ؟ کیا تم پر کوئی بزدلی طاری ہوگئی ہے ؟ آخر تم قریش کے خلاف اقدام سے کیوں گھبرا رہے ہو ؟فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ اب اس کے بعد اقدام کرنے کا آخری حکم قطعی انداز میں دیا جا رہا ہے۔