اور اللہ نے تو مومنین کے حق میں فتح لکھ دی ہے اور ان کے ساتھ آخری فتح کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔ ان کو چاہئے جس قدر مشکلات بھی پیش آئیں ، وہ عظیم ابتلاؤں کے ساتھ دوچار کیوں نہ ہوں ، آخر کار ان کو فتح نصیب ہوگی اور یہ مشکلات اس فتح کی تمہید ہیں تاکہ مسلمانوں کو جب فتح نصیب ہو تو نظر آئے کہ وہ اس کے مستحق ہیں۔ اور یہ کہ وہ ان کی صفوں کو چھان کر صاف کردیا جائے اور یہ فتح و نصرت ، دنیاوی ذرائع اور وسائل کے اندر ہو اور مشکلات کے بعد ہو تاکہ مسلمان اس قدر و منزلت کا احساس کریں ، اور یہ فتح بلند ہمت لوگوں کی عظی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہو۔ ابتلاؤں کے بعد حاصل ہو اور لوگوں نے اس کے لیے قربانیاں دی ہوں۔ اور حقیقی و ناصر چونکہ اللہ ہی ہے اس لیے مسلمان ہمیشہ اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ، اپنی قربانیوں پر نہیں کرتے۔ علی اللہ فلیتوکل المومنون۔ لیکن اللہ کی تقدیر پر ایمان اور اللہ پر بھروسہ اس بات کے منافی نہیں ہیں کہ کوئی کسی کام کے لیے تیاری کرے اور ضروری وسائل جمع کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد کے بارے میں اللہ کا صریح حکم ہے کہ و اعدوا لہم ماستطعتم من قوۃ کہ تیار رکھو دشمنوں کے لیے اس قدر قوت جو تمہاری استطاعت کے اندر ہو۔ اور جو شخص اللہ کے احکام کو نافذ نہ کرے گا ، اس کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ متوکل ہے۔ پر توکل باز و استر بیند اور جو شخص حکم الہی کے مطابق اسباب مہیا نہیں کرتا وہ سنت الہی کے ادراک سے قاصر ہے جو اس کائنات میں جاری وساری ہے۔ یہ سنت اٹل ہے اور وہ کسی کی رو رعایت نہیں کرتی۔
مومن پر تو ہر حال میں وارے نیارے ہیں ، اگر اسے فتح ملے تو بھی کامیاب شہادت ملے تو بھی کامیاب۔ رہا کافر تو وہ ہر طرح ناکام ہے۔ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں دنیا ہی میں عذاب پا لے اور جہنم رسید ہو تو بھی ناکام اور طبعی موت مرنے کے بعد جہنم رسید ہو تو بھی ناکام۔
آیت 51 قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَاج ہُوَ مَوْلٰٹنَا ج ہم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اللہ ہی کی مرضی اور اجازت سے آتی ہے۔ اس کے اذن کے بغیر کائنات میں ایک پتابھی نہیں ہل سکتا۔ وہ ہمارا کارساز اور پروردگار ہے۔ اگر اس کی مشیت ہو کہ ہمیں کوئی تکلیف آئے تو سر آنکھوں پر ع سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ جو اس کی رضا ہو ہم بھی اسی پر راضی ہیں۔ اگر اس کی طرف سے کوئی تکلیف آجائے تو اس میں بھی ہمارے لیے خیر ہے ع ہرچہ ساقئما ریخت عین الطاف است ہمارا ساقی ہمارے پیالے میں جو بھی ڈال دے اس کا لطف وکرم ہی ہے۔ محبوب کی شمشیر سے ذبح ہونا یقیناً بہت بڑے اعزاز کی بات ہے اور یہ اعزاز کسی غیر کے نصیب میں کیوں ہو ‘ جبکہ ہماری گردنیں ہر وقت اس سعادت کے لیے حاضر ہیں : نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت سردوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی !