اس صفحہ میں سورہ At-Tawba کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التوبة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
یہ واقعہ اس وقت ہوا جب حضور ﷺ عوامی تائید کے ذریعے مدینہ تشریف لائے اور حالات یہ تھے کہ ابھی تک انہیں اپنے دشمنوں پر فیصلہ کن غلبہ حاصل نہ ہوا تھا اور مدینہ میں جب حضور کو کامیابی نصیب ہوتی رہیں تو ان اعداء نے بھی سر جھکا دئیے لیکن دل سے وہ تحریک جدید کو بدستور ناپسند کرتے رہے اور انتظار کرتے رہے کہ اسلام پر کوئی برا وقت آئے اور انہیں ریشہ دوانیوں کا موقع ملے۔
اب قرآن کریم ان لوگوں کی مختلف اقسام کی طرف اشارات کرتا ہے اور ان کے جعلی عذرات پر بھی کلام ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رسول اللہ کے خلاف ان کے سینوں میں کیا کیا عناد اور بغض بھرے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف وہ کس قدر کینہ رکھتے ہیں۔
محمد بن اسحاق نے زہری وغیرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضور ﷺ جہاد کی تیاریوں میں مصروف تھے (تبوک کے موقع پر) تو آپ نے بنو سلمہ کے بھائی جد ابن قیس سے کہا کہ جد کیا تم کو بنی اصغر (رومیوں) کے ساتھ جہاد میں دلچسپی ہے ؟ تو اس نے کہا حضور آپ مجھے اجازت ہی دے دیں اور فتنے میں نہ ڈالیں ؟ کدا کی قسم میری قوم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھ سے زیادہ یعورتوں کے ساتھ دلچسپی لینے والا کوئی نہیں ہے۔ اور مجھے یہ خوف ہے کہ اگر میں نے بنی الاصغر (رومیوں) کی عورتوں کو دیکھا تو میں صبر نہ کرسکوں گا۔ رسولا للہ نے اس سے منہ پھیرلیا اور کہا " میں نے تمہیں اجات دے دی " تو اس جد ابن قیس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
تمام منافقین اسی قسم کے عذرات پیش کرتے اور اللہ نے ان کو یہی جواب دیا۔ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَا تَفْتِنِّىْ ۭ اَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا ۭوَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ : " ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ " مجھے رخصت دے دیجئے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے " سن رکھو ! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے "۔ منظر کشی اس طرح ہے کہ گویا جہنم ایک فتنہ ہے۔ اور یہ لوگ اس میں گرتے جا رہے ہیں۔ جہنم ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور ان کے بچنے کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں۔ اور جہنم کا واحد رستہ کھلا ہے اور یہ لوگ آتے جاتے ہیں اور گرتے جاتے ہیں۔ یہ انداز تعبیر اس بات سے کنایہ ہے کہ انہوں نے پیچھے رہ کر ایک عظیم غلطی کا ارتکاب کرلیا ہے اور اب عذاب جہنم ان کے لیے حتمی ہے۔ اور یہ جزاء ان کے لیے جہاد سے پیچھے رہ جانے ، گرا ہوا موقف اپنانے اور بھونڈے عذرات پیش کرنے کی وجہ سے مقدر ہوچکی ہے۔ اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگرچہ یہ لوگ اظہار اسلام کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ منافق ہیں اور کافروں سے بد تر ہیں۔
ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ یہ رسول اللہ اور مسلمانوں کی بھلائی نہیں چاہتے اور اس بات پر بہت کڑھتے ہیں کہ رسول اللہ اور مسلمانوں کو کوئی برتری نصیب ہو۔ اگر مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو یہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرلی تھیں اس لیے ہم بچ گئے اور ہمیں ان مشکلات سے دوچار ہونا نہ پڑا اور اپنی جگہ یہ خوشیاں مناتے ہیں۔
لیکن یہ بہت ہی کم عقل ہیں صرف ظاہری باتوں پر ان کی نظر ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ مصائب ہر حال میں برے ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں گھروں میں بیٹھ کر اور جہاد سے پیچھے رہ کر انہوں نے بھلائی کما لی۔ حالانکہ ان کے دلوں میں اطاعت الٰہی نہ رہی اور انہوں نے رضائے الہی کے مقصد عظیم کو گنوادیا۔ حالانکہ ان کی بھلائی تو تسلیم و رضا اور جہاد میں تھی۔ ایک سچا مسلمان تو ہوتا ہی وہ ہے جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے ، آگے ہی بڑھتا ہے اور ڈرتا نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ خیر و شر تو اللہ کی طرف سے آتا ہے اور اللہ ہی ناصر اور معین ہے۔
اور اللہ نے تو مومنین کے حق میں فتح لکھ دی ہے اور ان کے ساتھ آخری فتح کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔ ان کو چاہئے جس قدر مشکلات بھی پیش آئیں ، وہ عظیم ابتلاؤں کے ساتھ دوچار کیوں نہ ہوں ، آخر کار ان کو فتح نصیب ہوگی اور یہ مشکلات اس فتح کی تمہید ہیں تاکہ مسلمانوں کو جب فتح نصیب ہو تو نظر آئے کہ وہ اس کے مستحق ہیں۔ اور یہ کہ وہ ان کی صفوں کو چھان کر صاف کردیا جائے اور یہ فتح و نصرت ، دنیاوی ذرائع اور وسائل کے اندر ہو اور مشکلات کے بعد ہو تاکہ مسلمان اس قدر و منزلت کا احساس کریں ، اور یہ فتح بلند ہمت لوگوں کی عظی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہو۔ ابتلاؤں کے بعد حاصل ہو اور لوگوں نے اس کے لیے قربانیاں دی ہوں۔ اور حقیقی و ناصر چونکہ اللہ ہی ہے اس لیے مسلمان ہمیشہ اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ، اپنی قربانیوں پر نہیں کرتے۔ علی اللہ فلیتوکل المومنون۔ لیکن اللہ کی تقدیر پر ایمان اور اللہ پر بھروسہ اس بات کے منافی نہیں ہیں کہ کوئی کسی کام کے لیے تیاری کرے اور ضروری وسائل جمع کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد کے بارے میں اللہ کا صریح حکم ہے کہ و اعدوا لہم ماستطعتم من قوۃ کہ تیار رکھو دشمنوں کے لیے اس قدر قوت جو تمہاری استطاعت کے اندر ہو۔ اور جو شخص اللہ کے احکام کو نافذ نہ کرے گا ، اس کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ متوکل ہے۔ پر توکل باز و استر بیند اور جو شخص حکم الہی کے مطابق اسباب مہیا نہیں کرتا وہ سنت الہی کے ادراک سے قاصر ہے جو اس کائنات میں جاری وساری ہے۔ یہ سنت اٹل ہے اور وہ کسی کی رو رعایت نہیں کرتی۔
مومن پر تو ہر حال میں وارے نیارے ہیں ، اگر اسے فتح ملے تو بھی کامیاب شہادت ملے تو بھی کامیاب۔ رہا کافر تو وہ ہر طرح ناکام ہے۔ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں دنیا ہی میں عذاب پا لے اور جہنم رسید ہو تو بھی ناکام اور طبعی موت مرنے کے بعد جہنم رسید ہو تو بھی ناکام۔
ان سے کہو تم ہمارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ اور ہم تمہارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ساتھ دلواتا ہے ؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں۔
آخر منافقین مسلمانوں کے بارے میں کس بات کا انتظار کریں۔ مسلمانوں کو ہر حال میں بھالئی اور کامیابی کی توقع ہے۔ یا تو فتح مند ہوں گے اور اللہ کا کلمہ بلند کردیں گے اور یہ کامرانی اس جہاں کی ہے۔ یا انہیں شہادت نصیب ہوگی اور شہید اعلی درجات پر فائز ہوتا ہے۔ ہاں مومنین ضرور انتظار کریں کہ منافقین کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ان کو اس طرح عذاب سے دوچار ہونا ہوگا۔ جس طرح تمام مکذبین عذاب سے دو چار ہوئے یعنی آخرت میں اور یا یہ ہوگا کہ وہ اس دنیا ہی میں پکڑے جائیں گے جس طرح تمام اہل باطل پکڑے جاتے ہیں۔ لہذا دونوں گروہوں کا انجام مشہور و معروف ہے۔
پیچھے رہنے والوں میں سے اور انتظار کرنے والون میں سے بعض ایسے لوگ بھی تے جنہوں نے اپنا مالی تعاون پیش کردیا تھا لیکن ذاتی طور پر جہاد میں شرکت سے وہ معذوری کا اظہار کر رہے تے اور یہ رویہ وہ اس لیے اختیار کر رہے تھے کہ وہ بدنام بھی نہ ہوں اور بین بین رہیں نہ ادھرکے نہ ادھر کے۔ چنانہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ان جیسے لوگوں کے مالی تعاون کو مسترد کردیں کیونکہ یہ لوگ مالی تعاون کی پیشکش خوف اور دکھاوے کے لیے کرتے ی۔ ایمان کے تقاضوں اور اللہ پر بھروسے کی وجہ سے وہ یہ انفاق نہٰں کر رہے۔ خواہ وہ یہ کام دکھاوے کے لیے کر رہے ہوں اور اہل ایمان کو دھوکہ دے رہے ہوں یا مشرکین کے ڈر کی وجہ سے کر رہے ہوں۔ دونوں صورتوں میں ان کا یہ فعل اللہ کے نزدیک مردود ہے اور اللہ کے ہاں اس کا کوئی اجر نہیں ہے۔
ہر دور میں منافقین کے یہی خدوخال ہوتے ہیں۔ وہ ہر وقت خوف اور پیچ و تاب میں ہوتے ہیں۔ ان کے دل خالی خالی اور ضمیر اور ان کی سوچ یکسوئی سے تہی دامن ہوتی ہے۔ ان کے مظاہر میں حقیقت کی روح نہیں ہوتی اور ان کا ظاہر ان کے باطن سے بالکل جدا ہوتا ہے۔
ذرا قرآن کے انداز تعبیر کو دیکھو و لا یاتون الصلوۃ الا وھم کسالی (نماز کے لیے آتے ہیں تو کسمساتے ہوئے) ۔ وہ نماز دکھاوے کے لیے پڑھتے ہیں وہ ظاہراً تو نماز ہوتی ہے لیکن ان کے اندر نماز کی روح نہیں ہوتی۔ وہ نماز کو درست کرکے استقامت کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ کیونکہ نماز پڑھنے پر جو جذبہ مجبور کرتا ہے وہ ان کے دل اور اندرون میں نہیں ہوتا بلکہ بعض بیرونی اسباب کے دباؤ کی وجہ سے وہ اس طرف مجبور ہوتے ہیں۔ لہذا وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں یہ فعل مجبوراً کرن اپڑ رہا ہے۔ اس طرح وہ اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے وہ بھی محض ظار داری کے لیے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقبول نہیں ہیں کیونکہ اللہ کسی بھی عبادت کو قبول نہیں کرتا جو دلی جذبہ اور شعوری ایمان کے نتیجے میں نہ ہو۔ لہذا معیار یہ ہے کہ اچھا عمل ہو اور اچھی نیت سے کیا جائے۔